آپ ووٹ کس کو دیں؟

انتخابات کے دن جوں جوں قریب آرہے ہیں تمام جماعتوں کی سرگرمیاں تیز سے تیز تر ہوتی جارہی ہیں ۔ اپنی خامیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے عوام کے سامنے خوبیاں اجاگر کی جارہی ہیں، عوام بھی گو مگو کی حالت میں ہیں کہ ووٹ دیں، تو آخر کس کو؟۔

ہمارے پڑوس میں ایک صاحب ملک کی بڑی دینی وسیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب بھی ملاقات ہوتی ہے بات کی تان لاکر اپنی جماعت پر توڑدیتے ہیں۔ آج فرصت بھی تھی اور موقع بھی، ان سے کھل کر گفتگو ہوئی۔انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ ان کاموقف ضرور عوام تک پہنچایاجائے۔اپنامدعیٰ سناتے ہوئے لب واکیے’’ملک عزیزکوآزاد ہوئے نصف صدی سے زائدکاعرصہ بیت چکاہے، ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے بجائے تنزلی کی طرف رواں دواں ہے۔ قتل وغارت گری، ڈکیتی، بم دھماکے، بے روزگاری،سیاست دانوں کے کرپشن، استعماری طاقتوں کی ریشہ دوانیاں اور مذہب ولسانیت کے نام پر قتل عام ا س ملک کی پہچان بن چکا ہے۔اس کی کیا وجہ ہے؟کیا یہی نہیں کہ یہ ملک جس دین کے نام پر حاصل کیاگیاتھا، ہم روز اول سے دانستہ یا غیر دانستہ اپنے ہر کام میں اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ نیک پارسا، ایماندار اور مخلص انسان کو دہشت گرد باور کرکے اس کی زندگی اجیرن کردیتے ہیں‘‘۔

عارفی صاحب نے کچھ توقف کے بعد اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا’’پاکستان کی اکثریت ملک میں اسلامی نظام کی خواہاں ہے، عجیب بات ہے ووٹ سیکولر اور لادینی جماعت کی جھولی میں ڈال دیتی ہے۔ جب آپ کوان جماعتوں کامنشور معلوم ہے، ان کے کرتوت سے واقف ہیں، محض ان کے کھوکھلے نعروں سے کیوں متاثر ہوتے ہیں۔آپ نے چیاسٹھ سال ملک کی باگ ڈور آزاد خیال لوگوں کے ہاتھ میں تھمائی ، بعض جماعتوں کو دودو، تین تین مرتبہ منتخب کیاجنہوں نے ملک لوٹنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی ،اس بار بھی ان جماعتوں کو اپنے ووٹ کا حق دار سمجھنے سے بڑی حماقت کوئی نہیں ہوگی۔‘‘

انہوں نے متوجہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا’’عابدی صاحب!اس میں کسی دلیل کی چنداں ضرورت نہیں کہ جمعیت علماء اسلام دینی ونظریاتی سیاست کے میدان میں سب سے بڑی جماعت ہے، تمام چھوٹی بڑی دینی جماعتوں کے لیے ماں کا درجہ رکھتی ہے،پارلیمنٹ میں اس کا وجود دینی محافظ کا ہواکرتا ہے ،جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانافضل الرحمن کی اہلیت کااعتراف اپنوں وبے گانوں، دینی وسیاسی رہنماؤں اور سینئر تجزیہ کاروں سب نے کیاہے۔اس موقع پر نذیر ناجی کاتازہ کالم پیش خدمت کیاجاسکتاہے۔ وہ رقم طراز ہیں’’۔۔۔رسمی گفتگو کے بعد میزبان نے حاضرین کے سامنے سوال رکھاکہ’’مولاناوزیراعظم کیوں نہیں بن سکتے؟‘‘جب یہ سوال مولاناکی طرف سرکایاگیاتو،وہ کچھ زیادہ ہی بھرے ہوئے نظر آئے، اور پھر تاریخ، جغرافیہ، حساب ،معاشیات، طبعیات ،عمرانیات،الجبرا، منطق،فلسفہ،غرض جتنے بھی علوم کی مدد لے سکتے تھے، ان سب سے استفادہ کرتے ہوئے، انہوں نے دلائل کے انبار لگادیے، علم کے ہر ذخیرے کی چھان بین سے وہ دلائل کے جوموتی ڈھونڈ کے لاتے، ان کی چکاچوند سب کو خیرہ کردیتی، علم ومنطق کی پے درپے یلغاروں کے سامنے صحافی حضرات لاجواب ہوگئے اور سب کو قائل ہونا پڑاکہ ’’مولانا یقیناً وزیر اعظم بن سکتے ہیں‘‘۔ سیاسی سوجھ بوجھ میں اس وقت ہمارے درمیان ان کی ٹکر کاکوئی لیڈر موجود نہیں۔ معاملات کو سمجھنے ، ان کا تجزیہ کرنے اور ٹھنڈے دل ودماغ سے فیصلہ کرنے کی جو صلاحیت مولانا میں ہے وہ کسی دوسرے میں نہیں۔صرف ان کی وضع قطع اور لباس کو دیکھ کر یہ فیصلہ نہیں کیا جاسکتاکہ مولانا وزیر اعظم نہیں بن سکتے ۔ ایسے ماحول میں جب ہر ایک اپنااپنا وزیر اعظم لے کرسیات کے بازار مصر میں نکلاہواہے، میں نہایت عاجزی اور ادب کے ساتھ اپنا وزیر اعظم پیش کرنے کی جسارت کررہاہوں اور میرے وزیر اعظم ہیں مولانافضل الرحمن۔‘‘

نذیر ناجی کا کالم پیش کرنے کے بعد عارفی صاحب نے انتہائی دردمندانہ انداز میں کہا’’دینی ماحول سے نتھی اکثریت ووٹ دینے کوکار عبث گردانتی ہے ۔ مولانا ابولکلام آزادؒکے مطابق مخلص رہنما کوووٹ دیناامربالمعروف ونہی عن المنکر کے مترادف ہے۔اگر تبلیغی جماعت کاہرہر بھائی، دینی مدارس کاہرہر کارکن اور دین وپاکستان سے محبت رکھنے والا ہرہر شخص انتخابات میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرے تومخلص قیادت کاآناچنداں مشکل نہیں۔مان لیاکہ مولانا فضل الرحمن آسمان سے اترے ہوئے فرشتے نہیں لیکن زمین پر بسنے والے سیاست دانوں میں ان کا مقام کسی سے کم بھی نہیں۔ اگر ہم نے اس مرتبہ بھی موقع ضائع کردیا اور اپنے انتخاب میں غلطی یاسستی کام لیاتوپاکستان کاترقی کی راہ پر گامزن ہونا ناممکن نہیں تو مشکل ضرورہوگا‘‘۔
Ibnul Hussain Abidi
About the Author: Ibnul Hussain Abidi Read More Articles by Ibnul Hussain Abidi: 60 Articles with 58468 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.