بالآخر 16مارچ 2013 کو 18 فروری
2008ءکے انتخابات کے تحت وجود میں آنے والی پاکستان کی 13 ویں قومی اسمبلی
اپنی آئینی مینڈیٹ پورا ہونے پر تحلیل ہوگئی، اِس سے قبل 2002 کے مشرف دور
آمریت میں تشکیل پانے والی قومی اسمبلی نے بھی اپنی پانچ سالہ میعاد پوری
کی تھی، جبکہ اپنی میعاد پوری کرنیوالی موجودہ اسمبلی کے انتخابات بھی جنرل
مشرف کے ماتحت قائم سسٹم کے تحت ہی منعقد ہوئے تھے،تاہم موجودہ اسمبلی مشرف
کی جرنیلی آمریت کے خاتمہ کا باعث بنی اور سلطانی جمہور سے وابستہ ہونے کی
دعویدار رہی ،اس لئے اِس منتخب جمہوری اسمبلی کی آئینی میعاد کی تکمیل قومی
سیاسی تاریخ کا ایک منفرد واقعہ قرار دیا جا سکتا ہے،مگراِن پانچ برسوں میں
پیپلز پارٹی کی حکومت نے قوم سے کیا چھینااور کیا دیا، اِن پانچ برسوں میں
قوم پر کیا بیتی، اُس نے کیسے زندگی گزاری، کس طرح حالات سےسمجھوتہ کیا،
ہمارے حکمرانوں نے اِس سے کوئی غرض وغایت نہیں رکھی،وہ تو قومی خزانہ لوٹنے
اور ملکی دولت پر ہاتھ صاف کرنے میں مصروف رہے ،حکومتی ارکان نے کوئی موقع
اور کوئی لمحہ اِس کار خیر سے دور رہنا پسند نہ کیا ،بلکہ اقتدار کے ڈوبتے
سورج کی آخری کرن تک لوٹ مار اور بھاگتے چور کی لنگوٹی پر بھی ہاتھ صاف
کرنے کی ہوش رُباداستانیں منظر عام پر آتی رہیں۔
اِس معاملے میں جمعہ 15مارچ کو سندھ حکومت نے تو انتہا ہی کردی اور منتخب
ارکان اسمبلی نے اپنے لیے تاحیات مراعات بھی منظور کرالیں، یوں مدت ختم
ہونے سے ایک دن پہلے اپنے لیے تنخواہ میں 60 فیصد تک اضافے کی خود ہی
منظوری دے ڈالی ،سندھ کے وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کے اس اقدام نے
ہمارے سر فخروغرور سے بلند کردیئے ،موصوف جاتے جاتے اپنے، اسپیکر اور ڈپٹی
اسپیکر کیلئے زندگی بھر تنخواہ اور الاﺅ نسز کی مد کا 70 فیصد الاوئنس کی
منظوری دے گئے ،ساتھ ہی وزیراعلیٰ صاحب اپنے لیے گریڈ 17 کا سیکرٹری، کلرک،
ڈرائیور، مالی، باورچی اور ایک بھنگی رکھ سکیں گے،جن کی تنخواہ کا بوجھ
عوام پر ہی ہوگا،بات یہاں پر نہیں رکی ،موصوف 10 ہزار روپے ماہانہ فون اور
موبائیل الاﺅنس کے ساتھ پولیس سیکورٹی کے بھی حقدار ٹھہرے ،برسر اقتدار
پارٹی نے جاتے جاتے ایسی لوٹ سیل لگائی ، جس کی ہمیں ماضی میں کوئی مثال
نہیں ملتی،اوپر سے ڈھٹائی کی انتہا یہ دعویٰ ہے کہ ہم نے عوام کی خدمت کی
ہے، سندھ اسمبلی نے آخری لمحہ تک مفادات سمیٹنے اور لوٹ مار کرنے کے لیے
ہفتہ کے دن کی تعطیل بھی منسوخ کردی، یہی نہیں بلکہ اسٹیٹ بینک سمیت تمام
بینک بھی کھلوائے گئے تاکہ آخری دن پیسے کا لین دین مکمل ہوجائے، دوسری طرف
وزارت خزانہ میں فنڈز کے اجراءکیلئے لوٹ سیل لگی رہی اور بلوں پر دھڑا دھڑ
سائن ہوتے رہے ،طرفہ تماشا یہ کہ حکومت سندھ نے آخری دنوں میں ایک اور
کارنامہ یہ بھی انجام دیا کہ من پسند لوگوں کو نوکریاں بانٹی گئیں ، ہزاروں
عارضی ملازمین کو مستقل کیا، یہ سب عوام کی محبت میں اور اپنے منشور روٹی،
کپڑا اور مکان کے دعوے پر عمل درآمد کیلئے نہیں ہوا بلکہ آنے والے الیکشن
میں اپنے ووٹرزکی تعداد بڑھانے کے لیے کیا گیا۔
لوٹ مار اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں وفاقی حکومت بھی کسی سے پیچھے
نہیں رہی ، ملک بھر میں نئے سی این جی اسٹیشنزپر پابندی کے باوجود وزیراعظم
صاحب نے اپنے منظور نظر افراد کو 400 لائسنس جاری کردیئے اور نیشنل بینک
میں 3 ہزار ملازمین کی بھرتی کے احکامات کے ساتھ 100 افسران کو پلاٹ اور
وفادار افسروں کو ترقی بھی د ی،دوسری طرف قومی اسمبلی کی اسپیکرکی جانب سے
دفتر چھوڑنے سے دو دن قبل خود اپنی زیر صدارت ہونے والے قومی اسمبلی کی
فنانس کمیٹی کے آخری اجلاس میں تاحیات بھاری مراعات کی منظوری کا نوٹیفکیشن
جاری کر وایا، جس کے تحت فہمیدہ مرزا سمیت 6 سابق اسپیکرز صاحبزادہ فاروق
علی خان، فخر امام، الٰہی بخش سومرو، حامر ناصر چٹھہ، چوہدری امیر حسین اور
یوسف رضا گیلانی بھی اِن مراعات سے مستفید ہوسکیںگے،اِس عرصہ اقتدار کے
دوران انتہائی مقروض قوم کے شاہ خرچ حکمرانوں کی شاہ خرچیاں بھی عروج پر
رہیں، حکومت نے صرف 6 ماہ میں 20 کھرب روپے قرض لے کر پھونک ڈالے اور اپنی
آمدنی سے 6 کھرب 25 ارب روپے زیادہ خرچ کردیئے ، سبکدوش ہونے والی
پیپلزپارٹی کی حکومت کے دور میںملک کا بجٹ خسارہ 13 اعشاریہ69 کھرب کی بلند
ترین سطح پرپہنچ گیا،وزارت خزانہ کی دستاویزات کے مطابق صرف 8ماہ میں 880
ارب روپے تک مالی خسارہ جا پہنچا جو جون تک 14 کھرب ہوسکتا ہے،ارکان اسمبلی
کی طرف سے قومی وسائل کی لوٹ مار کا ایک شرمناک پہلو یہ بھی سامنے آیا کہ
2008ءکے الیکشن میں خالی ہاتھ آنے والے وزراءجاتے وقت سرکاری رہائش کاہوں
سے اپنے ساتھ قیمتی فرنیچر،کراکری،قالین ، ڈیکوریشن کا سامان ،پنکھے ،فریج
،جنریٹر حتیٰ کہ انرجی سیور تک ٹرکوں میں لاد کے لے گئے، اِس کے باوجود
وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے کابینہ سے خطاب کرتے ہوئے جمہوری حکومت کی
مدت کی تکمیل پر مبارکباد پیش کی اور کہا کہ یہ پاکستان کا ایک تاریخ ساز
دن ہے، اُن کا دعویٰ تھا حکومت نے کئی کامیابیاں حاصل کیں اور وہ اپنی
کوششوں میں بڑی حد تک کامیاب رہے ،مگر حکومتی کامیابی اور کارکردگی کا جیتا
جاگتا نمونہ یہ تھا کہ جس وقت وزیر اعظم صاحب قوم سے اپنا پہلا اور آخری
الوداعی خطاب فرمارہے تھے بجلی کی لوڈشیڈنگ کے باعث ملک کی آدھی سے زیادہ
آبادی اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔
اَمر واقعہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کا پانچ سالہ دورحکومت میں خامیوں کا پلڑا
بہت بھاری نظر آتا ہے،اس پورے دور میں ملکی معیشت میں ریکارڈ تنزلی آئی،
قومی قرضے جو پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے سے پہلے تقریباً چھ ہزار ارب
روپے تھے وہ بڑھ کر تیرہ ہزار ارب روپے تک جا پہنچے ہیں، پیٹرول، ڈیزل، سی
این جی اور عام استعمال کی غذائی اشیاءکی قیمتوں میں سینکڑوں گنا اضافہ ہو،
افراط زر کی شرح بڑھی، قومی پیداوار میں میں کمی واقعے ہوئی،پاکستان روپے
کی قدر شرمناک حد تک گر گئی، مالیاتی انتظام انتہائی خراب رہا، بلکہ فی
الحقیقت قومی خزانے اور حکومتی اداروں کوبے دردی سے لوٹا گیا، کرپشن اور
بدترین گورننس نے ملکی معیشت کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا، پانچ سالوں
کے دوران پانچ وزرائے خزانہ، پانچ سیکرٹری خزانہ اور سٹیٹ بینک کے چار
گورنر تبدیل کیے گئے،قومی اداروں میں قوائد و ضوابط کے خلاف بھرتی اور
ترقیاں دے کر اپنے من پسند افراد کو اہم عہدوں پر لگا گیا، جس سے ان اداروں
کی بنیادیں ہل کر رہ گئیں، پی آئی اے، ریلوے، سٹیل ملز ان کی زندہ مثالیں
ہیں،توانائی کے بحران نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی، عام آدمی کی عزت نفس
کو بھی مجروح کیا گیا اور حیرت انگیز بات یہ کہ اپنی کارکردگی پر اترانے
والی حکومت نے پارلیمنٹ کو اپنی پانچ سالہ کارکردگی کے بارے میں اعتماد میں
لینے یااس حوالے سے قوم کو آگاہ کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں اور وزیراعظم
نے اپنی حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی پر مفصل خطاب سے گریز کیا۔ملکی تاریخ
میں پہلی بار صدر اور وزیر اعظم اور کابینہ کے ارکان پر کھل کر کرپشن کے
الزامات لگے، پیپلزپارٹی کے ممبران اور حکومتی ارکان نے قومی خزانے کے
اربوں روپے کو غیر قانونی طور پر اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا اور حکومت
نے قومی تقاضے پورے کرنے کی بجائے ذاتی اور پارٹی مفادات کو مقدم جانا،اس
عرصے میںحکومت نے امن و امان اور عوام کی جان و مال کے تحفظ کو ترجیح نہ دی،
دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور انتہا پسندی کو فروغ ملا، عوام کی جان ومال ،عزت
وآبرو بھی داو ¿ پر لگی رہی ،مزیدطرفہ تماشا یہ کہ موجودہ حکومت کے دورمیں
300فیصدسے زائد مہنگائی کاشکار رہنے والی عوام کیلئے جمہوریت کے آخری
48گھنٹے انتہائی بھاری رہے اوراپنی مدت ختم کرنے سے چندگھنٹے قبل اسمبلی
اپنے لئے انتہائی بھاری مراعات کی ایسی حالت میں متفقہ طورپرمنظوردیتی
رہی،جبکہ بیرونی قرضوں کے نتیجے میں ہر پاکستانی 88ہزارروپے سے زائد کا
مقروض اور حکومتی اقدامات کے نتیجے میں 1کروڑ 90لاکھ پاکستانی بیروزگار ہیں۔
اُدھر خیبر پختونخوا کی حکومت نے اپنے آخری دن انتہائی انوکھا فیصلہ کرتے
ہوئے ملاکنڈ تعلیمی وبورڈ کے کنٹرولر کو ہٹاکرباچا خان اسکول کے مبینہ
سفارشی پرنسپل کو یہ نشست سونپ دی،مرکز میں نئے منتخب کردہ وزیرخزانہ سلیم
مانڈوی والا نے خصوصی چابکدستی دکھائی اوراپنی وزارت کے 20روزمیں 5ارب روپے
کے معاشی فیصلے کر ڈالے،جس میں 16ارب روپے کی متنازعہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم
بھی ہے،یوں حکومت نے اسمگل شدہ گاڑیوں کی رجسٹریشن کی اجازت دے کر قانونی
طریقے سے کاروبارکرنے والوں کے معاشی قتل فیصلہ کیا ،یہ قوم کی بدقسمتی ہی
تھی کہ امن وامان کے حوالے سے موجودہ حکومت کا دورایک ڈراو ¿نا خواب ہی
رہا،دستیاب اعدادوشمار کے مطابق 9900خواتین وبچوں سمیت 50ہزارسے زائد شہری
دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے اورشہری ودیہی علاقوں میں عبادت گاہوں سمیت
15ہزارگھر،اسکولز،مساجز وامام بارگاہیں اوردکانیں بم دھماکوں کے نتیجے میں
تباہ ہوئیں،پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں قبائلی علاقوں میں 230ڈرونز حملے
کئے گئے ، جن میں آزادذرائع کے مطابق 12ہزار سے زائد لوگ مارے گئے،اس دور
حکومت میںسلالہ چیک پوسٹ پر حملہ بھی پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین
باب ہے، ایبٹ آباد آپریشن، جی ایچ کیو، مہران بیس پر حملہ اور آئے روز خود
کش دھماکوں کی وجہ سے ملکی سا لمیت پر کاری ضربیں لگیں،مگر حکومت کی طرف سے
کوئی بھی سنجیدہ اقدام دیکھنے میں نہ آیا، اور ریمنڈ ڈیوس کا پاکستان سے
فرار بھی پیپلز پارٹی حکومت کا ایک کارنامہ ہے جس سے عالمی سطح پر پاکستان
کے امیج کوکاری ضرب لگی، خارجہ پالیسی میں بھی پیپلز پارٹی کو سخت ناکامی
کا سامنا رہا اور امریکہ سمیت بھارتی جارحیت کے خلاف کوئی بھی موثر حکمت
عملی وضع نہ کی جاسکی ۔
حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کا یہ دور حکومت پاکستان کی تاریخ کا سیا ہ
ترین دور حکومت تھا،جس میں مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہوا ،جس میں غریب،
غریب تر ہو گئے اور امیر امیر تر ہوتے چلے گئے ، ایک طرف غریب مرتے رہے تو
دوسری جانب وزیر تیس تیس گاڑیوں کے کارواں کے ساتھ پروٹوکول کے مزے لیتے
رہے،اس دور حکومت میں کرپشن ،لوٹ مار اور اقرباپروری کی داستانیاں کسی سے
ڈھکی چھپی نہیں، سینکڑوں ایسے سیکنڈل ہیں جن میں اربوں روپوں کی کرپشن کی
گئی اور ملکی خزانے کو زبردست نقصان پہنچا یا گیا،دنیا بھر میں پاکستان کی
جگ ہنسائی ہوئی، معیشت تباہی کے دھانے پر پہنچی،حیرت کی بات یہ ہے کہ گزشتہ
5 سال میں جو لوٹ مار کی گئی اس پرحکومت اور ارباب اقتدار زرہ برابر بھی
شرمندہ نہیں بلکہ پر عزم ہیں کہ عوام انہیں دوبارہ اقتدار کے سنگھاسن پر
بیٹھائیں گے۔
حریص ِمنصب حریص ِزر تھے
فروغ شر تھے جو مقتدر تھے
لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا عوام اس بار بھی ان لٹیروں کو پہچاننے میں
غلطی کریں،یا پھر سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے ووٹ کے ذریعےتبدیلی کو
یقینی بنائیں گے،یقینا آنے والے انتخابات عوام کی اِسی بالغ نظری کا امتحان
ہیں،اس مرتبہ عوام نے اگر اپنے ووٹ کے حق کو ضائع کر دیا تو پھر ایسی ہی بے
فیض وبے عمل قیادتیں ہی ملک پر مسلط ہوں گی جس کے نتائج اِس سے بہت زیادہ
سنگین ہوسکتے ہیں، اگر عوام کو اپنی تقدیر بدلنی ہے تو خود کو بھی بدلنا
ہوگا اور اپنے ووٹ کے درست استعمال سے ایک مخلص ،صالح اور ایماندار قیادت
کو برسراقتدار لانا ہوگا،سوچیئے اور درست فیصلہ کیجئے ،کہیں ایسا نہ ہو کہ
آپ کا غلط فیصلہ ایک بار پھر کسی ایسی ہی پارلیمینٹ کو وجود میں لانے کا
سبب بن جائے جسے ملک وقوم کے پانچ سال ضائع کرنے کا زرّہ برابر بھی افسوس
نہ ہو۔
خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو |