مولا علی کا فرمان ہے لوگوں کے
خوف سے سچ بات کہنے سے نہ رکو کیونکہ نہ تو کوئی موت کو قریب لاسکتا ہے اور
نہ ہی رزق کو دور کیا جاسکتا ہے۔ حق اور سچائی کا راستہ کتنا ہی طویل اور
کٹھن نہ ہو کتنا صبر آزما کیوں نہ ہو اس میں بھٹکنا نہیں پڑتا پلٹنا نہیں
پڑتا پچھتانا نہیں پڑتا اور اسکے اختتام پر ایک عظیم ترین کامیابی حق
پرستوں کا انتظار کررہی ہوتی ہے۔ راقم الحروف کے کم مایہ زہن پرمندرجہ بالہ
فرامین کے تازیانے برسنے لگے جب لوئر پنجاب کی دورافتادہ تحصیل کوٹ ادو میں
یذیذیت کے پیروکار غنڈوں کے ہاتھوں دو معصوم بہن بھائیوں کو دریائے سندھ
میں غرق کرنے کی داستان الم منظر عام پر آئی۔ دو معصوم پھولوں طاہرہ بہن
اور امجد بھائی کو دریا میں ڈبو کر ہلاک کرنے اور سرکاری انتظامیہ و
پولیسdd panah کی تساہل پرستی اور ملزمان کی شفقت گیری پر پورا علاقہ
سوگوار بنا ہوا ہے۔کوئی خون کے انسو رو رہا ہے تو کوئی جاگیرداریت
استعماریت کے جبر و ستم پر کف افسوس مل رہا ہے۔ کوئی خادم اعلٰی کی راہ تک
رہا ہے تو کوئی سپریم کورٹ کے سو موٹو ایکشن کی صدا بلند کررہا ہے۔کوٹ ادو
کی فضاؤں میں ہر طرف رنج و الم کا سماں ہے۔ پرندوں کی چہچہاہٹ میں روکھا پن
ہے۔دریائے سندھ کی خونی لہریں بھی مضطرب ہیں۔ تونسہ موڑ سے لیکر پاکستان کے
دوسرے بڑے بیراج ہیڈ تونسہ تک اور بستی شیخاں سے لیکر دریائے سندھ کے
طوفانی ریلوں تک شام غریباں چھائی ہوئی ہے۔ ہیڈتونسہ بیراج پر تکبر رعونت
سیاسی قوت کے مکروہ مظالم اور فرعونی طاقت کی آڑ میں مقہور مجذوب اور محکوم
طبقے کے بدقسمت خاندان پر بربریت اور وحشت ڈھانے والے سانحے کی تفصیل کچھ
یوں ہے۔ ہیڈ تونسہ بیراج سے آدھے کلومیٹر کی دوری پر ایک بستی شیخاں آباد
ہے جہاں مچھیروں اور کشتی رانوں کی بڑی تعداد عرصہ دراز سے موجود ہے۔بستی
شیخاں میں رہنے والے90٪ لوگ خط غربت سے بھی نیچے بھوک و ننگ کی زندگی گزار
رہے ہیں۔یہ لوگ اپنے بال بچوں کی روزی روٹی کی خاطر دریا سے مچھلیاں پکڑتے
ہیں۔دوسری طرف انکے بچے عورتیں اپنی دیسی کشتیوں میں سوار ہوکر دریائے سندھ
کے دوسرے کنارے پر سرکاری جنگلات سے جھاڑیاں وغیرہ اکٹھی کرتے ہیں جو انکے
لئے ایندھن کا بڑا زریعہ ہیں۔ہیڈتونسہ بیراج کے ارد گرد ہزاروں ایکڑ سرکاری
زمین کو جنگلات نے گھیر رکھا ہے۔ جرائم پیشہ افراد اور سیاسی مہاراجوں کے
لاڈلے گروہوں نے جنگلات کی آدھی سے زیادہ لکڑی چوری کی اور کروڑوں کھرے کئے
۔ علاقے کا بچہ بچہ وڈ مافیا کے معزز لٹیروں کے ناموں سے آگاہ ہے مگر قانون
کے محافظوں نے کبھی کسی چور اچکے پر ہاتھ نہیں ڈالا۔ ہیڈ تونسہ بیراج کی
لاکھوں ایکڑ زرعی سرکاری زمینوں اور شکار گاہوں پر گودے اور وڈیرے قابض
ہیں۔1990 کی دہائی تک یہاں سابق گورنر پنجاب ملک غلام مصطفی کھر کے بھائی
میلادی کھر کا حکم ثانی چلتا تھا۔ ہنجرا خاندان کے سربراہ ملک سلطان
ہنجراpp 251 پرmpaمنتخب ہوئے تو ہیڈتونسہ بیراج کی گیم سنچریوں پر ملک افضل
ہنجرا ex چیرمین ضلع کونسل کی عملداری قائم ہوگئی۔ افضل ہنجرا پچھلے
28سالوں سے بیٹ کے دریائی علاقوں اور سرکاری زمینوں کے بے تاج بادشاہ چلے
آرہے ہیں۔ انکی جنبش ابرو کے بغیر وہاں کوئی پرندہ بھی پر نہیں مارسکتا۔دو
مارچ کاسورج بستی شیخاں کے مکینوں کے لئے بدبختی کا سامان لیکر طلوع
ہوا۔ایک گھرانے کے سات افراد حسب معمول لکڑیاں چننے کی خاطر جنگل میں
گئے۔شام کو دومن لکڑیوں کے ساتھ کشتی میں واپس پلٹ رہے تھے تو عاشق گاڈی
عرف دیدہ اور اسکے مسلح غنڈوں نے کشتی پر ہلہ بول دیا۔ ظالموں نے عمررسیدہ
شیخوں کو تشدد کے بعد کشتی سے باہر نکال پھینکا۔ دو بچے طاہرہ عمر11اسکا
بھائی امجد10 سال وڈ مافیا کے مین ڈان عاشقی دیدہ اور سجی گاڈی کے تشدد اور
ہیبت سے تھر تھر کانپ رہے تھے۔ انکی چیخ و پکار سے دریائے سندھ کے کناروں
پر بچھے ہوئے چٹانی پتھر بھی چور چور ہوگئے مگر قاتلوں کو رحم نہ آیا۔بہن
بھائی ہاتھ جوڑ کر ایک دوسرے کی زندگی بچانے کی سعی کررہے تھے مگر وڈ مافیا
پر شیطانیت کا غلبہ طاری تھا۔ لینڈ مافیا اور وڈ مافیاکے فرعونی دہشت گردوں
نے دونوں معصوموں کو اٹھا کر دریا برد کردیا جو فوری طور پر جان کی بازی
ہار گئے۔ گیارہ سالہ مقتول بھائی 7 بہنوں کی آنکھوں کا نور اور والدین کے
دلوں کا سرور اور اکلوتا فرزند اور ویرتھا جو بہن سمیت فرعونیت و بربریت کا
نشان بنکر اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ ماں جو گھر کی خوشبو ہے جس کی مہک سے
پورا گھر جھوم اٹھتا ہے۔ خلیل جبران نے کہا تھا ماں ایک آہ بھی ہے جو سیدھی
عرش معلی پر جاتی ہے۔ماں دوبچوں کی ہلاکت پر نوحہ خواں ہے وہ بار بار اپنی
بیٹی اور بیٹے کو پکارتی رہتی ہے۔ وہ ہواس باختہ ہے ۔یاد رہے کہ ماں کی اس
آہ سے نہ تو کبھی کوئی بادشاہ بچ سکا اور نہ ہی کوئی وڈیرہ۔اہل علاقہ نے ڈی
ڈی پناہ تھانے میں پولیس کو آگاہ کیا مگر پتھر دل قوم کے محافظ موقع واردات
پر نہ پہنچے۔ مظلوم شیخ برادری نےna 176 کےmna محسن علی قریشی کے فرزند
ڈاکٹر شبیر علی قریشی سے مدد طلب کی جو فوری طور پر ہیڈتونسہ بیراج جاپہنچے
اور دونوں لاشوں کے ہمراہ تین گھنٹے تک لیہ تونسہ ڈی جی خان روڈ پر دھرنا
دیا۔mna کی اہلیہ اور پی پی پی کے ٹکٹ ہولڈر ڈاکٹرشبیر علی قریشی کی والدہ
سینیٹر خالدہ محسن قریشی نے فوری طور پر وزیرداخلہ رحمان ملک اور دیگر حکام
سے رابطہ کیا پھر کیا تھا پولیس کی دوڑیں لگ گئیں آفیسرز ہیڈتونسہ بیراج پر
آن دھمکے۔na 176 سے پی پی پی کے امیدوار ڈاکٹر شبیر علی قریشی اورpp 251 سے
ppp کے امیدواربیرسٹر یوسف ہنجرا کی پشت پر5 ہزار سے زائد ورکرز اہل علاقہ
اور مظاہرین کا ناقابل شکست مجمع قاتلوں کی گرفتاری اور سنگین سزاوں کا
مطالبہ کررہا تھا۔ڈاکٹر شبیر علی اور پانچ ہزار مظاہرین کے اژدہام کے
مطالبے پر علاقے میں وحشت کا نشان سمجھے جانیوالے عاشق گاڈی دیدہ اور سجاد
گاڈی کے خلاف302 قتل کی ایف آئی آر درج کی گئی۔ بستی شیخاں کے ہزاروں
مکینوں نے نہ صرف ڈاکٹر شبیر علی قریشی کے حق میں نعرے بازی کی بلکہ اسکی
ثابت قدمی جرات باہمتی اور غریب پروری کو خراج عقیدت پیش کیا ۔ ڈاکٹر شبیر
علی قریشی نے ہیڈتونسہ بیراج پر مسلط گودوں کے محلات میں دراڑیں ڈال دیں جو
اسکے روشن مستقبل کی نوید ہے۔ قاتلوں دور حاظرہ کے جابر وڈیروں کو حضرت
جابر علیہ اسلام کی روایت کردہ حدیث نبوی پر غور خوض کرنا چاہیے تاکہ انہیں
فطرت یزداں کے اٹل قانون کا پتہ چل سکے۔ حضرت جابر حضرتﷺ سے روایت کرتے ہیں
کہ اپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ پاک بروز جزا چند انسانوں کو چیونٹیوں کی شکل
میں اٹھائے گا لوگ انہیں پیروں تلے روند دیں گے پوچھا جائیگا یہ کون لوگ
ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو تکبر کرتے تھے ۔جنوبی پنجاب میں جاگیرداروں کی سطوت
کے انہونے واقعات ہوتے رہتے ہیں مگر اکثر اوقات وہ میڈیا کی نظروں سے بچ ہی
جاتے ہیں کیونکہ کوئی گواہی پر امادہ نہیں ہوتا۔ صاحبان بصیرت اور اہل علم
و دانش کا فرض ہے کہ وہ سامراجی عزائم کے پالنہار جاگیرداروں وڈیروں کی
جبریت کے خلاف مولا علی کے ابتدائی قول کی روشنی میں قلم و زبان کا
بیباکانہ استعمال کریں۔ اہلیان حلقہ ڈاکٹر شبیر علی قریشی کو گودہ ازم کے
خلاف سربکف ہونے اور سچائی کے کٹھن راستوں کو اپنانے پر مبارکباد پیش کرتے
ہیں۔ بحرف اخر کوٹ ادو کی چھ لاکھ آبادی چیف جسٹس اف پاکستان سے سویو موٹو
ایکشن کی اپیل کرتی ہے۔ملزمان کو سخت ترین سزا دی جائے ورنہ ظالموں قاتلوں
اور گودوں کے ساتھ ساتھ بے حس بنی ہوئی قوم عذاب الہی کے لئے تیار رہے۔ |