بنگلہ دیش حکومت کی انتہا پسندی

2009ءمیں برسراقتدار آنے کے بعد بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی حکومت نے اسلام پسند جماعتوں پر ظلم کے پہاڑ کھڑے کر دیئے ہیں۔ ان میں جماعت اسلامی سرفہرست ہے جس پر یہ الزام ہے کہ اس نے 1971ءکی جنگ میں پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔ ”را“ کے پنجرے میں بند شیخ حسینہ حکومت کے اس اقدام کا فائدہ پڑوسی ملک بھارت نے اُٹھایا اور جلتی پر تیل کا کام کرتے ہوئے وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے یکم جولائی 2011ءکو انکشاف کیا کہ جماعت اسلامی سے منسلک بنگلہ دیش کی ایک چوتھائی (25فیصد) آبادی بھارت مخالف نظریات رکھتی ہے اور اس کے پیچھے پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا ہاتھ ہے۔ اس کے بعد سے جماعت اسلامی اور اس کے بزرگ قائدین عوامی لیگ حکومت کے زیر عتاب ہیں۔ بھارتی وزیراعظم کے اس آف دی ریکارڈ بیان کے منظرعام پر آنے سے بظاہر بنگلہ دیش نے اس پر احتجاج کیا اور پھر دونوں ملکوں نے اس تبصرہ کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش بھی کی مگر حالیہ واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارتی اور بنگلہ دیشی خفیہ ایجنسیاں مل کر جماعت اسلامی کے خلاف سرگرم ہیں۔

بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کے الزام میں اب تک جماعت اسلامی کے امیر مولانا مطیع الرحمن نظامی، بانی رہنماءپروفیسر غلام اعظم، مولانا عبدالسبحان، نائب امیر مولانا دلاور حسین سعیدی، علی احسن محمد مجاہد، محمد قمر الزمان، عبدالقادر ملا، اے ٹی ایم اظہر الاسلام اور میر قاسم علی کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جبکہ بہت سے رہنماءزیر زمین چلے گئے ہیں ان میں جماعت اسلامی کے سابق رہنماءابوالکلام آزاد بھی شامل ہیں۔ ان کی غیر موجودگی میں ٹریبونل نے انہیں سزائے موت سنائی ہے، جبکہ گرفتار ہونے والے عبدالقادر ملا اور مولانا دلاور حسین سعیدی کو بھی سزائے موت سنائی گئی ہے۔ بنگلہ دیشی پارلیمان آئین میں ایک ایسی ترمیم بھی منظور کر چکی ہے کہ جس کے تحت جماعت اسلامی پرسنہ 1971ءکی جنگ آزادی کی مخالفت کرنے اور انسانیت کیخلاف جرائم کا ارتکاب کے جرم میں پابندی عائد کی جا سکے۔ 1996ءکے عام انتخابات میں عوامی لیگ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی حمایت سے برسراقتدار آئی تھی لیکن 2001ءمیں خالدہ ضیاءکی نیشنلسٹ پارٹی اس کی حمایت سے حکمراں بنی۔ اس کے بعد سے ہی عوامی لیگ نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے خلاف 1971ءکے جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا راگ الاپنا شروع کیا۔

سنہ2009ءمیں دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد عوامی لیگ سیاسی انتقام پر اتر آئی تاکہ جماعت اسلامی کو کچل کر وہ آسانی سے 2014ءکے عام انتخابات جیت سکے۔ متحدہ پاکستان میں رہتے ہوئے اس کی حفاظت ہر پاکستانی کی ذمہ داری تھی اور جماعت اسلامی نے اس حب الوطنی کا پورا ثبوت دیا۔ 1971ءمیں پاکستان کو تقسیم سے بچانے والے ملک کے وفادار لوگوں کی وفاداریاں بنگلہ دیش بننے کے بعد نئے ملک کی طرف منتقل ہو گئیں۔ یہ بات طے ہے کہ جماعت اسلامی نے بنگلہ دیش بننے کے بعد کبھی ملک کے خلاف تحریک نہیں چلائی۔ جماعت اسلامی اپنے حق میں یہ ثبوت بھی دیتی ہے کہ اگر وہ شیخ مجیب الرحمن کے خلاف ہوتی تو پھر 1996ءمیں حسینہ واجد حکومت کی حلیف نہ بنتی۔ بات سچ ہے، مگر جماعت اسلامی کا ایک قصور تو بہرحال ہے، کم از کم حسینہ واجد کی نظر میں، کہ وہ خالدہ ضیاءحکومت کی بھی حلیف رہی تھی اور یہ وفاداریاں بدلنا اب اسے مشکل میں ڈال رہا ہے۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کی مقبولیت بری طرح متاثر ہوئی ہے اور انہیں لگ رہا ہے کہ اب کی بار وہ الیکشن نہیں جیت سکیں گی۔ شاید اسی وجہ سے عوامی لیگ گڑے مردے اکھاڑ کر نیا ایشو کھڑا کرنا چاہتی ہے تاکہ آئندہ عام انتخابات میں جماعت اسلامی کی ممکنہ حمایت یافتہ خالدہ ضیاءکی یقینی جیت کا راستہ روکا جا سکے۔

شیخ حسینہ واجد نے سیاسی انتقام سے جو انٹرنیشنل کرائم ٹریبونل قائم کیا ہے اس کی دھاندلی کا کچا چٹا بین الاقوامی انسانی تنظیموں کی رپورٹوں اور انصاف پسند لوگوں کے اعتراضات سے سامنے آ رہا ہے۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ بھی اس ٹریبونل کو تسلیم نہیں کرتی۔ مشرقی پاکستان کو علیحدہ ہوئے چار دہائیوں سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے۔ اس دوران بنگلہ دیش میں کئی حکومتیں آئیں اور متعدد بار عوامی لیگ بھی برسراقتدار رہی لیکن اسلام پسندوں کو اس طرح ڈھونڈ کر سزائیں نہیں سنائیں گئیں جس طرح شیخ مجیب کی پارٹی آج سنا رہی ہے۔ جماعت اسلامی برصغیر کی وہ پہلی جماعت ہے جس نے اسلام کو بطور سیاسی نظام متعارف کرایا۔ شیخ حسینہ نے 2009ءمیں برسراقتدار آ کر بنگلہ دیش میں اسلامی فاﺅنڈیشن کے حکم پر برصغیر میں جماعت اسلامی کے بانی مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تمام کتابیں بھی ملکی مساجد کی لائبریریوں سے ہٹا دیں اور اب وہ اس جماعت پر پابندی لگانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔شیخ حسینہ واجد بنگلہ بدھو شیخ مجیب الرحمن کی زندہ بچ جانے والی بیٹی ہیں جو برصغیر میں روایتی طور پر خاندانی سیاست کی بناءپر بنگلہ دیش کی وزیراعظم بنی ہیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ وہ اپنے باپ کے سیاسی نظریئے یعنی قوم پرستی کو ہَوا دیتے ہوئے ہر اُس نظام اور ازم کے خلاف ہیں جو قوم پرستی کے زہر کا تریاق ہو۔

بنگلہ دیش میں اصل سیاسی لڑائی شیخ حسینہ اور خالدہ ضیاءکے درمیان ہے مگر انتقام کا نشانہ جماعت اسلامی کو بنایا جا رہا ہے۔ خالدہ ضیاءکے مطابق شیخ حسینہ بھارتی حمایت سے برسراقتدار آئی ہیں جبکہ شیخ حسینہ کی نظر میں خالدہ ضیاءآئی ایس آئی کی ایجنٹ ہیں۔ آج بنگلہ دیش میں بھارت اور اس کے ایجنٹ ایک نئی مہم حسینہ واجد کی سرپرستی اور سرکردگی میں شروع کر چکے ہیں۔ جماعت اسلامی کے رہنماءعلی احسن مجاہد کے خلاف پیش ہونے والے سرکاری گواہ کی اصلیت سامنے آنے پر حسینہ واجد حکومت کی بدنیتی کا پول کھل گیا ہے کہ واقعی وہ بھارتی ایجنٹ کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ علی احسن مجاہد کے وکیل نے دوران جرح یہ ثابت کیا کہ سرکاری گواہ شکتی ساہا ہندو بھارتی شہری ہے اور بغیر پاسپورٹ بنگلہ دیش میں مقیم ہے۔ ایسی رپورٹیں بھی سامنے آ چکی ہیں کہ بنگلہ دیشی خفیہ ایجنسی کے ساتھ مل کر ”را“ جماعت اسلامی کے ٹیلیفون بھی ٹیپ کر رہی ہے۔اس تمام صورتحال میں بھارتی وزیراعظم کے اُس انکشاف کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ جماعت اسلامی سے منسلک بنگلہ دیش کی پچیس فیصد آبادی بھارت مخالف نظریات رکھتی ہے۔ جماعت اسلامی ہند نے اپنی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شیخ حسینہ حکومت پر دباﺅ ڈالے کہ وہ کسی کو بھی سیاسی انتقام کا نشانہ نہ بنائے بلکہ انصاف اور انسانیت کے تقاضوں کو مدنظر رکھا جائے مگر جب کتی چوروں سے مل جاتی ہے تو اُسے اپنوں کی پرواہ نہیں ہوتی بلکہ چوروں کا کام آسان بنا دیتی ہے۔
Najeem Shah
About the Author: Najeem Shah Read More Articles by Najeem Shah: 163 Articles with 177089 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.