کہتے ہیں کہ جمہوریت میں کبھی
کبھی کچھ فیصلے اتنے غلط ہوتے ہیں کہ ان کی اپنے وغیر سب ہی مذمت کرتے ہیں
۔ایک ایسا ہی نظارااس وقت دیکھنے میں آیا جب بکر انعام یافتہ معروف مصنفہ
اروندھتی رائے نے اپنی تازہ ترین تصنیف ’’دی ہینگنگ آف افضل گرو‘‘میں ان کی
دردناک پھانسی پر شدید اعتراض کیا تھا۔انھوں نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ پر
حملہ جمہوریت پر حملہ ہے تو پھر کنلے قتل عام ‘1984میں سکھوں کا قتل عام
۔1992میں بابری مسجد کی شہادت ۔1993میں شیوسینا کی قیادت میں ممبئی میں
مسلمانوں کا قتل عام اور2002میں گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام جموریت کا
قتل نہیں ہے ‘کیا ان ’’قاتلوں‘‘ کو بھی پھانسی دی جا ئے گی؟پھانسی کی بات
تو الگ انھیں ابھی تک گر فتار بھی نہیں کیا گیا۔
دوسرا نظارااس وقت دیکھنے کو ملا جب پاکستانی پارلیمنٹ نے اس معاملے
پرہندوستانی پارلیمنٹ میں ایک قرار داد پیش کی جسے ایک صحیح قدم اٹھاتے ہو
ئے مسترد کردیا گیا۔قارئین کو یاد ہوگا کہ اسی موقع پر اسپیکر صاحبہ نے دو
باتیں کہی تھیں ۔اول یہ کہ پاکستان کو ہمارے معاملات میں دخل دینے کا کو ئی
حق نہیں ہے ۔دوم یہ کہ کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے ۔جہاں تک ان کی پہلی
بات کا تعلق ہے تو اس سے میں حر ف بحرف متفق ہوں‘ کیونکہ ہمارے ضابطے الگ
ہیں اور پاکستان کے الگ ۔ہمارے قوانین دوسرے ہیں اوراس کے دوسرے ۔ہماری
تعزیرات جدا ہیں اور اس کی علاحدہ۔مگر جہاں تک محترمہ کی دوسری بات کا تعلق
ہے تو اس ے میں ذرہ برابر بھی اتفاق نہیں رکھتا ۔ ان کی باتوں سے سیکولر زم
یا قومی سلامتی ذہنیت کے بجائے‘ فرقہ پرستی اورفسطائیت کی بو آتی ہے۔حقیقت
تو یہ ہے کہ’’ نہ صرف کشمیر ہمار ا ہے بلکہ اس سے پہلے کشمیری ہمارے ہیں‘‘
جن کے دم سے کشمیر آباد ہے اور اس کی رونقیں بر قرار ہیں ۔
ابتدا ئے آفرینش سے یہ امر مسلّم ہے کہ انسانوں کے دم سے ہی زمین آباد ہے
اور کاینات کی رعنائیاں باقی ہیں ۔جہاں سے انسانوں کو نکال دیا جاتا ہے وہ
علاقے مہیب ‘خطرناک اورجنوں بھوتو ں کے ٹھکانے بن جاتے ہیں‘آدم زادکی موت
اور تباہی کے مقامات بن جاتے ہیں اور زمین کی زیبایش میں داغ لگ جاگتا ہے ۔اس
مسلّمہ حقیقت کے بعد ذرا تصور کیجیے کسی ایسے کشمیر کا‘ جس میں ایک بھی
باشندہ نہ ہو ‘کیسے لگے گا ؟کسی اجڑے ہو ئے چمن کی طرح ‘جہاں سے بہار یں
روٹھ کر چلی گئی ہوں ۔‘ کسی بے رنگ منظر کی طرح جس میں رنگ آمیزی سے پہلے
مصور کے ہاتھ قلم کر دیے گئے ہوں۔کسی اداس تصویر کی طرح جس پر دھول مٹی کی
تہیں جمی ہو ئی ہوں۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ میراکمار کا یہ انسانیت کش ریمارک سن کرتمام ممبران
پارلیمنٹ ‘سیکولر زم کی دعوے داری کر نے والے رہنما اور مسلمانوں کے حقوق
کی باتیں کر نے والے سیاست داں چپ کیوں رہے ؟کیوں کسی نے کسی طرح کا اعتراض
نہیں کیا؟ کیوں کسی کی رگ غیرت و حمیت نہیں پھڑکی؟کیوں کسی نے نہیں کہا کہ
یہ ملک کے باشندوں کو تقسیم کر نے والافارمولہ بار بار کیوں دہرایا جاتا ہے
؟کشمیر کو کشمیریوں سمیت کیوں قبول نہیں کیا جاتا ؟حکمراں جماعت کیا پھر
کشمیر میں آگ لگانا چاہتی ہے ؟کیا پھر وہاں کی رعنا ئی و زیبائی کی چادر کو
تارتار کر نے کا عزم بنا ئے ہو ئے ؟افسوس کسی کو ذرابھی خیال نہیں آیا کہ
کشمیراور کشمیریوں کے بنا ہندوستان ناتمام و نامکمل ہے ۔کسی کو بھی خیال
نہیں آیا کہ کشمیر میں بھی باقی ہندوستان کی طرح انسان ہی آباد ہیں ‘جن کے
سینوں میں دل دھڑکتے ہیں ‘ان کے معصوم و بے گناہ بچے ہوتے ہیں جن کا
مسکرانے اورکھلکھلانے کو دل کر تا ہے ۔وہاں بھی پورے ملک کی مانند مائیں
‘بہنیں‘بھا ئی اور باپ بیٹے رہتے ہیں ‘ان کے بھی مسائل اور مطالبات ہیں
‘ایک ملک کے شہری ہونے کے ناطے ان کے بھی حقوق ہیں۔ان کی تمنائیں ہیں ۔وہ
پورے ملک کو اپنا درد سنانا چاہتے ہیں ۔ملک سے ہمدردی کا جذبہ رکھتے ہیں
۔مگرولاًتوسیاسی جماعتیں انھیں اس ملک کا شہری ہی تصور نہیں کرتی ۔جب وہ
حقوق کا مطالبا کر تے ہیں تو انھیں گولیوں سے جواب دیا جاتا ہے۔مائیں بہنیں
اپنا درد سنانا چاہتی ہیں تو انھیں ناقابل تصور حالات کا سامنا کر نا پڑتا
ہے۔جب کبھی وہ اپنے حقوق کے لیے پر امن مظاہرے کرتے ہیں تو پولیس کی سازش
سے اسے تشدد میں تبدیل کر دیا جاتا ہے اور پھر بے قصوروں کی گر فتا ر یا ں
‘ مساجدوعبادت گاہوں کی مسماری اورعلاقوں میں گھس کرتباہی بر پا کر دی جاتی
ہے ۔
میں تسلیم کر تا ہوں کہ کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے جس کے بنا جمہوریہ
ٔہند ناتمام ہے مگر اس کے ساتھ ہی ہمارے حکمرانوں کو یہ بھی اعتراف کر نا
پڑے گا کہ زمینیں کبھی کسی کی نہیں ہوتی ‘زمینوں سے کبھی پھل پیدا نہیں
ہوتے۔زمینیں کبھی سونا نہیں اگلا کر تیں بلکہ ان میں پھل پھول اگانے ‘سونا
پیدا کر نے اورانھیں کارآمد بنا نے کے کارنامے انسا ن ہی کر تے ہیں ۔ان کے
بنا زمین بنجر تو کہی جاسکتی ہے ‘اسے آباد کسی طرح نہیں کہا جاسکتا ۔اس لیے
ہندوستانی حکمرانوں کو وقت رہتے اپنے افکار میں تبدیلی لانی ہوگی کہیں ایسا
نہ ہوجائے کہ ان کا فارمولہ خود انھیں بر باد کر دے۔
کشمیرمیں منظم طور پر ظلم زیادتی کرکے باقی ہندوستان کویہ تاثر دیا جاتا ہے
کہ کشمیر کے باشندوں کو ان کے مسایل سے کو ئی لینا دینانہیں ہے ۔حالانکہ
حقیقت یہ ہے کہ ملک کے کسی بھی دوردراز علاقے میں کو ئی نقص امن کی کوشش ہو
‘فرقہ وارانہ فساد ہو ‘کیرلا‘تمل ناڈو ‘ بنگال‘راجستھان‘مدھیہ پر دیش وغیرہ
میں کو ئی مجرمانہ کارروا ئی باقی ہندوستانیوں کی طرح کشمیری مسلمانوں کے
دل بھی خون کے آنسو ں روتے ہیں ۔ وہ بھی برائیوں کی مذمت کر تے ہیں
اورانھیں غیرانسانی حرکات سمجھ کر پر امن حالات کے لیے دعائیں کر تے ہیں
مگر کسی کو ان کے درد ‘ان کی آواز‘ان کی تڑپ اوران کے احساس کی اطلاع ہی
نہیں ہونے دی جاتی ‘ہندوستانی اطلاعات و نشریات کی وزارت نے خطہ کشمیر کے
چینلوں اور ریڈیو اسٹیشنوں پر پابندیاں عایدکر رکھی ہیں ‘ان کے فون تک ٹیپ
کر نے کے احکامات نافذ کر رکھے ہیں ۔اب وہی دِکھتا ہے جو مرکزی حکومت
دکھاتی ہے اوراس کا بدنام زمانہ میڈیا اچھائیوں کے بجائے بے بنیاد برائیوں
کی بین الاقوامی سطح پرتشہیر کر تا رہتا ہے اوربے خبر لوگوں کے ذہنوں میں
زہر گھولتا رہتا ہے۔اس پر مزید فرقہ پرست جماعتیں نمک مرچ لگا کر ماحول کو
جہنم زار بنا دیتی ہیں۔ایسے حالات میں اندازہ لگائیے اس ملک کا کیا ہونے
جارہا ہے اورزمین پر بسنے والے انسانوں کے خلاف کیا کیا منصوبے بن رہے ہیں۔ |