ہم سب کو ماضی ، حال اور مستقبل
میں آنے والی سیاسی قیادت پر تنقید کرنے کی عادت پڑ گئی ہے۔ ہر روز ہم
سیاسی شخصیات کومیڈیا کے مختلف ذرائع کی وساطت سے ایک دوسرے پر کیچڑ
اُچھالتے دیکھتے ہیں ۔ ملک کا ہر شہری فکر مند ہے کہ وہ اپنا حقِ رائے دہی
استعمال کرتے ہوئے کس کو ووٹ دے۔یہی وجہ ہے کہ جب لوگ تذبذب اور مایوسی کا
شکار ہونے لگیں تو وہ ووٹ ڈالنے ہی نہیں جاتے ۔ اس کیفیت سے لوگوں کو ہمارے
سیاسی قیادین ہی نکال سکتے ہیں ۔
ذراسی ہمت کرکے اگر وہ اپنی ذات کے بارے میں اپنے اردگرد لوگوں کے بارے میں
اور جس ماحول سے ہمارا معاشرہ اور ملک گزر رہا ہے آگاہی حاصل کریں اور
جائزہ لے لیں تو جو شعور اُنہیں حاصل ہوگا وہ اُنہیں اپنے نقطہ نظر کو واضح
کرنے میں معاون ہوگا ۔ اپنی ذات کے بارے میں آگاہی سے اُنہیں بخوبی اندازہ
ہوجائے گا کہ ان میں کیا صلاحیتں ہیں اور وہ کس حد تک ایسے وعدے کرسکتے ہیں
جن کو دُورکرنے سے وہ ایک اچھے لیڈر بن سکتے ہیں ۔ ایسا کرنے کا یہ فائدہ
بھی ہوگا کہ ان کے اردگرد جولوگ ان کی بڑھ چڑھ کر تعریفیں کرتے ہیں اور اصل
حالات بتانے کے بجائے تصوراتی محل تعمیر کرتے ہیں ۔ جن کے نتیجے میں ان
لیڈروں کو اکثر حقیقی زندگی میں مسائل دیکھنے پڑتے ہیں ۔ کم ازکم اس سے تو
پردہ اُٹھے گا اور وہ خود اپنی ذات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہ ہو
سکیں گے۔ لوگوں کے بارے میں جاننا، ان کے مسائل سے آگاہی اور ان کو اپنا
نیت کا احساس دلانے ہی سے ان کا اعتماد جیتا جاسکتا ہے ۔
دوسرے لوگوں کی معلومات کی بنا پر لوگوں کے قریب نہیں ہوا جا سکتا ۔ لوگ جب
تک خود اپنے لیڈر کو اپنے ہر دُکھ سُکھ میں ساتھ نہ دیکھیں وہ اس پر اعتماد
نہیں کرتے ۔ لیڈر کو ہر معاملے میں اپنے لوگوں کی رائے لینی چاہئے اور ان
کی تجاویز اور دلائل کو ماننا چاہئے ۔لیڈر کا مقصد صرف ووٹ لینا نہیں ہوتا
بلکہ ہارا ہوا لیڈر اگر اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑا رہتا ہے تو وہ بڑا لیڈر ہے۔
اسی طرح سے اپنے ماحول کو سمجھنا بھی قیادت کے لئے ضروری ہے۔ ملکی سطح پر
کون سے ایسے حالات و واقعات ہیں جن کا پوری قوم پر اثر ہوسکتا ہے ۔ ان کے
مثبت و منفی پہلو کیا ہیں اور قیادت کا اس پر کیا نقطہ نظر ہے پھر کس طرح
سے لوگوں کو ذہنی طور پر حالات کو قبول کرنے اور مقابلہ کرنے کے لئے تیار
کرنا ہے۔ خود عملی طور پر اپنے آپ کو کیسے پیش کرنا ہے ۔ اسی طرح بین
الاقوامی سطح پر بھی حالات کو سمجھنا ضروری ہے کہ ہمیں اپنے ملک کی سلامتی
، عزت ووقار اور ترقی کیلئے کن ممالک کے ساتھ کس طرح کے باہمی رابطے رکھنے
ہیں تاکہ ہم مشکلات پر قابو پاسکیں۔ اس کیلئے قیادت کے پاس تجربہ کار ، بے
لوث اور فرض شناس لوگوں کی ٹیم ہونی چاہئے جو بے خوف و خطر اُنہیں اچھی اور
صحیح رائے دے سکیں ۔
آگاہی اور شعور کے بعد عمل کا وقت آتا ہے ۔ عمل اچھا اور نتائج دوررس ہوں
یہ سب کی خواہش ہوتی ہے ۔ اس عمل کیلئے ذہن کو کشمکش سے آزاد کر کے ایک سمت
متعین کرنا ضروری ہے تاکہ اس پر آگے بڑھا جائے۔ اگر دل میں بار بار یہ خیال
آئے کہ میں ایسے کر لوں تو زیادہ بہتر ہے یا کسی اور طریقے سے اس کام کو
کرؤں ۔ اس طرح سے بداعتمادی پیدا ہوتی ہے اور کام بھی اُدھورا رہ جاتا ہے ۔
فیصلے مثبت ہوں اور اُن میں گنجائش رکھی جائے کہ قومی مفاد میں اُن میں
تبدیلی ممکن ہو۔ سیاسی قیادت کو اپنی حیثیت اور طاقت کا اندازہ ہونا چاہئے
اور پھر یہ منصوبہ بندی کرنی چاہئے کہ اب آگے بڑھنے کے لئے کن کن مراحل سے
گزرنا پڑے گا اور مقصد کیا حاصل کرنا ہے ۔ ان تمام باتوں پر غور کرنے کے
بعد ہماری سیاسی قیادت کیلئے نتائج کا اندازہ لگانا اور حاصل کرنا مشکل
نہیں ۔
اگر ذرا سابھی ان تمام باتوں پر غور کرلیا جائے تو یہ ممکن ہے کہ ہمارے
لیڈر جب بحث و مباحثہ کریں گے تو ان کے پاس اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کیلئے
دلائل ہوں گے، معلومات کاا یک خزانہ ہوگا اور عمل کرنے کے بیشمار طریقے ہوں
گے۔ وہ اپنی بات کو سمجھا بھی سکیں گے اور لوگوں کے دلوں میں اپنے لئے عزت
اور محبت کے جذبات بھی پیدا کرسکیں گے۔ آج ہمیں اسی قومی احساس اور اتحاد
کی ضرورت ہے تاکہ ہم سب ایک ہوکر اپنے ملک کی مشکلات پر قابو پاسکیں ۔ آج
قوم کو یقین دلائیں اور کل اُن کے اعتماد پر پورا اُتریں یہی سیاسی قیادت
کا اول و آخر اُصول ہے۔ |