بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کس طرف جارہا ہے؟

وہ دونوں جفاکش اور محنتی خواتین تھیں ان کے چہرے ہاتھ اور جسم ان کے سخت جان ہونے کا اعلان کر رہے تھے ۔ چہرے کی جھریاں ان کی عمر رسیدگی کا پتہ دے رہی تھی۔ وہ اپنے گھر میں روزانہ صبح سویرے اٹھ کر جو د و چار جانور تھے ان کیلئے چارہ کاٹ کر لاتی اور پھر ان کا چارہ بنا کر ان جانوروں اور مال مویشیوںکو کھلاتی ۔ نلکے (ہینڈ پمپ) سے پانی کی بالٹیاں بھر بھر کر تمام جانوروں کو پانی پلاتی تھیں ۔ اس کے بعد گھروالوں کیلئے ناشتہ تیار کرتیں۔ ان کے ہاں گیس تو تھی ہی نہیں۔ ایل پی جی کا چولہا اور سلنڈر افورڈ نہیں کرسکتی تھیں۔لہذا لکڑیوں کو مٹی کے چولہے میں جماکر انہیں دہکاتی پھر ناشتہ تیار کرکے تمام چھوٹوں بڑوں کو دینے کے بعد میلے کپڑوں کا گٹھڑ اٹھا کرنہر کنارے چلی جاتی تھیں اور انہیں دھوتیں۔ بعد ازاں کسی کے کھیت میں جاکر بطورمزدری گودی کرتیں، پنیری لگاتیں سبزی چنتی یا جو بھی کام ملتا پیٹ کے دوزخ بھرنے کیلئے کرتیں اور پھر دن ڈھلے گھر لوٹ کر جانوروں کی ضروریات کو پورا کرتیں اور شام ورات کے کھانے کی تیاری کرتی اور پھر جلد سو جاتیں۔ یہ ان کے روز مرہ کے معمولات تھے لیکن وہ اب اس بے حس و بے درد دنیا سے بے دور جا چکی تھیں۔ عدم کو سدھار چکی تھیں کہ ایک روز انہیڈ علاقے کے نمبر دار و سیاسی گرکوںنے سمجھایا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ہزاروں روپے مل رہے ہیں تم بھی اپنے کوائف جمع کراﺅ اور پھر ہر ماہ مزے کرو۔ پہلے بھی بہت سی خواتین اس سے ”فائدہ“اٹھا رہی ہیں اور ہاں پیسے ملنے کے بعد ہمیں نہ بھول جانا ہمارا حصہ بھی رکھنا-

وہ لالچ میں آکر اور اپنی مجبوری کودیکھ کر اپنے روز مرہ کے معمولات چھوڑ کر صبح سویرے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے دفتر کے باہر آکر بیٹھ جاتیں جہاں اور بھی بہت سی خواتین ان سے پہلے بھی اور بعد میں بھی موجود ہوتی تھیں۔ دفتری عملہ اپنی مرضی کے مطابق آتا اور اس کے بعد ج دھکم پیل چھینا جھپٹی اور مارکٹائی شروع ہوتی کہ الامان۔ زمین پر انسانوں کے غصے کی گرمی اور آسمان سے آگ برساتا سورج کوئی سائبان ، سایہ نہ پانی۔ گرمی کی شدت ، دھوپ کی تمازت اور پیاس کی شدت سے بلبلاتے آدم کے ننھے منے معصوم بچے اور حوا کی جوان و بوڑھی بیٹیاں بھکاریوں کی مانند کھڑی بیٹھی اپنی باری کی منتظر ہوتی ۔ لیکن عملہ ان کی مصیبت اور مشکل سے بے نیاز کچھوے کی سی رفتار سے خوش گپیوں میں مشغول رہتا اور 30,20 کیس نمٹا کر اگلے دن کی نوید سناکر چلا جاتا اور باقی رہ جانے والی 95% خواتین حکومت اور عملے کو کوسنے دیتی بے نیل و مرام گھروں کو لوٹ جاتیں جن میں وہ دونوں بھی شامل تھیں-

پھر وہی ہوا کہ جس کا ڈر تھا تیسرے چوتھے روز معمول کے مطابق وہ آئیں لیکن آج وہ خالی پیٹ بغیر ناشتے کئے آئیں کیونکہ یہاں آنے کی وجہ سے کام پر نہ جاسکیں اور گھر میں پیسے نہ ہونے کی بنا پر ناشتہ نہ بن سکا تھادوسرا سورج کی جولانی عروج پر تھی۔ نہ سایہ نہ پانی اور نہ یہ باری سب ”معمول کے مطابق“تھا کہ یکدم وہ چکرا کر گر پڑیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ان کی روح قفس عنصر ی سے پرواز کرگئی ان کے علاوہ بھی تین اور عورتیںڈی ہائیڈریشن کی بناپر بے ہوش ہوگئی تھیں جنہیں ہسپتا ل میں طبی امداد دے کر فارغ کر دیا گیا تھااور جب عملے سے ان کی بابت معلوم کیا گیا تو ان کی لاعلمی اور ڈھٹائی پر سر پیٹنے کو جی چاہتا تھا کہ ایسا کوئی واقعہ رونما ہی نہیں ہوا یہ کہہ کر معاملہ ایسے غائب کردیاجیسے گدھے کے سر سے سینگ کہ نہ ہوگا بانس نہ بجے کی بانسری۔

یہ صرف ایک شہر کہروڑ پکا کی روداد ہے دوسروں شہروں میں بھی اسی قسم کے واقعات معمول ہیں لیکن آنکھوں پر اقتدار اور بے حسی و بے شرمی کے خول چڑھائے ارباب اختیار بے نظیر بھٹو کی روح کو چھید رہے ہیں اور خوشیاں منارہے ہیںاور اس بات کو نظر انداز کررہے ہیں کہ بے نظیر کے نام پر کیا کیا بے ہودگی کی جارہی ہے کوئی پرسان حال نہیں۔بس دکانداری چمکانے اور الیکشن کی تیاری کے سلسلے میں غرق ہیں--

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام یا اس قماش کے دوسرے پروگرام چاہے صوبائی گورنمنٹ کے ہوں یا وفاق کے ،دے کر کیا ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔کیایہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہم کتنے دیالو ہیں؟ کتنے سخی و غنی ہیں؟ کتنے عوام کے خیر خواہ ہیں۔ جبکہ معاملہ اسکے برعکس ہے سب ڈھکوسلا ہے۔ وہ عوام بالخصوص خواتین جو کچھ نہ کچھ کام کاج کرلیتی تھیں وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس فضول کام میں لگ گئی ہیں۔ یعنی محنت س جی چرا کر کشکول اٹھا کر مانند بھکاری شناختی کارڈ اور کاغذ کے ٹکڑے اٹھائے سارا دن ضائع کرے بھوکے پیاسے ذلیل و خوار ہوکر گھر کو لوٹ جاتی ۔ ارے ان سے تو وہ بھکاری بھی بہترہیں جو کم از کم خود بھی کھا کمالیتے ہیں اور بچوں کے پیٹ کا پالن بھی کرلیتے ہیں

اس سسٹم پر پھر کوئی چیک اینڈ بیلنس بھی نہیں ہے کہ کہیں پر تو ایک خاندان کے سات سات افراد کو رجسٹرڈ کر لیا گیا ہے اور جن میں سے اکثر صاحب روزگار بھی ہیں اور کہیں پر حقیقی مستحقین کو گھاس بھی نہیں ڈالی گئی یعنی پسند و ناپسند ، جان پہچان اور اقربا کو مبینہ طور پرشامل سکیم کرلیا جاتا ہے اور اکثر کے کاغذات بھی بوگس ہونے کی شکایات بھی منظر عام پر آچکی ہیں۔

حکومت کو چاہئے کہ خدارا تذلیل انسانیت کو روکاجائے اور اس کا کوئی جامع اور بہتر حل نکال کر اس پروگرام پر عمل درآمد کرایاجائے تاکہ جس کے نام پر پروگرام شروع کیا گیا ہے وہ تو کم ازکم اپنی آخری آرام گاہ میں پرسکون رہ سکے۔ یہ نہ ہو کہ وہ عوام پاکستان کہ جس کیلئے انپی جان کا نذرانہ پیش کیا ان کی حالت زار اور اپنے پارٹی کرتا دھرتاوں کے چہرے کے نقاب اٹھتے دیکھ کر وہ بے نظیر بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے کہ
کیا اسی لئے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے
کہ بن جائے نشیمن توکوئی آگ لگادے

صدر پاکستان ، وزیر اعظم پاکستان اور متعلقہ ارباب اختیار کو اس بارے ضرور کوئی ٹھوس لائحہ عمل بنانا چاہئے کیونکہ ان کے اس عمل سے پیپلز پارٹی کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہورہا ہے کیونکہ وہاں موجود عوام بالخصوص خواتین جن الفاظ میں حکومت اور پارٹی کو یاد کرتی ہیں وہ یہاں احاطہ تحریر میں لانا اخلاقیات کے تقاضوں کے منافی ہوگا۔ سمجھ دار کیلئے اشارہ کافی ہے اور ایک بات کہ دفاتر پر تعینات عملے کو بھی انسانیت اور اخلاقیات کے کورس کی تربیت کی اشد ضرورت ہے اور اگر مناسب سائے پانی اور جگہ کاانتظام نہ ہوسکے تو پھراس عملے کو عوام کے ساتھ کھلی جگہ پر بٹھایا جائے تاکہ انہیں بھی معلوم ہوسکے کہ ذلالت تکلیف کس بلا کے نام ہیں۔
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 211780 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More