سڑک کنارے سو کے قریب افراد کا
ہجوم لگا ہے ۔اس ہجوم میں مریض بھی ہیں جو آہ و بکا کر رہے ہیں ، چھوٹے
چھوٹے معصوم بچے بھی ہیں جو بھوک اور موسم کی شدت سے بلبلا رہے ہیں ،عفت و
عصمت کی پیکر خواتین بھی ہیں جو نامحرموں کی نگاہوں سے اپنے وجود کی حفاظت
کرنے کے لیے کسی آڑ کی متلاشی ہیں۔اسی ہجوم میں باریش بزرگ بھی ہیں کہ جن
کی بزرگی سے اﷲ اور اس کے فرشتے بھی شرم کرتے ہیں اور اپنی جسمانی طاقت کا
گھمنڈ رکھنے والے جوان بھی اسی ہجوم کاحصہ ہیں ۔یہ افراد گاڑیوں میں بھی
ہیں ، موٹر سائیکلوں پر بھی ہیں ، سائیکلوں پر بھی ہیں اور پیدل بھی ہیں ۔
کسی نے میٹنگ میں جانا ہے تو کوئی جاب کا انٹرویو دینے کے لیے ماں کی دعاؤں
کے ساتھ آیا ہے ، کسی نے شادی اٹینڈ کرنی ہے تو کسی نے جنازہ میں جانا ہے ۔
اسی ہجوم میں شامل افراد میں سے کسی نے ڈاکٹر سے وقت لیا ہے تو کسی نے
کاروباری ڈیلنگ کرنی ہے مگر۔۔۔۔مگر سب ایک عذاب میں ایسے پھنسے ہیں کہ نہ
آگے جاسکتے ہیں اور نہ اس عذاب سے نکلنے کا وقت متعین کر کے کسی کو بتا
سکتے ہیں ۔اس ہجوم میں شامل کوئی فرد آگے جانے کی کوشش کرتا ہے تو دس پندرہ
رائفلیں اس کی جانب ایسے تانی جاتی ہیں کہ جیسے کوئی فلسطینی ، اسرائیلی
فوج کے نرغے میں ہویا کوئی کشمیری انڈین آرمی کے حصار میں ۔ایک ہو کا عالم
بپا ہے جس میں چرند و پرند بھی سانس روکے کہیں چھپے بیٹھے ہیں ۔
یہ ہو کا عالم کیوں بپا ہے اور کیوں ان افراد کو مجبور کر کے یہاں
باندھاگیا ہے ؟کیوں ان آزاد عوام پر ان کے اپنے ہی رکھوالے گنیں تانے کھڑے
ہیں ۔اپنوں میں ہی اتنی بے بسی اور لاچارگی کا یہ عالم بپا ہے تو کس کے لیے
بپا ہے؟وجہ یہ کہ اس ہجوم کے سامنے کچھ گھنٹوں بعد انہی کے منتخب کردہ مشیر
، وزیر یا کسی حکومتی کارندے نے گزرنا ہے۔وہی شخص کے جس کومنتخب کرنے کے
لیے اذیت میں مبتلا انہی افراد نے تن من دھن کی بازی لگا دی تھی ، اپنی
برادری ، دوستوں ، یاروں ، پیاروں چاہنے والوں ، گلی محلے اور شہر والوں
حتیٰ کہ گھر والوں سے بغاوت کر کے انہی کوچاہا تھا انہی کو منتخب کیا اور
انہی کی کامیابی کے بھاگ دوڑ کی اورپھر۔۔۔۔۔اورپھر آج اسی منتخب نمائندے کے
لیے اپنے ہی رکھوالے گنیں تانے کھڑے ہیں کہ اس ہجوم کی وجہ سے کوئی نا
مناسب واقعہ نہ ہو جائے۔کل جب اس کو منتخب کرنے کے لیے اپنوں سے بغاوت کی
گئی اور اسی کو اپنا سمجھا گیا تو پھر اس ہجوم کے لیے گنیں تاننے کا مقصد
کیاہے ؟ کیا کبھی کوئی اپنا نا مناسب واقعہ کا متحمل ہو سکتا ہے؟اگر ایسا
نہیں ہے تو پھرماضی میں جو اپنا بنایا گیا تھا اس کی اپنائیت میں کھوٹ
ہے۔اس کھوٹ کا ادراک ہوتے ہی ہجوم میں شامل لوگوں کو اس طوطا چشم کو آڑے
ہاتھوں لینا چاہیے مگر ۔۔۔۔مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوتا ہے ۔گھنٹا بھر اذیت
برداشت کرنے کے بعد جب ان کا منتخب نمائندہ ان کے سامنے ڈھیر ساری گاڑیوں
سے گزرتا ہے تو ہجوم میں شامل تقریباً سبھی افراد کے چہرے کھل جاتے ہیں کہ
انہوں نے جیسے کسی عظیم شخص کا دیدار کر لیا ہو۔ کیاعظیم اشخاص کبھی طوطا
چشم ہوئے؟اگر نہیں تو پھراس طوطا چشم کے لیے ہجوم نے ہاتھ ہلا کر خیر مقدم
کیوں کیا؟ایسا خیر مقدم تو عظیم اشخاص کا کیا جاتا ہے اور ۔۔۔۔۔اور عظیم
اشخاص کبھی طوطا چشم نہیں ہوتے۔
یہ اس قوم کا پیچیدہ مزاج ہے جومفکرین کے لیے بھی باعث حیرت ہے ۔اسی پیچیدہ
مزاج کا گلہ کرتے ہوئے سابق ائیر مارشل اور بزرگ سیاست دان محترم جناب اصغر
خان صاحب نے کہا’’قوم کوپیغام دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی
سنتا اور سمجھتا ہے‘‘
محترم جناب اصغر خان صاحب کا قوم سے گلہ بجا ہے مگراصغر خان صاحب اگر ماضی
کو کریدیں تو انہیں اس قوم کے پیچیدہ مزاج کے ایسے ایسے نمونے ملیں گے کہ
محترم اپنی قربانیوں کو بھول کر اس قوم سے گلہ کرنا ہی بھول جائیں۔
ڈاکٹر قدیرصاحب کی اس قوم کے لیے قربانیاں پوری دنیا مانتی ہے مگر جب مشرف
نے ڈاکٹر صاحب کو ایک دہشت گرد کے طو رپر دنیا کے سامنے پیش کیا تو اسی قوم
نے مشرف کے اس اقدام کو سراہا بھی اور مانا بھی ۔مجھے آج تک یاد ہے کہ ان
دنوں میری ایک طالبعلم سے اسی موضوع پر بحث چھڑی تو اس طالب علم نے مجھے
میرے مونہہ پر کہا کہ ڈاکٹر قدیر تو چور ہیں ۔آپ خود اندازہ لگا لیں کہ
عوام کا مزاج کیسا ہے اور کیاچاہتا ہے ۔میں تو ڈاکٹر صاحب کی قربانیوں
کااتنا قائل ہوں کے میں ڈاکٹر قدیر صاحب کے نام کے ساتھ’’ صاحب‘‘ لگانا بھی
فرض سمجھتا ہوں ۔وہ ڈاکٹر قدیر صاحب کے جس نے اس قوم کو انڈین حملے اور
انڈیا کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا تھا یہ قوم اسی پارسا کو چور کہہ
رہی ہے اس قوم کو کیا کہا جائے کہ الفاظ منتخب کرنا بہت مشکل کام ہے۔
قوم کے مزاج کی ایک اور جیتی جاگتی تصویر لال مسجد اور جامع حفصہ کا واقعہ
ہے ۔تب اسی قوم کا بچہ بچہ لال مسجد اور جامع حفصہ پر آپریشن کے حق میں تھا
اور مشرف کے اس اقدام پر من و عن راضی تھا مگر جیسے ہی مشرف کی حکومت کا
ستیاناس ہوا یہی قوم مشرف کے اقدامات کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ مشرف کو
قاتل و دہشت گرد کہنا شروع ہوگئی ۔
بات یہاں تک ختم نہیں ہوتی ہے اس قوم کے پیچیدہ مزاج کی ایسی ایسی کہانیاں
تاریخ میں رقم ہیں کہ انسانی ذہن انہیں پڑھ کر ساکت ہو جاتا ہے ۔اسی قوم کے
پیچیدہ مزاج کی تاریخ ابھی کچھ عرصہ بعد الیکشن کی صورت میں پھر رقم ہونے
لگی ہے ۔یہ قوم ابھی الیکشن میں انہی لوگوں کے لیے اپنا تن من دھن وارکرے
گی جن لوگوں سے یہ پانچ سال ظلم و بربریت کی چکی میں پستی رہی یا پھر جن کو
پہلے آزما چکی ۔کاش کے اس بار یہ قوم بیدا ر ہو کر ایسا شا ن دار فیصلہ کرے
کہ پچھلی پینسٹھ سالہ تاریخ اس ایک فیصلہ سے دھل جائے۔ |