سال2005میں عوام کے مفاد میں چند
قوانین بنا ئے گئے ۔ا ن کا مقصد یہ تھا کہ ملک کے شہری اور باشندے ان سے
فایدہ اٹھا کر اپنے حقوق کا مطالبا کر یں اور ان کے لیے حکومت نے کیا کیا
فلاحی اسکیمیں ‘ کمیشنز اورمنصوبے بنا ئے ہیں ان کے بارے میں معلومات حاصل
کریں ۔ان کو آسان ترین و موثر بنا نے اسی طرح سوال جواب کرنے والوں کے تحفظ
کی یقین دہانی کرائی گئی تھی ۔اسی طرح اس بات کی یقین دہا ئی بھی کرائی گئی
تھی کہ ان کی زد میں اگر کو ئی وزیر‘پولیس ‘سرکار ی محکمہ یا دیگر حکومتی
ادارے بھی آتے ہیں توانھیں ہر حال میں جواب دہ ہونا پڑے گا۔
ان قوانین میں ایک قانون ’’RTI ‘‘یعنی حق اطلاعات قانون ‘بھی عمل میں آیا
تھا۔اس کے ساتھ ہی عوام کے ہاتھ میں اعلا حکام کی گردن تک پکڑنے کا ذریعہ
آگیا اور انھوں نے اس کا استعمال بھی شروع کر دیا۔ابتدا میں تو اس کے
شاندار نتائج بھی بر آمد ہو ئے اور بعض بدعنوان محکموں میں تبدیلیاں بھی
آئیں ۔ مگر جب حکام ‘سرکاری آفیسر اورپولیس نے دیکھا کہ اس قانون کے ذریعے
تو لوگ ان کے کرتوتوں کے بارے میں سوال کررہے ہیں اور ان کا کچا چٹھا سب کے
سامنے آرہا ہے تو وہ تشدد‘ظلم اور ہٹ دھرمی پر اتر آئے۔پھر تو آرٹی آئی
کارکنوں پر جگہ جگہ جان لیوا حملوں کی خبریں اخباروں کی زینت بننے لگیں ۔کئی
ایک نے تو عوام کے لیے منہ زوروں کی گر دن پکڑتے پکڑتے جان بھی دیدی۔کبھی
کبھی تو ایسے خبریں آتی ہیں کہ جن لوگوں سے آرٹی آٹی کے ذریعے پو چھا گیا
انھوں نے جواب دینے سے صاف انکار کر دیااورآرٹی آئی کارکن اپنا سامنہ لے کے
رہ گئے ۔کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی آرٹی آئی کا جواب بالکل مہمل اورردّی کی
ٹوکری میں پھینکنے کے قابل ہوتا ہے۔ یہ ہے ہندوستا ن میں آرٹی آئی قانون کی
حقیقت اورحال جو دن بدن پولیس حکومت اوربڑے لوگوں کی زور زبردستی سے مرتا
جارہا ہے۔
میرے سامنے مختلف اخبارات سے چنندہ ایسی خبریں ہیں جن میں بڑی بڑی سرخیوں
میں لکھا ہے ۔’’آرٹی آئی کارکن پرجان لیوا حملہ ‘‘پولیس نے آرٹی آئی کا
جواب دینے سے انکار کیا‘‘’’وزارت اقلیتی بہبود کسی بھی آرٹی آئی کا جواب
دینے سے قاصر ‘‘’’آرٹی آئی کے تحت جواب دینے کے بجائے تشدد اور ظلم پر آمدہ
افسران ‘ ‘ ذیل میں چند ایسی ہی خبر وں کے کچھ اقتباس نقل کررہا ہوں جن سے
آپ کو انداز ہ ہوگا کہ ہندوستان میں آرٹی آئی قانون کتنا کامیاب اورکتنا
ناکام ہے ۔
پہلا واقعہ قومی راجدھانی نئی دہلی کا ہے جہاں ایک منوج سلوجا نامی آرٹی
آئی کارکن نے کارپوریشن کے موتی نگر علاقے میں چل رہی غیر قانونی تعمیرات
کے بارے میں سوال کیا تو بجائے اس کے کہ انھیں کو ئی معقول جواب ملتا‘ بلڈر
مافیا کے غنڈوں نے زندگی و موت کے درمیان لٹکا دیا ۔اس معصوم پر ایساجان
لیوا حملہ کر دیا گیا کہ سر گنگا رام اسپتال میں اس کی زندگی کے لالے پڑے
ہو ئے ہیں۔
اسی طرح نئی دہلی کی ہی ایک دوسری خبر ہے جو 16دسمبر کی شب دہلی میں پیش
آمد ہ شرمناک عصمت دری واقعے سے متعلق ہے ۔ اس میں آرٹی آئی کارکن نے سوال
کیا ہے کہ ’’دامنی ‘‘کوسنگاپورلے جانے کے احکام کس وزارت نے دیے اورکیوں؟اس
کے لیے پاسپورٹ ویزا اور دیگر سہولیات کس اور کیوں فراہم کی اسی طرح دامنی
کے علاج پر کتنا خرچ ہوا ۔اس کی تفصیل کیا کیا ہے ؟اسی طرح کے اوربھی
سوالات کیے گئے ۔مگر اس وقت حیرت کی انتہا نہیں رہی جب حکومت اورمتعلقہ
وزارت صاف جواب دے دیا کہ ہمیں اس سے متعلق کو ئی خبر نہیں ہے یہاں تک کہ
ہم یہ بھی جانتے کہ ’’دامنی ‘‘کے علاج پر کتنا خرچ ہوااوراسے سنگاپور کس کے
حکم پر لے جایا گیا۔‘‘
ایک تیسری خبر ہے جس کا تعلق اتر پردیش سے ہے ۔ایک آرٹی آئی کارکن نے یوپی
پولیس سے سوال کیا ہے کہ اعظم گڑھ سے تعلق رکھنے والے دو مسلم نوجوانوں کو
ان کی بے گنا ہی ثابت ہونے کے باوجود بھی کیوں جیل میں رکھا ہوا ہے تو
پولیس نے اس آرٹی آئی کی کاپی ہی پھاڑ ڈالی اور ظالموں سے ظلم وجہ پوچھنے
والے کو مہلک دھمکی بھی دے ڈالی ۔یعنی انصاف اورحق کا گلا گھونٹ دیا ۔یہ ہے
ایک ہلکی سی جھلک ہندوستان میں آرٹی آئی قانون کی حقیقت ۔
دراصل سچا ئی یہ ہے کہ منموہن حکومت نے آنکھ بند کرکے اور یہ سوچ کر یہ
قانون پاس تو کردیا کہ عوام بھلاہم سے کیا کیا پوچھ سکتے ہیں ‘ان کے نان
شبینہ کے ہی لالے پڑے ہو ئے ہوتے ہیں انھیں کسی دوسری چیز کی فرصت ہی کہاں
ہو گی ‘اسی طرح یہ لوگ سرکار سے ڈرتے ہیں سو کسی میں ہمت نہیں ہوگی دوسری
طرف باہر کے ملکوں میں ہماری تعریف ہوگی کہ ہم نے اپنے عوام کو بھی اتنا حق
دے رکھا ہے کہ وہ سرکار کے کسی معاملے کے بارے میں پوچھ تاچھ کر سکتے ہیں
مگر انھیں یہ نہیں پتا تھا کہ یہ بھولے بھالے لوگ اپنے حق کا پورا پورا
استعمال کر کے بدعنوانوں کی گر دن تک پکڑلیں گے اور انھیں ایک ایک کرتوت کا
جواب دینا ہوگا۔ ایک ایک پیسے کا حساب دینا ہوگا ۔ایک ایک چیز کا حساب دینا
ہوگا ۔پھر جب یہ ہونے لگا تو یہ لوگ اپنی اوقات پر اتر آئے اوربھولے بھالے
عوام کو دھمکیاں دینے لگے بلکہ ان پر جان لیوا حملے کر نے لگے۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک طرف تو حکومت کہتی ہے کہ ہم نے یہ قانو ن سب کو
دے رکھا ہے مگر جب کو ئی اس حق کا استعمال کر تا ہے تو اسے ظالموں کے تشدد
کے لیے چھو ڑدیا جاتا ہے ۔اگر اسی طرح عوام سے دشمنی نکالنی تھی تو اس طرح
کے جعل ساز قوانین بنانے کی کیا ضرورت تھی ‘انھیں ویسے ہی مار ڈالتے‘ کو ئی
کچھ نہیں کہتا مگر نہیں حکومت نے اس طرح مارنے کا منصوبہ بنا یا کہ زخم بھی
کاری لگے اورمجروح چیخے بھی نہیں۔
ایسے حالات میں حکومت ہند کی اولین ذمے داری ہے کہ وہ آرٹی آئی کارکنوں کی
جان و مال کی حفاظت کر ے اوران کی جان مال عزت آبرو پر حملہ کر نے والوں کے
خلاف سخت قدم اٹھاتے ہو ئے انھیں سبق سکھا ئے ۔یہ قانون اسی صورت میں
افادیت کے لایق ہے ورنہ اسے کوڑے کے ڈھیر میں جانے سے کو ئی نہیں بچا سکتا۔
احساس
آرٹی آئی کارکن نے سوال کیا ہے کہ ’’دامنی ‘‘کوسنگاپورلے جانے کے احکام کس
وزارت نے دیے اورکیوں؟اس کے لیے پاسپورٹ ویزا اور دیگر سہولیات کس اور کیوں
فراہم کی اسی طرح دامنی کے علاج پر کتنا خرچ ہوا ۔اس کی تفصیل کیا کیا ہے ؟اسی
طرح کے اوربھی سوالات کیے گئے ۔ مگر اس وقت حیرت کی انتہا نہیں رہی جب
حکومت اورمتعلقہ وزارت صاف جواب دے دیا کہ ’’ ہمیں اس سے متعلق کو ئی خبر
نہیں ہے یہاں تک کہ ہم یہ بھی جانتے کہ ’’دامنی ‘‘کے علاج پر کتنا خرچ
ہوااوراسے سنگاپور کس کے حکم پر لے جایا گیا۔‘‘ |