شکر الحمداللہ کہ تکالیف
اوراذیتوں سے بھر پورجمہوری دور ختم ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قوم کو مبارک ہو۔۔۔۔۔۔خوشی
اس بات کی بھی کہ ہمارے ملک میں جمہوری حکومت کی مدت پانچ سال ہوتی ہے اگر
یہ مدت سات یا پھر دس سال ہوتی تو ہم کیا کرتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔برداشت کے سوا۔۔۔؟ویسے
اس یادگار بی جمہوریت نے پسماندگان میں آصف زرداری، الطاف حسین اور
اسفندیارولی کو سوگوار اور کروڑوں نہیں تو شائد لاکھوں متاثرین کو ” غمزدہ
“چھوڑا ہے ۔۔۔۔۔بس ڈرہے کہ کہیں یہ تینوں بے چارے دل برداشتہ ہوکر کہیں
آمریت کوپیارے ناہوجائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویسے جمہوریت کے نعروں کے درمیان آمریت
کا جو مثالی مظاہرہ اس دور میں قوم کو دیکھنے کو ملا اس کی مثال ماضی میں
فوجی ڈکٹیٹر میں بھی نہیں ملتی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس دورسے کچھ لوگوں کو پرویز مشرف
کی آمریت کی یاد آگئی تھی بلکہ یوں کہا جائے کہ اس دور نے آمریت کی یاد
تازہ کردی تھی۔۔۔۔۔بے چارے پرویز بھائی ۔۔۔۔شریف تھے ۔۔۔۔شیریفوں کے ہوتے
ہوئے بھی۔۔۔۔۔۔۔؟ ان کی شرافت کی یہ مثال کم ہے کہ 2008 میںصدر کا عہدہ
خاموشی چھوڑا ، پھر ایوان صدر کو خیرباد کہہ کر شرافت سے ملک سے ہی چلے گئے۔
سنا ہے کہ امریکہ نے یقین دلادیا تھا کہ ملک سے باہر جانے پر ان کو کچھ
نہیں کہا جائے گا۔ باالکل اسی طرح جیسے ناراض ہوکر گھر سے جانے والے بچے کو
کہا جاتا ہے کہ ” واپس آجاﺅ تمھیں کچھ نہیں کہا جائے گا“ لیکن یہاں معاملہ
الٹا تھا کہ بھائی گھر سے چلے جاﺅ تمھیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔ اب
شنید ہے کہ وہ واپس آنے کے لیے ”پر تول رہے ہیں“۔ ویسے یہ بھی خبر آچکی ہے
کہ وہ اگر 24 مارچ تک وطن واپس نا آئے تو پھر نہیں آئیں گے ۔۔۔۔ ہمارا بھی
یہ ہی مشورہ ہے کہ مشرف صاحب نا آئیں تو ان کے اور قوم کے لیے بہتر ہوگا۔
۔۔۔۔ویسے تو مشرف صاحب کو پتا ہے کہ اب اپنے ملک میں باآسانی اگر کوئی چیز
ملتی ہے تو وہ ” شہادت “ ہے ۔۔۔۔۔ ۔۔ہوسکتا ہے کہ جذبہ شہادت انہیں وطن
واپسی پر مجبور کررہا ہو۔۔۔۔۔ ویسے بھی شہادت کے لیے اب کسی کافر اور مشرک
سے لڑنے کے لیے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیںہے ۔۔۔۔اب یہ سہولت اپنے ملک کے
بڑے شہروں میں دستیاب ہے۔۔۔۔۔۔۔۔جہاں روزانہ ہی کوئی نہ کوئی شہید ہوتا ہے
۔جسارت کے چیف ایڈیٹر اطہر ہاشمی صاحب کہتے ہیں کہ ” اللہ حکمرانوں اور اہم
سیاست دانوں کو بھی اس اعزاز سے نوازے تو قوم کی حوصلہ افزائی ہوگی اور
جذبہ شہادت بھی بڑھے گا“۔
چھوڑیں۔۔۔۔ ابھی تو بات کرتے ہیں بی جمہوری حکومت کی۔۔۔۔جو واقعی بہت ضدی
اور ڈھیٹ تھیں ۔۔۔۔۔ لوگ چیختے چلاتے رہے مگر مجال ہے کہ ان کے کان پر جوں
تک رینگے۔۔۔۔۔ بس ایک ہی ضد تھی کہ وقت پر ہی جاﺅنگی نا ایک دن پہلے نا ایک
دن بعد۔۔۔۔بہرحال شکر ہے کہ اپنی یہ بات بی جمہوریت نے پوری کی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔سنا ہے کہ کوشش تھی کہ کچھ دن اور گزارلیں ۔۔۔۔لیکن وردی میں موجود
شخصیت نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا۔۔۔۔۔۔۔مجھے جمہوریت سے کوئی شکایت
نہیں ہے لیکن مذکورہ بی جمہوریت سے شکایتیں رہی ہیں ۔۔۔۔کیونکہ دنیا میں
کہیں ایسی جمہوریت کبھی بھی نہیں آئی ہوگی جس کا جمہور سے کوئی تعلق نہیں
رہا ہو۔۔۔۔۔۔بہرحال پیپلزپارٹی کے لوگ کہتے ہیں کہ اس جمہوریت کو پانچ سال
تک چلانے کا اعزاز صدر آصف زرداری کو جاتا ہے۔۔۔۔۔پتا نہیں ۔۔۔ہم تو اس
بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔۔۔۔ہاں البتہ الطاف بھائی کا کہنا ہے کہ اگر وہ
ساتھ نہیں دیتے تو پانچ ماہ بھی یہ حکومت نہیں چل پاتی۔۔۔۔۔۔الطاف بھائی کی
یہ ہی بات تو سب کو پسند ہے کہ وہ بات سو فیصد ” سچ او ر حق “ کی کرتے
ہیں۔۔۔۔۔۔اب اگر لوگ اس حکومت سے بیزار تھے تو اس میں کسی کا کیا قصور؟
۔۔۔۔جمہوری حکومت کو کسی حال میں پٹڑی سے اتارنا بھی تو نہیں تھا۔۔۔۔۔چاہے
پٹڑیاں اکھڑنے لگے ۔۔۔۔ویسے پٹڑیوں پر ریلوے یاد آگئی۔۔۔اے این پی نے اس کے
ساتھ وہ ہی سلوک کیا جو پشاور کے ساتھ پانچ سال تک ہوتا رہا۔۔۔۔۔بم دھماکے
ہوتے رہے ، لوگ مرتے رہے مگر یہ ممکن نہیں تھا کہ اس حکومت پر کوئی آنچ آنے
دی جائے۔۔۔۔۔پختون لوگ تھے ۔۔۔۔زبان اور وعدے کے پکے ہوتے ہیں ۔
خیر جی ۔۔۔یہ پانچ سالہ حکومت تھی یا پانچ سالا حکومت۔۔۔۔؟ دیکھیں نا۔۔۔
آصف زرداری، الطاف حسین، اسفندیارولی ، مولانا فضل الرحمٰن اور چوہدری
شجاعت ۔۔۔یہ تو پانچ ہی ہوگئے۔۔۔۔شروع کے ایک آدھ سال کی تو ویسے گنتی نہیں
ہونی چاہیے ۔۔۔چلو پھر فضل الرحمٰن کو نکال دیتے ہیں۔۔۔۔۔حکومت کے آخری
”سالوں “کے بعد یہ نکل ہی گئے تھے ۔۔۔۔ ”چار سالوں“ کو چھوڑ کر ۔۔۔۔۔۔۔اب
اگر آپ کو محسوس ہی نہیں ہوا تو یہ ان کا قصور نہیں ہے۔۔۔۔
سچ تو یہ ہے کہ اگر ایسی حکومت دوبارہ ہماری نصیب میں ہوئی تو پھر ہم بہت
ساری اچھی باتوں کو اپنانے پر مجبور ہوجائیں گے۔۔۔۔۔پانچ سال پہلے ہمیں نا
وقت کا احساس تھا اور نا ہی بجلی اور گیس بچانے کا۔۔۔ہم سیونگ سے واقف تو
تھے مگروہ تھا سیونگ اکاﺅنٹ ۔۔۔۔اللہ کا کرنا ہوا کہ اب ہم وقت کی اہمیت
اور روپے پیسے کے علاوہ بھی دیگر چیزوں کی بچت کی طرف توجہ دینے
لگے۔۔۔۔۔پہلے بلاوجہ ہی ادھر ادھر چلے جایا کرتے تھے لیکن عوامی حکومت نے
مجبورکیا کہ خوامخواہ کیا بہت ضروری بھی ہو تو ضروری باتیں ذہن میں رکھ کر
،گاڑی میں سی این جی کی مقدار چیک کرکے ، موبائل فون کو چھپاکر ،جیب کو
خالی کرکے اور باہر کے حالات کے بارے میں مکمل آگہی کرکے گھر سے باہر نکلنا
چاہیے۔۔۔۔۔۔۔اس طرح قوم ساٹھ سال بعد گھر سے نکلنے کا صحیح طریقہ سیکھ
پائی۔۔۔۔۔۔۔ذرا سوچیں اگر لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی تو کیا ہم کو وقت کی اہمیت کا
احساس ہوتا،،،،نہیں نا۔۔۔۔۔۔اب ہر گھرسے کسی نہ کسی وقت آوازیں آتی ہیں کہ
جلدی کرو جو بھی کام کرنا ہے کیونکہ لائٹ جانے والی ہے ۔۔۔۔۔اب تو مہمان
بھی ” منہ اٹھاکر “ آنے کے بجائے سوچ سمجھ کر بلکہ پوچھ کر آتے ہیں کہ کہ ”
یار شام کو آپ کی طرف آنے کاارادہ ہے ، یہ بتاﺅ تمھارے پاس لائٹ کب جاتی
ہے؟“۔۔۔۔۔۔ہے نا اصول کی بات ،اور یہ اصول طور طریقے اس حکومت نے سیکھائے
ہیں۔۔۔۔۔۔۔ تو پھر شکریہ ادا کریں بےچاری پی پی پی اور اس کے اتحادیوں کی
حکومت کا۔۔۔۔اور تو اور بھائی ہم آپ تو یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ حکومت میں
رہ کر اپوزیشن کا کردار کیسے ادا کیا جاتا ہے ؟ یہ اسی دور کی کرامت تھی کہ
ہم یہ جان پائے کہ اقتدار میںرہکر حزب اختلاف کا جمہوری رول کیسے ادا کیا
جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ایک ٹکٹ میں دو مزے ۔۔۔۔۔ایک ہی دور میں سیاسی جماعت کے دو
روپ دیکھنے کا ایسا انوکھا موقع اس سے پہلے کبھی ملا تھا؟ نہیں
نا۔۔۔۔۔۔پہلے حکومت رہ کر حزب اختلاف کا کردار ادا کیاآخر میں اپوزیشن میں
جاکر حزب اقتدار کا ساتھ دے ڈالا ۔۔۔۔فکر نا کریں آئندہ بھی ایسا کچھ
دیکھنے کو مل سکتا ہے۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ارے بھائی آپ تو یہ بھی بھول گئے کہ
سندھ میں تو پیپلز پارٹی نے حکومت میں رہتے ہوئے احتجاج کیا تھا ۔۔۔۔۔عدالت
کے فیصلوں کے خلاف۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ویسے ہم الطاف بھائی کو سلام کرتے ہیں کہ
انہوں نے کبھی بھی پوری قوم کو یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ حکومت کے
اتحادی ہیں اور زرداری صاحب اور ان کے جیالوں کو بھی حزب اختلاف کی کمی کا
احساس نہیں ہونے دیا۔۔۔۔۔۔ویسے تو اس معاملے میںشریف برادران کا بھی بڑا
فرینڈلی رویہ رہا۔۔۔۔ایسے دوستانہ تعلقات ۔۔۔واقعی مثال ملنا مشکل ہے
۔۔۔۔۔شائد اس میں آصف زرداری کی عادتوں کا بڑا دخل رہا ۔۔۔۔ان کو دوست
بنانے کی پرانی عادت ہے ۔۔۔۔۔دوستی صرف ایسی نہیں کرتے کہ جو برسوں قائم
رہے بلکہ ایسے لوگوں سے بھی کرلیتے ہیں جن کو چیخ چیخ کر قاتل کہا کرتے تھے
۔ایسا بااخلاق اور درگزر کرنے والا صدر یا رہنما کیا اس سے قبل قوم کو نصیب
ہو ا تھا؟؟؟
مجھے لگتا ہے کہ ہم بی جمہوری حکومت کو سمجھ نہیں پائے۔۔۔۔۔۔ہم تو ایسے
بیوقوف ہیں کہ اپنے رحمٰن ملک کو بھی نہیں پہچان پائے کہ وہ کیا چیز ہیں ؟
وزیر داخلہ تھے یا وزیر اطلاعات ؟ ۔۔۔۔۔ اگر غور کیا جائے تو اس حکومت نے
ملک اور قوم کے ساتھ ایسا کچھ کیا کہ ہم برسوں یاد رکھیں گے ۔اور شکر ادا
کرتے رہیںگے کہ ہم زندہ تو ہیں، زندگی ہے تو روزگار ، رہائش اور روٹی بھی
مل ہی جائے گی۔۔۔۔۔۔کہا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے ملک اور قوم کے لیے بڑی
قربانیاں دیں۔۔۔۔۔۔پہلے ذوالفقار علی بھٹو، پھر ان کے بیٹے شاہنواز اور
مرتضیٰ ، اور پھربی بی یعنی بے نظیر بھٹو کی قربانیاں۔۔۔۔۔۔ نیک لوگ تھے
شہید ہوگئے ۔۔۔۔توقع ہے کہ زرداری صاحب بھی قربانی کا یہ سلسلہ جاری رکھیں
گے۔۔۔۔۔۔ویسے بھی چند ماہ بعد صدر کی ذمہ داریوں سے فارغ بھی تو ہونا ہے۔ |