مبارک ہو کہ پہلی بار جمہوریت
کے پانچ سال بیت گئے ان بیتے برسوں نے پاکستان کی تاریخ میں کئی انمٹ نقوش
چھوڑے ہیں جہاں اس ملک پر دہشت گردی کا راج رہاوہاں کبھی کبھی کوئی نہ کوئی
خوشی کی خبر بھی مل ہی جاتی تھی مگر سب سے پہلے اس بات کا ذکر ضروری سمجھتا
ہوں کہ خوش قسمتی سے پاکستان کی جمہوری اور پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار
موجودہ قومی اسمبلی نے کیلنڈر پر موجود دن پورے کرتے ہوئے اپنے آخری
پارلیمانی سال کے 130 دن منگل کو پورے کر لئے موجودہ قومی اسمبلی 16 مارچ
کو وجود میں آئی تھی۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد ایک سال کے دوران قومی اسمبلی
کا اجلاس 130 دن ہونے کی شرط عائد کی گئی تھی۔ موجودہ اسمبلی نے پانچوں
پارلیمانی سال کے دوران کیلنڈر پر موجود دن پورے کئے ہیں رواں قومی اسمبلی
کے پانچ سال کے دوران 8 اراکین قومی اسمبلی وفات پا گئے، ان میں پاکستان
پیپلز پارٹی کی خواتین کی نشستوں پر کامیاب رکن فوزیہ وہاب، مہرالنسا
آفریدی، اقلیتی رکن شہباز بھٹی، پیپلز پارٹی کے وہاڑی سے رکن عظیم دولتانہ
اور جعفر آباد سے رکن تاج جمالی انتقال کر گئے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رکن
عبدالمتین خان، مسلم لیگ (ن) کے رکن نیاز محمد خان اور مسلم لیگ (ق) کے رکن
جام یوسف بھی وفات پا گئے۔ موجودہ قومی اسمبلی میں 23 نشستوں پر مختلف
وجوہات کی بنا پر ضمنی انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔ قومی اسمبلی نے 6 مارچ
2013 تک کل 125 بل پاس کئے جن میں 1973 کے آئین کو اصل شکل میں بحال کرنے
کی اٹھارویں ترمیم، الیکشن کمیشن، خواتین اور بچوں پر جبری تشدد کے خاتمے،
انسانی حقوق کمیشن کے قیام، ڈی ایچ اے سمیت دیگر اہم بل شامل ہیں۔ موجودہ
اسمبلی نے 80 قراردادیں منظور کیں جن میں ڈرون حملے روکے جانے، دہشت گردی
کے واقعات سمیت دیگر ترامیم شامل تھیں مگر ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی
ایک بڑی حقیقت رہی ہے کہ اسی جمہوری حکومت کے ان پانچ سالوں کے دوران جہاں
غریب غربت کی دلدل میں دھنستا چلاگیاہو ،بجلی ،گیس نے ہماری مت مار رکھی ہو
اور لاقانونیت اور ٹارگٹ کلنگ کا جن بوتل سے باہر نکل چکا ہواور آج ہمارے
ملک میں معاشی نا ہمواری سے عوام مہنگائی ، بے روزگاری، بجلی ، گیس اور
پٹرول کے بحران میں پھنس چکی ہو ملک پر جاگیرداروںاور سرمایہ داروں کا قبضہ
ہو اور اوپربد سے بدترین یہ ہو کہ ملک میں اس وقت سالانہ 150کھرب روپے کی
کرپشن بھی ہو رہی ہے اور ان سب سے بڑی خرابی دہشت گردی بھی ہوجس نے ملک کو
تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے او ر بین القوامی سطح پر پاکستان کو جو
دھچکا لگا وہ بھی انہی پانچ سالوں میں زیادہ رہااتنی زیادہ وبائی امراض
دیکر اب حکومت رخصت ہونے والی ہے اگر جاتے جاتے ایک کام اور کرجاتے کہ
طالبان سے مذاکرات کرکے انہیں پاکستان سے دشمنی کی بجائے محبت کا درس دے
جاتے کیونکہ ملک میں جاری دہشت گردی کی وجہ سے جو خاندان متاثر ہو چکا ہے
اس قیامت خیزی کااندازہ تو صرف وہ ہی لگا سکتا ہے اور ہم اب مزید بے گناہوں
اور معصوم پاکستانیوں کو دہشت گردی کی زد میں آنے سے بچا سکتے ہیں جبکہ اس
سلسلہ میںطالبان کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش خوش آئند ہے اور حکومت کو
چاہےے کہ وہ طالبان سے قیام امن کے لئے فوری طور پر مذاکرات کرے امریکہ اور
یورپی ممالک جب طالبان سے مذاکرات کرسکتے ہیں تو ہماری حکومت کی جانب سے
مذاکرات کرنے میں کیا قباحت ہے -
آخر میں کچھ انقلابی شاعر جناب حبیب جالب کے بارے میں جن کی 20ویں برسی
گذشتہ روز منائی گئی حبیب جالب عہد حاضر کے نمائندہ و انقلابی اور عوامی
شاعر تھے۔ جالب نے ہمیشہ صداقت کا علم بلند رکھا اور ریاستی جبر کے باوجود
صدائے حق کا ساتھ دیااور سب سے بڑی بات کہ حبیب جالب ایک بہادر نڈر ، بے
باک اور حق گوانسان تھے جنہوں نے ظلم و جبر کی تمام قوتوں کے خلاف مذاہمت
کی یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری آئندہ نسلوں کے لئے مشعل راہ ہے حبیب جالب
جیسی نابغہ روز گار شخصیات خال خال جنم لیتی ہیں وہ اپنے عہد کے سچے ترجمان
اور جمہوریت پسند شاعر ہی نہیں بلکہ بہادر انسان بھی تھے اور جالب اقتدار
پسند حکمرانوں کے لئے خوف کی علامت تھے جرات اظہار کی پاداش میں ملنے والی
قید و بند کی تکالیف بھی انہیں عوام کی آس کی ترجمانی سے روک نہ سکیں یہی
وجہ ہے کہ آج کے حکمران بھی عوامی جذبات کی ترجمانی کے لیے جناب حبیب جالب
کی شاعری کا سہارا لیتے ہیں مگر انکے بچوں سے کیے ہوئے وعدوں پر عمل نہیں
کرتے - |