ایران سے پاکستان کو پائپ لائن
کے ذریعے گیس فراہم کرنے کے منصوبے کا باضابطہ افتتاح کر دیا گیا ہے۔ اس
سلسلے میں ایرانی سرحدی مقام چاہ بہار میں ایک سادہ مگر پروقار تقریب کا
انعقاد کیا گیا۔ جس میں دونوں ممالک کے صدور، وزراء، ارکان پارلیمان شریک
ہوئے۔ اس موقع پر عرب ممالک کے سفارت کار بھی موجود تھے۔ بتایا گیا ہے کہ
1600 کلو میٹر طویل اور 42 انچ قطر کی حامل اس پائپ لائن سے پاکستان کو
روزانہ ساڑھے 21ملین کیوبک میٹر قدرتی گیس حاصل ہوگی۔ گیس کی مدد سے بجلی
بھی بنائی جاسکے گی۔ یوں 2 ہزار میگاواٹ بجلی نظام میں شامل ہوجائے گی۔
ایران اپنے علاقے میں 900 کلو میٹر پائپ لائن ڈال چکا ہے، جبکہ ایرانی سرحد
سے سندھ کے شہر نواب شاہ تک 785کلو میٹر پائپ لائن بچھانا ابھی باقی ہے۔
منصوبے کا جو ٹائم فریم سامنے آیا ہے، اس کے مطابق یہ کام اگلے 15 ماہ میں
مکمل کرلیا جائے گا۔ اس منصوبے پر اخراجات کا تخمینہ ساڑھے 7 ارب ڈالر
لگایا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق تعمیراتی اخراجات اندازوں سے کہیں زیادہ
ہوسکتے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور عوام نے اس گیس منصوبے کی بھرپور حمایت کرتے
ہوئے اسے ملکی تاریخ کا اہم سنگ میل قرار دیا ہے۔ بلاشبہ اس تاریخی کامیابی
کا سہرا پیپلزپارٹی، خاص طور پر صدر زرداری کے سر بندھتا ہے۔ ایٹمی پلانٹ
کی تعمیر کے بعد یہ دوسرا ایسا موقع ہے جب پیپلزپارٹی نے امریکی دباؤ کو
مسترد کرتے ہوئے عوامی امنگوں کے مطابق کوئی قدم اٹھایا ہے۔ پاکستان گزشتہ
کئی برسوں سے توانائی کے شدید بحران کی لپیٹ میں ہے۔ ہمارے شہر اور گاؤں دن
میں 12، 12 گھنٹے بجلی سے محروم رہتے ہیں۔ صنعتی علاقے بھی لوڈشیڈنگ سے
محفوظ نہیں، کارخانوں کو ہفتے میں ایک آدھ بار ہی گیس مل پاتی ہے۔ اس صورت
حال نے معیشت کے پہیے کو جام کردیا ہے، کارخانوں پر تالے پڑنے سے ہزاروں
لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں۔ گھریلو صنعتیں بھی دم توڑتی جارہی ہیں۔ پہلے
کمرشل علاقوں میں گیس کی لوڈشیڈنگ ہوتی تھی، اب یہ سلسلہ گھروں تک پہنچ گیا
ہے۔ پنکھا چلائیں تو وہ نہیں چلتا، چولہا جلائیں تو جلتا نہیں، دکان کھولیں
تو بجلی نہیں، گاڑی باہر نکالیں تو گیس نہیں، یہ وہ حالات ہیں جنہوں نے ایک
طرف تو پاکستانیوں کی جیب خالی اور دوسری طرف انہیں ذہنی مریض بنادیا ہے۔
عالمی برادری نے اس دلدل سے نکلنے میں پاکستان کی کوئی مدد نہیں کی،
حالانکہ پاکستان اس کا حق دار بھی تھا، کیونکہ پاکستان اپنے وسائل کا بڑا
حصہ امریکی جنگ میں جھونک چکا ہے، اس ضمن میں جو امداد دی گئی اس کا بڑا
حصہ مشاورت کے نام پر دوبارہ امریکی ماہرین کی جیبوں میں چلا گیا۔ ایران سے
گیس لینے کی بات 1996ء سے چل رہی تھی۔ اگر عالمی برادری چاہتی تو پاکستان
کو کوئی بڑی پیشکش کرکے اس منصوبے سے روک سکتی تھی، مگر عالمی برادری محض
دھونس دھمکیوں تک محدود رہی، اس نے نہ تو خود پاکستان کو کچھ دیا اور نہ ہی
کسی اور ملک سے لینے کی اجازت دینے پر تیار ہے۔
توانائی کا حصول پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا ہے، یہی وہ
مجبوری ہے جس نے ممولے (پاکستان)کو شہباز (امریکا) سے لڑادیا ہے۔ قوم بہت
پرامید ہے، وہ سمجھتی ہے کہ گیس پائپ لائن اس کی ترقی اور خوشحالی کی نوید
لارہی ہے، توانائی بحران سے اس کی جان چھوٹ جائے گی، اب دوبارہ چمنیوں سے
دھواں نکلنا شروع ہوجائے گا، گیس منصوبے سے یہ سب توقعات وابستہ کرنا کچھ
غلط بھی نہیں ہے۔ اگر یہ منصوبہ مکمل ہوجائے تو یقینا وہ سب کچھ حاصل
ہوجائے گا جس کی توقع کی جارہی ہے۔
امیدیں اور توقعات اپنی جگہ، ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ گیس
منصوبہ اپنے ساتھ کچھ مسائل بھی ساتھ لارہا ہے۔ امریکا اس منصوبے پر
پاکستان سے سخت ناراض ہے۔ تاریخ پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ امریکا
اپنے مخالفین کو سبق سکھانے کی ضرور کوشش کرتا ہے، پابندیوں کی دھمکی تو دے
چکا ہے، نہ جانے وہ پاکستان کو گھیرنے کے لیے مزید کون کون سے ہتھکنڈے
استعمال کرے گا۔ امریکا کی ناراضی کی وجہ سے پاکستان کو معاشی اور سفارتی
محاذ پر شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ قوم تو ہر طرح کی قربانی
دینے کے لیے تیار ہے مگر ہمارا حکمران طبقہ اور بیوروکریسی امریکا سے
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی عادی نہیں ہے، اس لیے لگتا یہی ہے کہ
وہ زیادہ عرصہ تک امریکی دباؤ کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔
گیس پائپ لائن کا بڑا حصہ بلوچستان کے ان علاقوں سے گزرے گا، جہاں علیحدگی
پسندوں کے مضبوط ٹھکانے موجود ہیں۔ بلوچ مسلح گروہ پاکستان اور ایران دونوں
کے مخالف ہیں، اس لیے یہ ان دونوں ممالک کے حامیوں اور ان ملکوں کی تنصیبات
کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ گیس پائپ لائن ان کا بڑا ہدف بن سکتی ہے۔ سینکڑوں
کلو میٹر طویل پائپ لائن کی حفاظت کے لیے بڑے پیمانے پر انتظامات کرنا پڑیں
گے، لازمی بات ہے سیکورٹی معا ملات پر آنے والا خرچہ پاکستان کو برداشت
کرنا پڑے گا، کہیں ایسا نہ ہو گیس ملنے سے جو فائدہ ہو اس سے زیادہ پیسا
پائپ لائن کی حفاظت پر لگ جائے۔ بلوچستان میں ابھی سے گیس منصوبے کے خلاف
آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں، مختلف قوم پرست جماعتوں نے پاک ایران معاہدے
کو شدید تنقید کانشانہ بنایا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ منصوبے کی مخالفت
میں اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔ مسلح علیحدگی پسند عوام کے جذبات سے کھیلنے کی
پوری پوری کوشش کریں گے۔
اسی طرح مسلم ممالک میں اپنے مخصوص مذہبی عقائد کی اشاعت اور نفاذ ایران کی
خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ ہے۔ ماضی میں کئی ممالک میں ایران کی اس نوعیت
کی دخل اندازی کی وجہ سے امن وامان کے سنگین مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں۔
پاکستان 1979ء کے بعد سے ایسے ہی حالات سے گزررہا ہے۔ یہاں بھی بیرونی
مداخلت کی وجہ سے سنی شیعہ تنازع مسلح تصادم کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ اس
لڑائی میں سینکڑوں لوگ جان سے ہاتھ دھوچکے ہیں۔ بدقسمتی سے اس سارے معاملے
میں ایران کا کردار خاصا متنازعہ رہا ہے۔ اگر ایران نے اپنی خارجہ پالیسی
کے مطابق پائپ لائن کے ذریعے گیس کے ساتھ ساتھ اپنے عقائد ونظریات بھی
سپلائی کرنے کی کوشش کی تو یہ پہلے سے لگی آگ پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہوگی۔ |