جعلساز قانون سازی نہیں جعلسازی کیا کرتے ہیں

محترم جناب غلام اکبر صاحب نے بہت ہی خوبصورت بات کہی کہ اگر یہی جمہوریت ہے اِسے منوں مٹی کے تلے دفن کردیاجائے۔غلام اکبر میری پسندیدہ ترین شخصیات میں سے ایک ہیں ،میری اُن سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی لیکن اُن کی تحریروں میں اُن کی شخصیت کا حسن جھلکتا ہے ۔ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں انہیںاپنا سینئر اور اُستاد مانتا ہوں ۔اُن کی یہ رائے کہ اگر یہی جمہوریت ہے تو اسے منوں مٹی تلے دفن کردیا جائے “حقیقت کے بہت زیادہ قریب ہے ۔اُن کا پورا مضمون دیکھوں تو مجھے کوئی شکایت نہیں لیکن ایک جملہ ہضم نہیں ہورہا۔انہوں نے لکھا کہ” تعلیم یافتہ نہ ہونا کوئی جرم نہیں ۔ڈگری نہ رکھنے میں کوئی قباحت نہیں لیکن اپنے آپ کو گریجویٹ ظاہر اور ثابت کرنے کے لیے جعل سازی کا مرتکب ہونا ایک گھٹیافعل ہے “غلام اکبر صاحب آپ کی بات میں کوئی شک نہیں کہ الیکشن کمیشن بدعنوان عناصر کو منتخب ہونے سے روکنے کا پابند ہے ۔یہ بات بھی زندہ حقیقت ہے کہ2008ءکے عام انتخابات میں فراڈئیے امیدوار الیکشن کمیشن کی نا اہلی اور بے ایمانی کی وجہ سے کامیاب ہوئے ،اگر اُس وقت کا الیکشن کمیشن اچھی طرح چھان بین کرتا تو ایسا ناممکن تھا کہ جعلی ڈگری والے عام انتخابات میں حصہ لے پاتے ۔غلام اکبر صاحب کہیں ایساتو نہیں کہ الیکشن کمیشن میں بھی ایسے جعل ساز بیٹھے تھے اُس وقت ؟” تعلیم یافتہ نہ ہوناکوئی جرم نہیں ،ڈگری نہ رکھنے میں کوئی قباحت نہیں “میری نظر میں تعلیم یافتہ نہ ہوناہی سب سے بڑا جرم ہے اگر یہی لوگ پڑھے لکھے ڈگری ہولڈر ہوتے تو انہیں کبھی جعلسازی کی ضرورت پیش نہ آتی اور ہم دنےا کے لیے تماشہ بھی نہ بنتے ۔تعلیم یافتہ ہونے پر ہی ہم جعلسازی کرتے وقت شرمائیں گے ۔تعلیم ہی ہمیں شعور دے سکتی ہے کہ ہم جعلسازی اور دھوکہ دہی جیسے شرم ناک فعل سے باز رہیں ورنہ یہی ہوتا رہے گا کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان عام سی نوکری حاصل کرنے کے لیے جعلسازوں کے دروازے کھٹکھٹاتے رہیں گے ۔اعلیٰ ایوانوں میں بیٹھے ان پڑھ اُن کی تعلیم و ڈگری کی قدر نہیں کرسکتے ،قدر کیا وہ ڈگری پر لکھی قابلیت پڑھ نہیں سکتے ۔ایسے لوگوں کو کوئی حق نہیں کہ وہ ایوان اقتدار میں جابیٹھیں ،پڑھے لکھے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان آلو چھولے اور گنڈیریاں فروخت کر یں اور ان پڑھ جاہل قانون ساز اسمبلی میں بیٹھ کر ملک و قوم کو اندھیروں میں دھکیلتے رہیں اس سے بڑا مذاق اور کیا ہوسکتا ہے ۔ہم پچھلے 66سالوں سے اس کہاوت پر عمل کررہے ہیں کہ” جندے کار دانے اوندے کملے وی سیانے “۔آج تک مملکت خُداداد پر مسلط ہونے والے تمام حکمرانوں کا تعلق سرمایہ دار،جاگیردار خاندانوں سے ہے۔یاپھر مسلط ہونے کے بعد سرمایہ دار بن گئے۔ جناب عالیٰ اگر ملک کی قانون سازاسمبلی کا ممبر بننے کے لیے تعلیم یافتہ یاڈگری ہولڈر ہونا ضروری نہیں تو پھر چپڑاسی بھرتی ہونے کے تعلیم یافتہ ہونااورڈگری رکھنا کیوں لازم ہے ؟قومی زبان اُردو اورمیری مادری زبان پنجابی،پشتو،سرائیکی ،پشتون،سندھی ہے تو پھر مجھے بجلی وگیس کے بل کیوں انگریزی میں آتے ہیں ؟غلام اکبر صاحب سے معافی کے ساتھ نہایت اد ب کے ساتھ عرض ہے کہ جب تک ممبر اسمبلی بننے کے لیے تعلیم یافتہ اور ڈگری ہولڈر ہونا ضروری نہ ہوگا اُس وقت تک میرے اور آپ کے پیارے پاکستان کی نہ صرف اسمبلیاں بلکہ ہر ادارہ ایسے جعل سازوں کے قبضے میں رہیں گے۔آپ نے پنجابی کہاوت تو سنی ہوگی کہ بھینسیں ،بھیسوں کی بہنیں ہوتی ہیں ،جنا ب عالیٰ ٹھیک اسی طرح جاہل،جاہل کابھائی ہوتاہے ،مجرم،مجرم کا بھائی ہوتا ہے ،جعل ساز ،جعل ساز کابھائی ہوتا ہے چاہے وہ اسمبلی میں بیٹھے یا الیکشن کمیشن میں بیٹھے ۔سوچنے کی بات ہے کہ الیکشن کمیشن میں بیٹھا جعلسازاگر دوسرے جعلساز کو اسمبلی میں داخل ہونے سے روکے گا تو ظاہر سی بات ہے اسمبلی میں کوئی ایماندار شخص پہنچ جائے گااوراس طرح ملک کی قانون ساز اسمبلی جو سب سے بڑا سپریم ادارہ ہے وہ ایماندار لوگوں سے بھرجائے گاتو آپ بتائیں الیکشن کمیشن میں بیٹھے جعل ساز کا کیا بنے گا؟میں سمجھتا ہوں کہ قوم کاتعلیم یافتہ ہونا بہت ضرروری ہے ۔غلام اکبر صاحب نے لکھاکہ جو لوگ انکم ٹیکس کے گوشوارے ہی داخل نہیں کرتے ،جن کے پاس این ٹی این نمبر ہی نہیں ہے ،جن اصحاب کوملک کے قوانین کاعلم ہی نہیں ان کے سپرد ملک کے لیے قانون سازی کرنے کی عظیم ذمہ داری کیسے کی جاسکتی ہے ۔جناب عالیٰ انتخابات کے ذریعے منتخب ہونے والے جعلساز قانون سازی نہیں کیا کرتے جعلسازی ہی کیا کرتے ہیں۔یاپھر آپ بتائیں کہ آج تک جتنے قانون بنے اُن میں کوئی ایک بھی ایسا ہے جس نے سرمایہ دار،جاگیردار اور وڈیرے کو تختہ دار تک پہنچایا ہو؟امیر آدمی چوری کرتا ہے،ڈکیتی کرتا ہے ،غریبوں کو بے آبروکرتا ہے یہاں تک کہ قتل کرتا ہے لیکن اس ملک کاقانون اسے سزانہیں دے سکتا جبکہ غریب آدمی بغیر کسی جرم یا معمولی سے جرم کی وجہ سے کئی سالوں تک جیل میں سڑتا رہتاہے۔میں تو ایسے قانون کوجعلسازی ہی کہوں گا ۔
Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 514119 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.