الزامات نہیں مثبت سیاست کی ضرورت

اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں اور باقاعدہ انتخابی مہم بھی سے شروع ہو چکی ہے لیکن سیاسی جماعتیں اپنی توانائیاں اپنی خوبیوں سے زیادہ دوسروں کی خامیوں کو اجاگر کرنے میں صرف کر رہی ہیں اور سیاسی رہنماؤں کی جانب سے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں تیزی نظر آ رہی ہے جس کے لئے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر اشتہار بازی شروع ہو چکی ہے پاکستان کی بڑی جماعتوں کو مختلف قسم کے الزامات کا سامنا ہے پیپلز پارٹی پر بد عنوانی کا دھبہ لگا ہے تو مسلم لیگ ن کو شدت پسندوں سے روابط کے الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے الزام تراشی پاکستانی سیاست کی روایت رہی ہے اور ہمیشہ ہی سیاسی جماعتوں نے حریف جماعتوں کے بارے میں منفی پراپیگنڈے کو اپنی انتخابی مہم کا اہم حصہ سمجھا ہے کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ ایسا کرنے سے شاید وہ عوام کے دل میں اپنے مخالفین کے لئے نفرت پیدا کر سکیں گی جس کی وجہ سے ان کا ووٹ ان کے پاس آ جائے گا جو کہ ایک غلط فہمی ہے مختلف نجی ٹی وی چینلز پر چلنے والے تجزیاتی پروگراموں میں سیاسی رہنما یہ ثابت کرنے کی سر توڑ کوشش کر تے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے کرپشن کے سواء کچھ نہیں کیااور اسی طرح ن لیگ کے بارے میں یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ وہ شدت پسندی کے خلاف نہیں ہیں اور بلواسطہ ان کے شدت پسندوں سے تعلقات ہیں جبکہ ان کی کچھ مثبت باتیں بھی ہوں گی جو کوئی بھی پارٹی بیان کرتی نظر نہیں آتی پاکستان میں انتخابی مہم شروع ہوتے ہی اس منفی مہم میں مزید تیزی آ گئی ہے انتخابات میں ایک دوسرے پر الزامات کا اثر ووٹروں پر کتنا پڑتا ہے اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر ایک بات طے ہے کہ جن لوگوں نے اچھے کام کیے ہیں عوام کی نظرمیں وہ صرف عوامی فلاحی منصوبے ہیں تو ان کا کریڈٹ ضرور ملے گا اس کے لئے چاہے مسلم لیگ (ن) ہو چاہے پاکستان پیپلز پارٹی ہواور جتنا بھی منفی پراپیگنڈا ہو جائے حقیقی پارٹی کارکن آنے والے انتخابات میں وہ اپنی پارٹی ہی کو ووٹ دیں گے اس وقت پاکستانی عوام کو بہت سے مسائل در پیش ہیں جن میں بد امنی اور شدت پسندی، لوڈ شیڈنگ، مہنگائی اور غربت نمایاں ہیں لیکن سیاسی جماعتیں ان ایشوز کو بھی منفی پراپیگنڈے کے طور پر استعمال کرتیں ہیں اور یہ حربہ اصل مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کی ایک کوشش ہوتا ہے جس سے لوگ مخمصے کا شکار ہو جاتے ہیں انتخابی مہم کے باقاعدہ اعلان سے پہلے ہی سیاسی رہنما اپنے اپنے علاقوں میں جلسے اور جلوسوں کا آغاز کر چکے ہیں اور کارنر میٹنگز اور جلسے جلوسوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے ایک بات جو بہت اہم ہے کہ آج کل جلسے جلوسوں میں جس طرح کی زبان استعمال کی جا رہی ہے اس نے انیس سو اسی کی دہائی کی سیاست کی یاد تازہ کر دی ہے جیسے جیسے انتخابات مزید قریب آئیں گے سیاست دان ایک دوسرے پر الزامات کی بھر مار کریں گے ذاتیات کو ملوث کیا جائے گا اور کیچڑ اچھالا جائے گاسیاست دان ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے کی کوششیں کریں گے جن کا کسی کو کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ اب لوگ منفی ، الزامات کی سیاست سے زیادہ یہ چاہتے ہیں کہ ایشوز کی سیاست کی جائے اور ان کے مسائل پر نا صرف بات کی جائے بلکہ انہیں بتایا جائے کہ ان مسائل کو ختم کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کے پاس کونسا جامع لائحہ عمل ہے اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ وطن عزیز سے منفی سیاست کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا جائے اور ایک ایسا عوام دوست سیاسی ماحول فراہم کیا جائے جس میں سیاسی لوگ ایک دوسرے کے خلاف الزامات کے بجائے مثبت سیاست کو فروغ دیں اور صرف ایشوز کی سیاست کی جائے نہ کہ ایک دوسرے کی عزت کو اچھالا جائے اس کے لئے ضروری ہے الیکشن کمیشن اپنا کردار ادا کرتے ہوئے انتخابی مہم کے لئے ضابطہ اخلاق جاری کرئے جس میں صرف ایشوز کی سیاست پر بات کرنے کی اجازت دی جائے اور جو کوئی بھی مخالف امیدوار کے خلاف الزامات کی سیاست کرئے اس کے خلاف الیکشن کمیشن کاروائی کرئے تاکہ انتخابی امیدواروں کو مثبت سیاست کی طرف راغب لایا جا سکے میڈیا اس حوالے سے اپنا بھر پور کردار ادا کر رہا ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں شعور کی ایسی روح پھونکی جا چکی ہے کہ وہ الزمات کی سیاست کو بخوبی جان چکے ہیں اس حوالے سے نوجوان طبقہ جو کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہے اپنے خیالات کا اظہار سوشل میڈیا پر کھل کر کرتا نظر آتا ہے جس کی وجہ سے امید ہو چلی ہے کہ اب کی بار الیکشن میں الزمات کی سیاست پر ووٹ نہیں پڑیں گے بلکہ ان لوگوں کو ووٹ پڑیں گے جو پاکستان کی حقیقی طور خدمت کرنا چاہتے ہیں جو پاکستان سے میں بد امنی اور شدت پسندی، لوڈ شیڈنگ، مہنگائی اور غربت جیسے خوفناک مسائل کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنا چاہتے ہیں جن کے پاس صرف نعرے نہیں ہیں بلکہ حقیقی ایجنڈا اور منشور ہے اس کے لئے عوام کو بھی باخبر رہناہو گا اور ان الزمات کی سیاست کرنے والوں کی چنگل میں آئے بغیر ان لوگوں کو اپنا ووٹ دینا ہو گا جو پاکستان کو بد امنی اور شدت پسندی، لوڈ شیڈنگ، مہنگائی اور غربت جیسے مسائل سے حقیقی طور پر نکال سکیں اور ایسے لوگوں کو منتخب کرنا ہو گا جو خود نہیں بولتے بلکہ ان کے دیے گئے عوامی فلاحی منصوبے اور ان کے مکمل کروائے گئے عوامی فلاحی کام بولتے ہیں اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ الزامات کی سیاست نہیں بلکہ مثبت سیاست کی جائے تاکہ ایک منظم اور مضبوط معاشرہ تشکیل دیا جا سکے جہاں تمام افراد کو یکساں ترقی کے مواقع میسر آ سکیں اور وہ معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کر سکیں-
 
rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 207906 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More