ملک کے مسلمانوں کے بارے میں کہا
جاتا ہے کہ تمام مسلمان صرف ایک نکتہ پر متفق ہیں کہ وہ کبھی متحد اور متفق
نہیں ہوں گے۔ یہ بات حقیقت ضرور ہے لیکن اس کا تعلق عام مسلمانوں یا مسلم
عوام سے نہیں ہے بلکہ ان پر ہے جن کی اکثریت مسلمانوں کے قائد ہونے کی
دعویدار ہے۔ ہر قائد کی حکمت عملی الگ فکر و سوچ الگ اور طریقہ کار الگ ان
حالات میں جو بھی نہ ہو وہ کم ہے۔
چند دن قبل وزیر اعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف زیارت کے لئے درگاہ اجمیر
آئے تھے ان کی آمد سے قبل درگاہ کے دیوان زین العابدین علی خاں نے اعلان
کیا کہ وہ سرحدی جھڑپ میں دو ہندوستانی سپاہیوں کے سرتن سے جدا کرنے کی
پاکستان کی مذموم درندگی کے خلاف بطور احتجاج وزیر اعظم پاکستان کا نہ
خیرمقدم کریں گے اور نہ ہی اس موقع پر موجود رہیں گے اور انہوں نے کیا بھی
یہی۔ ہم کو دیوان جی کی اس ناشائستہ حرکت پر قطعی کوئی حیرت نہیں ہوئی
کیونکہ انہوں نے وہی کیا جو بی جے پی کی ہدایت تھی کیونکہ موصوف این ڈی اے
دور سے بی جے پی سے وابستہ ہیں۔ دونوں مقتول ہندوستانی سپاہیوں کے سر کاٹے
جانے پر ان کا غم و غصہ بچا ہے بلکہ قابل ستائش ہے لیکن جہاں تک نہ صرف
ہماری بلکہ لاکھو ں نہیں بلکہ کروڑوں افراد کی یاداشت کام کرتی ہے دیوان جی
نے 2002ء میں گجرات یا گزشتہ سال ان کی ریاست اور دوسری ریاستوں میں ہزاروں
مسلمانوں کے قتل پر اظہار افسوس کی بھی زحمت نہ کی تھی۔ دیوان جی 2004ء میں
بی جے پی کی انتخابی مہم میں حصہ لیا تھا۔ ’واجپائی حمایت کمیٹی‘کے رکن کی
حیثیت سے اہم خدمات انجام دی تھیں۔ دیوان جی کسی اور موقع پر اپنی پارٹی کی
خاطر آکاش وانی پر 1950ء کی دہائی والی ناقابل فہم خالص ہندی میں جو چاہیں
کہیں یا کریں اگر ان کے جذبہ وفاداری وحب الوطنی کی تسکین پاکستان کو
برابھلا کہنے سے ہوتی ہے تو وہ ضرور کریں لیکن وہ یہ بات کیسے بھول گئے تھے
کہ عام طور پر مشہور یہ ہے کہ خواجہؒ کے دربار میں وہی حاضر ہوسکتا ہے جس
کو بلایا جاتا ہے۔ لہٰذا دیوان صاحب کا ایقان تو اس بات پر اٹوٹ ہوگا اسی
کے تحت بہ حیثیت دیوان انہوں نے اپنا فرض ادا نہیں کیا۔ راجہ اشرف حکومت
ہند کی اجازت و مرضی سے اجمیر آئے تھے (نہ کہ وہ درانداز تھے) خواجہ صاحبؒ
کے مہمان ہونے کے قطع نظر حکومت ہند کے وہ سرکاری نہ سہی بلکہ بن بلائے
مہمان تھے جن کے استقبال و پذیرائی سے گریز فرض سے کوتاہی کے مماثل ہے۔
سنگھ پریوار اقتدار میں ہوتو پہلے پاکستان سے آر پار کی جنگ کی بات کرکے
سرحدوں پر لاکھوں افواج جمع کرواکے ہزاروں کروڑ کا نقصان کرکے افوان کو
واپس بلاکر دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے اور جب اقتدار سے باہر ہوتو ہند۔پاک
تعلقات میں ممکنہ حدتک کشیدگی پیدا کرے گا۔ سنگھ پریوار کے زیر اثر میڈیا
سنگھ پریوار کا بھرپور ساتھ دے گا۔ راجہ اشرف کی اجمیر آمد پر یہی ہوا ۔
میڈیا نے چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے کی بھرپور کوشش کی۔ مہمان نوازی
کی ہمای قدیم اور سنہری روایات کو پامال کیا۔ ملک کو بدنام کیا اور اس کام
میں دیوان جی کا کلیدی کردار تمام ہندوستانیوں کے لئے افسوس ناک ہے۔
اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ درگاہ اجمیر کے دیوان جی کی تائید بعض
مسلمان سیاسی قائدین، مذہبی رہنماؤں اور دانشوروں (نام نہاد) نے بھی (پتہ
نہیں دیوان جی کی خاطر؟ یا پروپگنڈے کے زیراثر؟) سنگھ پریوار کے سر میں سر
میں ملادیا یوں تو ہمارا میڈیا اپنے مطلب یا نریندر مودی کی خاطر کسی بھی
اونچے پاجامے، لمبے کرنے اور داڑھی ٹوپی یا پگڑی والے کو مولانا؍ مولوی کہہ
دیتا ہے لیکن ایک مولانا جنہوں نے جی کھول کر دیوان جی کا ساتھ دیا واقعی
ممتاز و معروف عالم، امام اور مفتی ہیں ۔درس نظامی کے بانی سے وابستہ فرد
کودیوان جی کی اندھی تائید زیب نہیں دیتی ہے۔
مسلمان سیاسی و مذہبی قائدین کی صفوں میں عدم اتحاد و عدم اتفاق مسلمانوں
میں مرکزیت نہ ہونے یا کسی ایسے بااثر قائدانہ صلاحیت کے حامل مدبر قائد (جو
ملک بھر کے مسلمانوں کی قیادت نہ سہی اہم معاملات میں رہبری کرسکے اور
مشورے دے سکے) کی عدم موجودگی ہے۔ یہ صورتِ حال سالہا سال سے چلی آرہی ہے۔
آزادی سے قبل مسلمانوں کو اپنی ملی تشخص برقرار رکھنے کا سرسید کا مشورہ
اور مسلمانوں کے مخصوص خصوصی مسائل ، ان کے حقوق اور ان کے لئے مراعات کے
مطالبوں کو دو قومی نظریہ کہہ کر مشترکہ قومیت اور قوم پرستی کے نظریات،
نعروں اور باتوں سے بری طرح دبا دیا گیا لیکن دو قومی نظریہ پر مسلم لیگ سے
زیادہ کانگریس نے عمل کیا۔ دو قومی نظریہ کی وجہ سے مطعون کئے گئے محمد علی
جناح (جن کو اڈوانی اور جسونت سنگھ جیسے ہندوتوا کے علمبردار بھی سیکولر
مانتے ہیں) نے تو ایک مرحلہ پر مولانا ابوالکلام آزاد کی بے مثال مساعی کی
وجہ سے مطالبہ پاکستان سے دستبرداری اختیار کرلی تھی لیکن دو قومی نظریہ کو
تہہ دل سے ماننے والوں نے جناح کو پاکستان دے دیا۔
آزادی کے بعد دس بارہ کروڑ مسلمانوں کے قائد اعظم ہندوستان کے مسلمانوں کو
اﷲ کے بعد غالباً مشترکہ قومیت کے علمبرداروں کے حوالے کرکے پاکستان کی راہ
لی۔ تمام کانگریسی مسلمان قائدین مسلمانوں کی قیادت چھوڑ کر صرف کابینی
وزیر یا ملازم سرکار یا پنڈت نہرو کے مشیربن گئے۔ قلمدان وزارت سنبھال کر
مسلمانوں کے لئے کچھ کرنیکو ہر ’وزیر یا تدبیر‘ نے جانبداری یا بددیانتی
پتہ نہیں کیا سمجھا؟ وزیر تعلیم نے ملک سے اردو تعلیم، جامعہ عثمانیہ سے
اردو ذریعہ تعلیم اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا مسلم کردار ختم کردیا ایک
محترم شخصیت نے اردو کے مطالبات کے لئے 22لاکھ دستخط جمع کئے درخواست
مطالبات صدر صاحب کو پیش کرکے وہ اسے ایسے بھولے کہ جب وہ خود ایوان صدر کے
بہ حیثیت صدر مملکت رہائشی ہوئے تو ان کو خود ان کی تیار کردہ اور پیش کردہ
درخواست یاد نہیں آئی۔
مسلمانوں کے لئے علاحدہ سیاسی جماعت کے قیام کو شجر ممنوعہ قرار دیا گیا۔
تمام ہندوستانی مسلمانوں کو مولانا آزاد نے کانگریس سے وفاداری کی خاطر ہر
سیاسی جماعت سے دور کردیا تھا۔ اس طرح مسلمان کانگریسی قیادت کے رحم و کرم
پر منحصر تھے۔ کانگریس ایسا گلزار تھی (اور ہے) جہاں مانگنے پر پھل پھول تو
دور کی بات ہے مسلمانوں کو ’تنکہ ‘ نہیں ملتا ہے۔
مسلمانوں کو جو چند قائد ملے جنہوں نے کچھ کرنے کی کوشش کی ان کو ناکام
بنانے کے لئے ہر جائز و ناجائز روا رکھا گیا۔ مولوی اسماعیل، بدر لدجی،
عبدالواحد اویسی، ڈاکٹر سید محمود، ڈاکٹر جلیل فریدی، سلطان صلاح الدین
اویسی وغیرہ کو حکومت کے ساتھ میر جعفر اور میر صادق جیسے غداروں نے کچھ
کرنے نہیں دیا اب بھی مولانا اجمل، مولانا ارشد مدنی اور اویسی برادارن (اسدالدین
اور اکبر الدین ) کے خلاف حکومت بھی ہے۔ عہد حاضر کے میر جعفر و میر صادق
بھی ہیں۔ میڈیا میں زیادہ پذیرائی کی خاطر مسلم مفادات کو نقصان پہنچانے
والے مولانا صاحبان، صحافی ،خود ساختہ دانشور خاصی تعداد میں ہیں۔ کوئی
مولانا مودی کا حمایتی ہے تو کوئی بی جے پی کا حمایتی ہے۔ کانگریس کی کاسہ
لیسی کرنے والے بھی ہیں جو چند سر پھرے خادم قوم ہیں وہ دارورسن کی آزمائش
سے گذارے جاتے ہیں ۔ حکومت اور سنگھ پریوار کی خاطر مسلم لیگ، مجلس
اتحادالمسلمین یا کسی بھی مسلم جماعت مولانا اجمل، محمد ادیب ، اسدالدین
اویسی اور اکبر الدین اویسی کے مخالف میر جعفر و میر صادق کی وجہ سے مسلم
قوم نہ جانے کب تک تاریک راہوں میں بھٹکتی رہے گی۔ |