پاکستان میں ایک عرصے سے
طالبان کے ساتھ مذاکرات کی باتیں گردش کررہی ہیں۔طالبان خود بھی دو بار
حکومت کو مذاکرات کی دعوت دے چکے ہیں، طالبان کی طرف سے اس دعوت کو تجزیہ
کاروں نے بہت بڑی تبدیلی قرار دیا تھا۔ اس کے بعد پاکستان کی سیاسی جماعتوں
کی طرف سے ان مذاکرات کی بھرپور حمایت کی گئی ، جبکہ مذہبی جماعتیں تو روز
اول سے ہی طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کرتی آرہی ہیں۔مذاکرات کے حوالے
سے تمام سیاسی جماعتیں پاکستان کی عسکری قیادت کے مثبت جواب کی منتظر
تھیں۔گزشتہ روز پاکستان کی عسکری قیادت نے طالبان سے مذاکرات کی ذمہ داری
سیاسی قیادت پر ڈالتے ہوئے، اپنے آپ کو غیر جانبدار کرلیا ہے۔
کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل خالد ربانی نے کہا ہے کہ فوج کو طالبان سے
مذاکرات پر کوئی اعتراض نہیں اور نہ ہی تحفظات ہیں، طالبان سے مذاکرات کا
فیصلہ سیاسی قیادت نے کرنا ہے، اب تک جہاں بھی فوج نے آپریشن کیا سیاسی
قیادت کے حکم پر کیا، الیکشن کے دوران حساس علاقوں میں آئین اور قانون کے
مطابق فوج سیکورٹی فراہم کرے گی۔کور کمانڈر پشاور نے بتایا کہ شمالی
وزیرستان اور خیبر ایجنسی کے کچھ علاقے اس وقت مکمل طور پر کنٹرول میں ہےں۔
سکیورٹی اقدامات کے لیے الیکشن کمیشن سے بھرپور تعاون کیا جائے گا۔ان کا
کہنا تھا کہ طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے اب تک سیاسی قیادت نے فوج سے
رابطہ نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ سوات میں پہلے کی طرح سیاحت کی بحالی اور
علاقے کی ترقی کے لیے عوام کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور علاقے کا
انتظام فوج کی بجائے ضلعی انتظامیہ کو خود سنبھالنا پڑے گا۔ سیاسی قیادت
اور مقامی انتظامیہ اس بات کا خیال رکھے کہ آئندہ کوئی علاقے کا امن تباہ
نہ کرے۔ سب کو مل کر ہی امن قائم کرنا ہوگا۔
سابق وزیرِ دفاع نوید قمر کا بھی کہنا تھا کہ طالبان سے مذاکرات کے معاملے
پر فوج اپنی رائے نہیں دے سکتی کیونکہ اصولی طور پر اسے حکومت کی پالیسی پر
چلنا ہوتا ہے۔ بہت سی سیاسی جماعتوں نے اس معاملے پر ایک اتفاقِ رائے بنانے
کی کوشش کی ہے اور اگر کوئی ایسی صورتِ حال پیدا ہوجاتی ہے، جہاں ہر ایک یہ
سمجھتا ہے کہ صرف یہی ایک حل ہے تو اس بارے میں بھی پھر بات چیت کی جائے گی
۔ تمام جماعتوں کی مشاورت سے ہی مذاکرات ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان
طالبان کے معاملے پر عمل شروع ہو چکا ہے مگر پاکستانی طالبان سے مذاکرات کے
معاملے پر ابھی عوام نے فیصلہ کرنا ہے۔ طالبان کی خواہش کچھ بھی ہوسکتی ہے
مگر حکومت کو قانون اور آئین کے تحت ہی چلنا ہوگا۔ ہر حکومت مختلف اداروں
سے مشاورت کرتی رہتی ہے اور انہیں ہمیشہ مدِ نظر رکھا جاتا ہے۔ آئندہ عام
انتخابات میں طالبان کی جانب سے حملوں کے خدشات پر ان کا کہنا تھا کہ اس
بات کا امکان نہیں کہ عبوری حکومت کے آنے کے بعد طالبان حملے بند کر دیں،
تاہم پاکستان کی تاریخ یہ رہی ہے کہ برے سے برے حالات میں بھی انتخابات
ہوئے ہیں۔یہ واضح رہے کہ دو روز قبل ہی جمیعت علماءاسلام کے سربراہ مولانا
فضل الرحمن نے کہا تھا کہ طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے وہ فوج کے ساتھ
بات چیت کرنے کو تیار ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہم اس سلسلے میں فوج کے ساتھ
بات چیت کریں گے۔ اور تین فروری کو تحریک طالبان پاکستان نے دوسری بار پھر
حکومت کو مذاکرات کی دعوت دی تھی اور مولانا فضل الرحمٰن، منور حسن اور
نوازشریف پر اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ تینوں فوج
کے لیے ضمانت دیں تو مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں۔دوسری جانب طالبان کے ساتھ
مذاکرات کے سلسلے میں بنائے گئے جرگے کے ممبر صادق شیرانی کا کہنا تھا کہ
پاکستان میں دہشت گردی اور بد امنی کے ذمہ دار طالبان نہیں ہیں۔ دہشت گردی
کے ذمہ دار بہت سے عوامل اور عناصر ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کے ذمہ دار
اندرونی اور بیرونی عناصر ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں عسکری اور سیاسی
قیادت کے علاوہ آنے والی نگران اور انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی
حکومت کی حمایت اور تعاون کی ضرورت ہے۔
یہ یاد رہے کہ گزشتہ دنوں مولانا فضل الرحمن نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے
حوالے سے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی اے پی سی بلائی تھی جس میں
سوائے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے
شرکت کی تھی اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کی تھی، اس سے پہلے اے
این پی نے بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے اے پی سی بلائی تھی جس
میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کی گئی تھی۔مولانا فضل الرحمن کی اے
پی سی کے بعد تحریک طالبان پاکستان کا کہنا تھا کہ کل جماعتی کانفرنس کا
انعقاد خوش آئند ہے لیکن ان کو ’طاقت کے محور پاکستانی فوج کی جانب سے
مذاکرات کے حوالے سے پیش رفت کا انتظار ہے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ’شوریٰ نے
کانفرنس میں دہشت گردی کی بجائے بدامنی کا لفظ استعمال کر کے مثبت جواب دیا
ہے۔ اگر سیاسی قیادت مذاکرات میں دلچسپی لیتی ہے اور پاکستانی فوج نہیں
لیتی تو یہ مذاکرات ’پائیدار نہیں ہوں گے کیونکہ فوج ہی اس ملک میں طاقت کا
محور ہے‘۔انہوں نے مزید کہا ’ہم نے شروع ہی سے یہ بات کی تھی کہ یہ سیاسی
قائدین ہمیں فوج کی ضمانت دے دیں کیونکہ فوج کے بغیر یہ مذاکرات ادھورے ہیں۔‘
طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حمایت تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر کی تھی، جب
کہ ان کو عسکری قیادت کے مثبت جواب کا انتظار تھا، اگر عسکری قیادت طالبان
سے مذاکرات پر تیار ہوجاتی ہے تو طالبان کے ساتھ مذاکرات کرلیے جائیں گے۔کل
جماعتی کانفرنس میں یہ بھی طے پایا تھا کہ آنے والی حکومت بھی کل جماعتی
کانفرنس میں طے پانے والی شقوں پر عمل کرے گی، کیونکہ اس کانفرنس میں تمام
سیاسی جماعتیں شریک تھیں اور ظاہر ہے کہ آئندہ بھی انہی جماعتوں میں سے کسی
کی حکومت ہوگی۔اب جب کہ عسکری قیادت نے طالبان سے مذاکرات کی ذمہ داری
سیاسی قیادت پر ڈالی ہے تو سیاسی قیادت کو طالبان سے پرامن مذاکرات کا
انتظام کرنا چاہیے، خصوصاً مولانا فضل الرحمن کو جنہوں نے ایک کامیاب
کانفرنس طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے بلائی تھی۔اگرچہ اب کوئی منتخب
حکومت نہیں ہے لیکن، یہ بات تو کانفرنس کے وقت بھی معلوم تھی کہ چند دن کے
بعد حکومت ختم ہوجائے گی، اس کے بعد مذاکرات کے لیے کیا ترتیب ہوگی۔ |