مسعود انور
گوادر پورٹ اور ایران سے پاکستان کو گیس کی فراہمی بذریعہ پائپ لائن ایک ہی
کھیل کے مختلف فیز ہیں۔ ذرا یہ تو بتائیے کہ پاکستان میں تیل و گیس نکلنے
کا پاکستانی قوم کو کیا فائدہ پہنچتا ہے؟ پاکستان چاہے اپنی گیس فیلڈ سے
نکلنے والی گیس حاصل کرے یا بین الاقوامی مارکیٹ سے خرید کر درآمد کرے،
ہمیں ادائیگی ہر دو صورت میں بین الاقومی منڈی میں رائج قیمت ہی کے مطابق
ادا کرنا پڑے گی۔ جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں یہ تمام وسائل کہنے کی حد
تک پاکستان یا سعودی عرب کے ہیں لیکن عملاً یہ ملٹی نیشنل کمپنیوں ہی کی
ملکیت ہوتے ہیں۔ اب ان کمپنیوں کی پوری کوشش ہے کہ وہ اپنے منافع کی شرح
زیادہ سے زیادہ رکھیں۔ اگر یہ گیس، پائپ لائن کے ذریعے پاکستان کو فراہم کی
جائے گی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ گیس پائپ لائن کی تنصیب کے اخراجات تو
پاکستان و ایران کے عوام ادا کریں گے، اس پائپ لائن کی تنصیب کے لیے ان ہی
بینکوں سے اربوں ڈالر کا قرض حاصل کیا جائے گا جو عملاً پوری دنیا میں تیل
کے کنوؤں کے مالک ہیں۔ اس قرض پر سود کی ادائیگی نسل در نسل ان دو ممالک کے
عوام کریں گے، مگر اس کے ذریعے تیل کی فروخت یہی بینکار کریں گے۔
اب بات سمجھ میں آتی ہے کہ زرداری صاحب اپنی حکومت کے آخری دنوں میں کیوں
کر گوادر پورٹ کو چین کے انتظامی حوالے کرنے کا دلیرانہ فیصلہ کرسکے۔ ایک
ایسے موقع پر جب امریکا روز ایران پر ایک نئی پابندی عائد کررہا ہے پیپلز
پارٹی کی حکومت نے کس طرح سینہ تان کر ایک جرأت مندانہ فیصلہ کیا کہ ایران
سے گیس پائپ لائن کی تنصیب کی جائے گی! ذرا یہ تو دیکھیے کہ اس لائن کے تحت
فراہم کی جانے والی گیس کے نرخ کیا ہوں گے۔ کیا یہ نرخ بین الاقوامی مارکیٹ
سے مختلف ہوں گے؟ کیا یہ ریٹ ارزاں ہوں گے؟
آخر حکومت ِپاکستان وہ کام کرنے پر راضی کیوں نہیں ہے جس سے یہ ملک اپنے
پاؤں پر کھڑا ہوسکے! تھر میں موجود کوئلے کو گیس میں تبدیل کرنے میں آخر
کیا امر مانع ہے؟ یہ کوئلہ گیس قدرتی گیس کے متبادل کے طور پر استعمال کی
جاسکتی ہے ۔ بائیو گیس چین و بھارت میں استعمال ہوسکتی ہے تو پاکستان میں
کیوں نہیں؟ آخر ہم کھانا پکانے کے لیے قدرتی گیس یا لکڑی پر کیوں انحصار
کرنے پر مجبور ہیں؟ پورا شمالی پاکستان پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے۔ یہاں پر
قدم قدم پر ہائیڈل پاور اسٹیشن قائم کیے جاسکتے ہیں۔ یہ ہائیڈل پاور اسٹیشن
پاکستان میں کیوں مقامی سطح پر نہیں بنائے جاتے کہ انہیں ارزاں نرخوں پر
پورے پاکستان میں نصب کیا جاسکے؟ یہ ٹیکسلا کی ہیوی فیکٹری آخر کس مرض کی
دوا ہے؟ ان پاور اسٹیشنوں کی پاکستان میں پیداوار کے لیے چین کے ساتھ کیوں
معاہدے نہیں کیے جاتے؟ پاکستان کی پوری ساحلی پٹی پر زبردست ہوائیں چلتی
ہیں۔ اگر کراچی کے تمام فلیٹوں کے اوپرہوا سے چلنے والے چھوٹے چھوٹے بجلی
گھر لگادیے جائیں تو نہ صرف سستی بجلی ملے گی بلکہ صنعتوں کو بھی بجلی وگیس
وافر مقدار میں دستیاب ہوگی۔
یہ اور اس جیسے بے شمار سوالات ہیں جن کے حل نہ ہونے کا مسئلہ ایک عام آدمی
کی سمجھ میں نہیں آتا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان تمام پروجیکٹ پر ذرا کام شروع
کرکے تو دیکھیں، پھر دیکھیے کس طرح بین الاقوامی دباؤ آتا ہے۔ ان بین
الاقوامی سازش کاروں کے فرستادہ ایجنٹ یہ کام کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
یہی زرداری صاحب جو آج امریکا کو نام نہاد آنکھیں دکھانے کا تمغہ سینے پر
لگائے گھوم رہے ہیں، اس بارے میں ایک قدم آگے بڑھانے کا تصور بھی نہیں
کرسکتے۔
یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لیجیے کہ ہمیں ایسے ایشوز میں الجھادیا گیا ہے جن
کا حقیقت سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ پاکستان کو اگر ترقی یافتہ ملک
بنانا ہے تو سب سے پہلے یہاں پر امن و امان کا مسئلہ درست کرنا ہوگا، پھر
اس کے بعد توانائی کے بحران پر قابو پانا ہوگا۔ مگر عملاً ہو کیا رہا ہے!
امن و امان کی خرابی کی ذمہ دار تمام جماعتیں حکومت میں شامل ہیں اور دوش
امریکا کو دیا جارہا ہے کہ گوادر پورٹ کو چین کے انتظامی کنٹرول میں دینے
پر برافروختہ ہوکر وہ پاکستان میں دھماکے کروا رہا ہے۔ یہ بالکل درست ہے کہ
امن و امان میں خرابی کی ڈوریں وہیں سے ہل رہی ہیں۔ مگر اس کا تعلق نہ تو
گوادر پورٹ سے ہے اور نہ گیس پائپ لائن سے۔ پھر یہ بھی تو دیکھیں کہ آخر
دھماکے کرنے والی یہ کٹھ پتلیاں ہیں کون!
پاکستان سعودی عرب کے بعد دنیا کا واحد ملک ہے جو فرنس آئل یا گیس سے مہنگی
ترین بجلی پیدا کرتا ہے۔ ہم ایٹمی طاقت ہیں مگر ایٹمی بجلی پیدا کرنے سے
گریزاں ہیں۔ روز بجلی وگیس کے نرخوں میں اضافہ کرنا پاکستا ن کو بے دست و
پا کرنے کے منظم منصوبے کا حصہ ہے۔ اس تمام معاملے کو ازسرنو سمجھیے اور
سوچیے تو تمام کہانی سمجھ میں آجاتی ہے۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی
حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو
بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔(ختم شد) روزنامہ جسارت
https://www.jasarat.com/index.php?page=03&date=2013-03-18 |