پاکستان کی تیرھویں نو منتخب
قومی اسمبلی کے329ارکان نے جب، سپیکر چودھری امیر حسین کے ہاتھوں حلف
اٹھایا اور تمام ارکان نے جب حروف تیجی کی ترتیب سے حلف ناموں پر دستخط کئے
تو ، قوم پُر امید تھی کہ پارلیمانی پارٹیاں ، طویل آمرانہ دور سے نجات کے
بعد ، ملک و ترقی کےلئے اپنا فعال کردار ادا کریں گی۔قوم کو اس بات کی خوشی
تھی کہ متعدد سیاسی جماعتوں نے ملکر چلنے اور ملکی معاملات اتفاق رائے سے
چلانے کا عزم کیا ہے ، جس سے ہماری دگرگوں معیشت ، جس میں چالیس ارب ڈالر
سے زائد قرضے واجب الادا تھے ، نیز زرعی ،صنعتی شعبے کی زوال پذیری اور
دہشتگردی کے بڑھتے واقعات کو کم کرتے ، کرتے بتدریج ختم کردیا جائے گا ،
لیکن بد قسمتی سے پانچ سال گذرنے کے باوجود ،نہ تو معیشت کی صورتحال بہتر
ہوئی اور نہ ہی امن و مان کی صورتحال کو اطمینان بخش قرار دیا جاسکتا
ہے،بلاشبہ حکومت کو وراثت میں ملے مسائل ، آئینی قانونی اور انتظامی مسائل
درپیش رہے اور اقتدار کی کرسی کو پھولوں کی سیج نہیں سمجھا جا سکتا تھا
لیکن حکومت نے کسی مربوط پلاننگ کے بجائے ، مفاہمتی پالیسی کے نام پر ،
سابق حکمرانوںکی طرح ، ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے ، پوری قوم
کو اپنی کارکردگی سے مایوس کیا ،موجودہ حالات میں قابل ذکر بات یہی ہے کہ
ہمارے ملک میں پہلی بار ، سیاسی اور جمہوری روایات کی جڑیں بظاہر مضبوط
کرنے کی کوششیں نظر آتی ہیں ، لیکن الیکشن کمیشن کی جانب سے ، جس طرح
امیدواران کی اسکروٹنی کا طریقہ کار ، متعارف کرایا جا رہا ہے، اس عمل نے
تمام سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے اور اقتدار میں ، رہنے والے خاندانوں
کےلئے الیکشن کمیشن کے اقدامات ، آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکنے لگے
ہیں،الیکشن کمیشن کے اراکین صمیم قلب اور پوری ایمانداری کے ساتھ ایسے
نمائندوں کو لانے کے خواہاں ہیں ، جو "فرشتے"نہ سہی ، لیکن اُن جیسی صفات
ضرور رکھتے ہوں۔فروری2008کے انتخابات سے قبل محترمہ بےنظیر بھٹو کی ہلاکت
کے بعد ، انتہائی غیر یقینی کیفیت پیدا ہوگئی تھی ، اور اس قدر قیاس
آرائیاںہوئیں کہ عوام کو یقین نہیں تھا کہ انتخابات کا انعقاد ممکن ہوسکے
گا ، بہت سی قوتیں اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی تاک میں بیٹھی تھیں ،
لیکن انھیں اپنے مقاصد میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ،اب دوبارہ پاکستان کے
نئے الیکشن کے حوالے سے اس قدر شکوک و شہبات پیدا کردئےے گئے ہیں کہ عوام ،
شعوری طور پر تیار ہیں کہ ، 2013ءکے انتخابات کو ہائی جیک کرلیا جائےگا ۔
گو کہ پاک فوج کے سربراہ ، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ،علی اعلان کہہ چکے ہیں
کہ اس بار کوئی غیر جمہوری طریقہ کامیاب نہیں ہوگا ، لیکن عوام کی بے
اطمینانی میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہو رہا ہے ، کیونکہ الیکشن کمیشن کے
سخت اقدامات، اشرافیہ کے لئے ناقابل قبول بنتے ہیں۔ماضی کی طرح موجودہ
حکومت پر بھی مالیاتی معاملات میں لاپرواہی ، ارکان اسمبلی کی جانب سے
عوامی مسائل سے روگردانی ، حکومتی ٹیم کے غیر ضروری غیر ملکی دوروں سے
اجتناب نہ برتنا ، وفاقی ، صوبائی کابینہ کا شاہانہ سائز ،مشیران کی فوج
ظفر ، اربوں ڈالرز سے زائد غیر ملکی اور ملکی قرضوں میں اضافہ ، سیاسی اور
شدت پسندانہ دہشت گردی کا بام ِ عروج تک پہنچ جانا ۔ ڈھلمل فیصلوں سے پوری
دنیا میں پاکستان کو سبکی ، امریکی نوازی کے تمام سابقہ ریکارڈز کو توڑ
دینا ، اور عوام کی تمام توقعات پر اُترنے میں مکمل ناکامی کے ساتھ وطن
عزیز کی ترقی و خوشحالی کےلئے قابل عمل اور ٹھوس پالسیاں اختیار نہ کرنا ،
حکمران سیاسی جماعتوں کی اجتماعی کارکردگی کا افسوس ناک پانچ سالہ ریکارڈ
ہے۔اس کے علاوہ ، دہشت گردی کے ہاتھوں ، فرقہ وارنہ وارداتوں میں اضافہ ،
اور خود حکمران رہنماﺅں کا محفوظ نہ ہونا ، عوام کے سامنے ، ارباب اختیار
کی کھلی ناکامی کی کھلی کتاب ہے، گورنر سلیمان تاثیر ،کو اپنی ہی حکو مت
میں دہشت گردی کا نشانہ بنانا، بشیر بلور اور افتخار حسین کے اکلوتے بیٹے ،
کے علاوہ سید رضا حیدر اور منظر امام اراکان اسمبلی کا دہشت گردی میں ،قیمتی
جانوں سے محروم ہونا ، کراچی میں ہزاروں بے گناہوں کی شہادتیں ، بلوچستان
میں ، غیر بلوچ قوم کے افراد کا بہیمانہ قتل عام ، خیبرپختونخوا کے ذرے ذرے
میں شدت پسندی اور انسانی تاریخ کی سب سے بڑی سوات کی انسانی ہجرت ، وزیر
ستان کے باسیوں کا ابھی تک فوجی آپریشن ہونے کے باوجود اپنے گھروں میں جانے
واپسی کی خواہش کا پورا نہ ہونا ،ڈرون حملوں میں سینکڑوں بے گناہوں کی
شہادتیں ، حکومتی نامہ اعمال کے میزان میں اس قدر بھاری ناکامی کا وزن
رکھتی ہیں کہ گذرے جانے والے پانچ سالوں کا سوچ کر ہی دل ہول کھانے لگتا
ہے۔حکومت کی جانب سے ایسے نمایاں مثبت کارنامے ہوئے ہی نہیں ہیں کہ اس کی
تعریف کرنے کا، جھوٹا گناہ اپنے سر لیا جائے، سب اچھا ہے ، سب اچھا ہے کی
پالیسی نے عوام سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے۔غذائی اجناس میں ہوش الربا
اضافہ ، توانائی کا ہولناک بحران ، معیشت کی ڈوب جانے والی ناﺅ ،اور حکومتی
مس منجمنٹ کی بھیانک پالسیوں کے نتائج ، کسی بھی ، ڈریکولائی فلم کے مناظر
سے زیادہ رونگٹے کھڑے کردیتے ہیں۔عوام کو اس بار ایسے نمائندوں کا انتخاب
کرنا چاہیے ، جو سیاسی کاروبار میں اپنے گھروں کو فروخت کرکے محلات خریدنے
کے لئے سرمایہ کاری کے بجائے ، خالصتا خدمت کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں، مورثی
سیاست ، جاگیردارنہ ، سرمایہ درانہ نظام کے بجائے ، عوام نظام لانے کےلئے
خود سے ایک عہد کرلیں ۔ بلاشبہ اس حکومت کے علاوہ ہمارے ملک میں کوئی ایک
سیاسی سیٹ اپ اپنی آئینی مدت پوری نہیں کرسکا ہے ، لیکن ایسی جمہوریت کے
بدترین انتقام کا نشانہ صرف عوام ہی کیوں بنی ہیں؟ ، اس کا جواب عوام کو
اپنے ووٹوں کے انقلاب سے دینا ہوگا۔بہتر آمریت سے بدترین جمہورےت بہتر کے
خوشنما ، دل فریب نعرے دےکر ، عوام کو بہت بے وقوف بنا لیا گیا ، اب اس
سلسلے کو عوام ہی کو موقف کرنا ہوگا ، کینڈا سے" ٹارزن کی واپسی" ، اور
موجودہ بدترین بے امنی کےواقعات کا جواز بنا کر ، الیکشن ملتوی کرانے کی
کوششیں اب بھی جاری ہیں ۔سیاسی جماعتوں نے اگرماضی کی غلطیوں سے سبق نہ
سیکھنے کی قسم کھائی ہے تو ، عوام بھی یہ عزم اور ارادہ مصمم کرلے کہ ، بس
بھائی ، اب باریاں ، وایاں ، کا ڈھونگ نہیں چلے گا ۔ خودکش حملوں ،
دہشتگردی کے واقعات کو ختم کرانا ہے تو عوام کو خود ہی میدان میں اُترنا
ہوگا ، کسی مہدی کا انتظار کرنے کے بجائے ، حسینی جذبے کے تحت ، الیکشن کے
میدان کو کربلا کا محاذ بنا کر یزیدی قوتوں کا ناکام بنانا ہوگا۔اخباری ،
الیکڑونک میڈیا میں اداکاری کرنے والے سیاسی مداریوں پر کان دھرنے کے بجائے
، گھر کے دروازے سے باہر جھانک کر صرف یہ دیکھ لیں کہ ، ان کی بنیادی
ضروریات کو ان پانچ سالوں نے ، کس نے ، کتنی ایمانداری سے نباہ کیا ہے ۔صوبائیت
، فرقہ واریت ، لسانیت اور شخصیت پرستی کے سحر کو ضرب کلیمی کے عصا سے
توڑدیں ، عوام کے جذبات کواپنے مقاصد کے لئے فرعونی قوتوں کو دریا میں ،
ڈوبو کر رہتی دنیا تک عبرت کا نشانہ بنا دیں ،ایک بار مسلمان اور پاکستانی
بن کر ، قائد کے پاکستان کو اقبال کے خوابوں کی تعبیر میں تکمیل کرانے میں
بھرپور ، عوامی قوت کا مظاہرہ کرکے ، تمام طاغوتی قوتوں کو ، سمندر بُرد
کردیں تو پاکستان بنانے کے مقاصد ، انہتر سال بعد پورے کئے جاسکتے ہیں ۔اپنے
بچوں کے مستقبل کےلئے ، ایک بار روایتی سیاست کو خیر باد کہہ دیں تو ، یقین
کیجئے کہ آپ کی اس ہمت کا ثمر ، پاکستان کی آنےوالی کئی پشتیں حاصل کرتی
رہیں گی ۔پاکستان میں بہت کچھ کھو دیا گیا ہے ، اب اور نہیں کھونا.۔ فیصلہ
، کبھی عوام نے خود نہیں کیا ، برائے مہربانی اس بار کرلیں، صرف ایک بار !! |