امریکی فرسٹریشن میں پاک، افغان پارٹیپیشن-- قند و زہر

امریکی صدر بارک اوباما نے2014میں افغانستان میں مسلط جنگ کے خاتمے و مزید 34ہزار فوج کے انخلا کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اب امریکہ کو سائبر حملوں کا خدشہ ہے۔ امریکہ ، نئی جنگ جوئی میں شمالی کوریا کے حوالے سے یہ عزائم رکھتا ہے کہ ایسے عالمی برادری میں تنہا کردیا جائے اور ایران کو ایٹمی طاقت بننے سے ہر صورت روکا جائے ، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پر گیس پائپ لائن سپلائی کے حوالے سے ، سخت گیر رویہ اور بھارت کو ایران سے گیس فراہمی کا معائدہ ختم کرنے پر سول ایٹمی ٹیکنالوجی سے نوازا گیا۔گو کہ بظاہر امریکہ، القاعدہ کے حوالے سے خوش فہمی کا شکار ہے کہ القاعدہ کی تنظیم کی کمر توڑ دی ہے،ا لیکن اسکے باوجود امریکہ نے دفاعی پالیسی کے تحت اپنے دشمنوں کے خلاف براہ راست نشانہ بنانے کےلئے سی آئی اے کو مکمل اختیارات دئے ہوئے ہیں۔جبکہ افغان طالبان نے حالیہ ان اطلاعات کی تردید کی ہے کہ امریکہ،سے ان کے مذاکرات کامیاب ہو رہے ہیں ، کرزئی کیجانب سے امریکہ و طالبان کے خلاف بیانات پر بھی افغان طالبان کا سخت رویہ سامنے آیا ہے اور انھوں نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ قابضین کی موجودگی تک افغانستان میں جہاد جاری رکھا جائےگا۔دوسری جانب پاکستانی متوقع انتخابات سے قبل امریکی فوج ، افغانستان سے اپنے انخلا کو محفوظ اور تیز بھی بنانا چاہتی ہے اور پہلے مرحلے پر اپنی اہم دستاویزات ، ریکارڈ اور دوسرے مرحلے پر ہتھیاروں کو واپس امریکہ بھیجوانے کےلئے تند دہی سے بظاہر مصروف نظر آتے ہیں۔امریکہ کی کوشش ہے کہ نگران پاکستانی حکومت میں زیادہ سے زیادہ کنٹینرز کراچی پہنچا دئےے جائیں۔جبکہ ذرائع کے مطابق امریکی فوج نے 883کنٹینرز ، جن میں انتہائی قیمتی اسلحہ ، لیز گنز، کمپیوٹر آلات وغیرہ پہنچانے کی مکمل تیاری کرلی ہے۔جبکہ فوجی خیموں ، اسٹیشنریز اورہلکی ملکی فوجی ساز و سامان اس کے علاوہ ہیں۔امریکہ ایک طرف افغانستان میں فوجی انخلا اور محدود تعداد میں افغانستان کے اندر فوجی تعینات کے حوالے سے مصروف ہے تو دوسری جانب امریکی فوجیوں کی جانب سے خودکشیوں کی جانببڑی خطرناک حد تک مائل ہونا امریکہ کے لئے درد سر بنا ہوا ہے۔ ، جبکہ ان فوجیوں کے اہل خانہ کی بڑی تعداد بھی خودکشیوں کی جانب مائل ہو رہی ہے جس سے امریکہ میں سخت ہراس پایا جاتا ہے۔امریکی وزارت دفاع کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2012ءمیں امریکی فوج کے 349سروس آفیسرز نے خودکشی کی ۔ جس کا مطلب ہر 25گھنٹے میں ایک امریکی فوجی نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔ جبکہ لڑائی کے دوران ہلاک ہونےوالوں کی تعداد کئی گنا بڑھ چکی ہے۔سیکرٹری دفاع لیون پینتا نے گزشتہ برس جولائی میں کانگریس کو بتا یا تھا کہ امریکی فوجیوں میں خوکشیوں کا رجحان وبا کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے۔ افغانستان میںنیٹو کے زیر کمان 500سے زائد اہم چوکیاں، فوجی مراکز میں تعینات ساڑے تین لاکھ افغان فوجی جبکہ نیٹو افواج ایک لاکھ تیس ہزار فوجی کے ساتھ افغانستان میں تعینات ہیں اور 2014کے اختتام کے بعد نیٹو افواج کا انخلا متوقع قرار دیا جا رہا ہے ۔واشنگٹن امریکی ایوان نمائندگان نے 607ارب ڈالر کے دفاعی بجٹ کی منظوری دی تھی جس میں امریکی دفاعی بجٹ میں524ار ب ڈالر پینٹاگون کے اخراجات اور 83ارب ڈالر افغانستان سمیت بیرون ملک آپریشن پر خرچ کئے جائیں گے۔2011کی اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق بے گناہ شہریوں کی اموات میں گذشتہ پانچ سالوں سے مسلسل اضافہ ہوتا آیا ہے اور صرف ایک سال میں بے گناہ ہلاک ہونے شہریوں کے تعداد 3021کے قریب بتائی گئی جو کسی ایک سال کے مقابلے میں شہریوں کی اموات میں سب سے زیادہ شرح ہے۔جبکہ صرف32 ایسے حملے ہوئے ہیں جن میں افغان فوجیوں کے ہاتھوں میں آٹھ ماہ کے دوران 44اتحادی فوجی ہلاک کئے گئے۔امریکی اڈے بگرام میں قرآن پاک کے نسخوںکو جلائے جانے اور امریکی پادری ٹیری جونز کی جانب سے قرآن پاک نذر آتش کئے جانے کے واقعات نے افغان عوام میں امریکہ کے خلاف نفرت کی آگ کو بام عروج پر پہنچا نے میں جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام دیا تھا۔افغان اپنی قدیم روایات کی بناءپر غیر ملکی تسلط کوبرداشت کرنے کا عادی کبھی نہیں رہا۔امریکہ اپنے اربوں ڈالرز کے بھاری بھرکم اخراجات کے نتیجے میں معاشی طور پر دیوالیہ ہوچکا ہے لیکن بارک اوباما نے گانگریس کے دونوں کے مشترکہ اجلاس سے اسٹیٹ آف یونین سے خطاب کرتے ہوئے امریکی معیشت کی بحالی پر اطمینان کا اظہار کیا ۔ جبکہ امریکی حکمت عملی کے مقابلے میں افغان طالبان کی منصوبہ بندی بظاہر کامیاب رہی ہے کیونکہ دنیا کی خطرناک ترین گوریلا جنگ میں امریکہ سمیت اتحادی افواج کو زچ کرکے اتنا مجبور کردیا گیا کہ ان کی جانب سے متعدد بار باقاعدہ مذکرات کی پیش کش اور خیر سگالی کی جذبات کے اظہار کی صورت میں طالبان قیدیوں کو رہا بھی کیا گیا۔ امریکہ کی جانب سے 2014ئ کے بعد افغانستان میں روکنے کا جواز پیدا کرنے کےلئے ایسی کاروائیاں بھی کیں جا رہی ہیں تاکہ دنیا کو یہ تاثر دیا جا سکے کہ اگر نیٹو افواج نے افغانستان کو خالی کردیا تو طالبان عسکریت پسند گروپ کی جانب سے دنیا میں دہشت گرد کاروائیوں کے خطرات موجود رہیں گے اور افغانستان ایک بہترین پناہ گاہ کے طور پردنیا کے امن کے لئے تلوار کی طرح ان کے سر پر موجود رہے گی اور ان کے گردنیں اس کی زد میں آسکتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان پر دباﺅ بڑھانے کے لئے کبھی حقانی گروپ ، تو کبھی کوئٹہ کی مجلس شوری کا واویلا کیا جاتا ہے۔امریکہ اپنی جدید ترین ٹیکنالوجی کے باوجود عرصہ دراز تک اسامہ بن لادن کو تلاش کرنے میں ناکام رہا تھا اور اب بھی شمالی وزیرستان میں آئے دن ڈرون حملوں میں القائدہ کے قائدین اور سرکردہ رہنماﺅں کو ہلاک کرنے کے دعوے کئے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود شمالی وزیرستان میں مشترکہ آپریشن کے ذریعے پاک سرحدوں کے اندر افغانستان کی زمینی جنگوں کا رخ امریکی پالیسی کا حصہ بن چکا ہے جس کا پاک افواج کو ادراک ہے اس لئے واضح طور پر افواج پاکستان کے سربراہ کی جانب سے کہہ دیا گیا ہے کہ آپریشن کا فیصلہ سیاسی قیادت اور پاکستانی فوج کرے گی۔امریکہ زبردست فرسٹریشن کا شکار ہے۔ نفسیاتی شکست اور امریکہ میں صدارتی انتخابات و افغان محاذ میں بھاری بھر کم ناقابل برداشت جانی و مالی نقصانات کی حامل افغانستان کی لاحاصل جنگ ، بھاری اخراجات اور امریکی فوجیوں کی مسلسل ہلاکتوںکی روک تھام میں ناکامی سے امریکی عوام کی شدید ناراضگی سامنے آرہی ہے۔جس سے نکلنے کے لئے امریکہ پالیسی میکرز افغانستان میں رکنے کےلئے اور دنیا کی توجہ دوسری جانب مرکوز کرنے کےلئے "گریٹ گیم" کی حکمت عملی کی طے شدی منصوبہ بندی جاری رکھے ہوئے ہے ، اسی گریٹ گیم کے اہم ترین مرحلے میں کراچی میں ، دہشت گردی کی بحرانی کیفیت پیدا کرنا ،تاکہ صورتحال اتنی مخدوش ہوجائے کہ ، انتخابات وقت پر نہ ہوسکیں ، یا پھر عارضی طور پر کراچی کے انتخابات کو ملتوی کردیا جائے۔ تاکہ اپنی من پسند حکومت کی تشکیل میں امریکہ اپنا کردار ادا کرسکے ۔دوئم بلوچستان کی صورتحال ، کراچی سے بھی بدتر بنا کر وہاں بھی انتخابی عمل کو ناممکن بنا دیا جائے اور سرمایہ کار ، ایران میں گیس لائن منصوبے میں دلچسپی نہ لے سکیں اورپاکستان،امریکہ کا دست نگر بنا رہے ۔خیبر پختونخوا توپہلے ہی دہشت زدہ صوبہ ہے ، جبکہ پنجاب پرالزام ہے کہ تما م کالعدم تنظٰموں کی جڑیں اور کاروائیاں کے تانے بانے ، وہیں سے بنُیں جاتے ہیں ۔اب یہی دیکھنا ہے کہ بے اختیار الیکشن کمیشن ، جو اصلاحاتی انتخابی فارم منظور کرانے تک کی قوت نہیں رکھتا ، وہ شفاف انتخابات کیونکر کراسکتا ہے۔ امریکہ اور بھارت کے کردار کو وسیع تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ، دہشت گردی کا پشاور ، ہزاروں افراد کے جلسے میںپٹاخے کی گونج سے تو محفوظ ، لیکن عسکریت پسندوں کی جانب سے اس کے نا پسندیدہ رہنماء غیرمحفوظ رہتے ہیں ، جو ظاہر کرتا ہے کہ اگر خیبر پختونخوا کے بڑی سیاسی جماعتوں نے اس عمل پر تحفظات ظاہر کرتے ہوئے ، انتخابات سے دور ہوئیں تو پھر اس کا فائدہ براہ راست کیسے پہنچے گا ، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔پاکستانی فوج اور عدلیہ کا کردار مثالی ہے ،پانچ سال جمہوری حکومت پورا ہونے کا کریڈٹ صرف پاک فوج اور سپریم کورٹ کو جاتا ہے۔اگر ماضی کی روایات کی طرح ، پاکستانی سیاست دانوں کی لوٹ مار اور بد عنوانیوں کے سبب ، انھیں نا اہل قرار دے دیا جاتا تو یہ ہر بار کی طرح سیاسی شہید بن جاتے۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 399 Articles with 264101 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.