یار میں وی تے چودھری آں

بڑے چودھری صاحب سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی گردانے جاتے ہیں۔ اس قدر غریب پرور ہیں کہ انتخابی نشان بھی غریبوں والا ہے اور زبان بھی، کیونکہ غریب کی بولی کسی کی سمجھ میں نہیں آتی یا پھر کوئی سمجھنا ہی نہیں چاہتا۔ سائیکل اور کالے چشمے سے پہچان بنانے والے بڑے چودھری صاحب پہلے بولتے نہیں، جب بولتے ہیں تو اُن کی بات سمجھ نہیں آتی اور جو بات سمجھ آتی ہے وہ انتہائی گہری ہوتی ہے۔ حافظ حسین احمد اور شیخ رشید احمد کی طرح وہ بھی کبھی کبھار بڑے لطیف انداز میں طنز و مزاح کرتے ہیں۔ اُن کے ”رات گئی بات گئی“ اور ”مٹی پاﺅ“ جیسے طنز و مزاح سے بھرپور جملے اکثر ذرائع ابلاغ کی زینت بنے رہتے ہیں۔ بڑے چودھری صاحب سیاست کے سب پھڈے جانتے ہیں۔ نون لیگ کے بڑے چودھری کے مطابق جو تین پھڈے باز انتخابات ملتوی کرانا چاہتے ہیں اُن میں قاف لیگ کے بڑے چودھری بھی شامل ہیں۔ حکومتی اتحاد کے مزے لوٹنے اور چھوٹے چودھری کو ”ڈپٹی وزیراعظم “بنانے کے بعد اب بڑے چودھری صاحب نے ”ذاتی رائے “کو ترجیح دیتے ہوئے اپنا نام ”نگران وزیراعظم “کیلئے پیش کر دیا ہے۔ چودھری صاحب دو مہینے بھی حکومت سے جدا نہیں رہ سکتے اور کہتے ہیں کہ نگران وزیراعظم کیلئے مجھ (چودھری شجاعت) سے زیادہ موزوں کوئی نہیں ہے۔ آئینی لحاظ سے یہ اسمبلی سولہ مارچ تک ہے، اس کے بعد اس کا وجود خود بخود ختم ہو جائے گا۔ تادم تحریر آج (سولہ مارچ) اس اسمبلی کا آخری دن ہے مگر تاحال حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاق رائے ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ اگر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر حکومتی مدت کے دوران نگران وزیراعظم کیلئے کسی ایک نام پر متفق نہ ہو سکے تو پھر معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے سپرد ہو جائے گا، وہاںبھی فیصلہ نہ ہوا تو حتمی فیصلہ الیکشن کمیشن کرے گا۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان فی الحال ڈیڈلاک برقرار ہے اور لگتا ہے کہ دونوں جماعتیں تاحال ایسا نگران وزیراعظم منتخب کرنے میں ناکام ہیں جو ”بڑے چودھری صاحب “سے زیادہ موزوں ہو۔ طاہر القادری تو نگران وزیراعظم کیلئے پہلے ہی چودھری شجاعت حسین کو ”موسٹ فیورٹ “قرار دے چکے ہیں۔ موجودہ اسمبلی کی مدت کے خاتمہ تک تاحال نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاق نہ ہونے سے بڑے چودھری صاحب کی ایک ”خواہش “تو پوری ہوتی نظر آ رہی ہے۔ اگر سولہ مارچ کی رات بارہ بجے تک نگران وزیراعظم کا اعلان نہیں ہوتا تو پھر اگلے مرحلے میں اُنہیں پارلیمانی کمیٹی سے تعلقات بڑھانا ہوں گے اور اگر یہاں بھی ”دال نہ گلے “تو پھر قاف لیگ کو الیکشن کمیشن میں ایک درخواست دے کر یہ ثابت کرنا ہوگا کہ نگران وزیراعظم کیلئے ”بڑے چودھری صاحب“ سے زیادہ موزوں کوئی نہیں ہے۔ بے شک بڑے چودھری صاحب کو وزارت عظمیٰ کا ”تجربہ “بھی ہے، کیونکہ وہ پہلے بھی ”پینتالیس دن“ کے وزیراعظم رہ چکے ہیں البتہ عوام کو یہ گلہ ہے کہ اُن کے ”آدھے لفظ “سمجھ میں نہیں آتے۔
Najeem Shah
About the Author: Najeem Shah Read More Articles by Najeem Shah: 163 Articles with 192388 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.