23مارچ : یوم قرار داد پاکستان :تاریخ ساز دن

آج 23مارچ ہے یہ ہمارا قومی دن ہے آج سے ٹھیک 73سال قبل مسلمانانِ برصیغر جنوبی ایشیا ءنے اپنی واحدنمائندہ قومی جماعت ”آل انڈیا مسلم لیگ “کے پلیٹ فارم سے لاہور کے تاریخی اجلاس میں اپنے عظیم محسن اور محبوب ترین رہنما حضرت قائد اعظم محمد علی جناح ؒکی قیادت میں ایک تاریخی قرارداد منظور کرکے اپنی منزل کا تعین کیا تھا ۔اس قرار داد دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ہندوستان کو تقسیم کرنے اور اس کے شمال مغرب اور شمال مشرق میں مسلمان اکثریت پر مشتمل علاقوں میں آزادخود مختار ریاستیں قائم کرنے کا مطالبہ کیا تھا اگرچہ قرار داد لاہور میں لفظ پاکستان کا استعمال نہیں کیا گیا تھا مگر پھر بھی اس قرار داد کو قرار داد پاکستان کے مقدس نام سے شہرت نصیب ہوئی کیونکہ آل انڈیا مسلم لیگ کے 29دسمبر 1930ءکے سالانہ اجلاس منعقدہ آلہ آباد میں علامہ اقبال ؒ نے اپنے صدارتی خطبہ میں ہندوستان کو دوقومی نظریہ کی بنیاد پر تقسیم کرکے ہندوستان کے شمال مغرب میں پنجاب ،سرحد ،سندھ اور بلوچستان کو یکجا کرکے جس متحدہ ریاست کے قیام کا تصور اور مطالبہ پیش کیا تھا اس میں کشمیر کا اضافہ کرکے چوہدری رحمت علی نے 1933ءمیں اپنے پمفلٹ ”NOW OR NEWER“میں اس کیلئے پاکستان کا مقدس نام تجویز کیا تھا اس نام میں اتنی کشش تھی کہ قرار داد لاہور کی منظوری سے قبل ہی اسے شہرت عام نصیب ہوگئی تھی یہی وجہ ہے کہ دوستوں اور دشمنوں دونوں نے ہی قرار داد لاہور کو قرار داد پاکستان کا نام دے کر اپنے اپنے نظریہ کے مطابق اس کی حمایت اور مخالفت میں سردھڑ کی بازی لگا دی اس قرار داد کی منظوری کے صر ف سات سال ،دو ماہ اور گیارہ دن بعد 3جون 1947ءکے تقسیم ہند کے منصوبہ کا اعلان کرکے قیام پاکستان کے مطالبہ کو تسلیم کرلیا گیااور 14اگست 1947ءکو دنیا کے نقشہ پرسب سے بڑی اسلامی نظریاتی ریاست معرض وجود میں آگئی ۔قرارداد پاکستان کی منظوری کے ٹھیک سولہ سال اور قیام پاکستان کے آٹھ سال ،سات ماہ اور دس دن بعد 23مارچ 1956ءکو پاکستان کے پہلے دستور کے نفاز کے ساتھ ہی ملک واسلامی جمہوریہ قرار دیا گیا ۔آج مسرت وانبساط کا دن ہے اور اہل پاکستان کیلئے اپنے گربیانوں میں جھانک کردلوں کو ٹٹولنے کا بھی دن ہے ۔آج تجدید عہد کا دن ہے اور سوچنے کا بھی دن ہے کہ جس ملک کو 23مارچ 1956ءکی رو سے اسلامی جمہوریہ پاکستان قرا ر دیا تھا وہ اپنے قیام کے 24سال ،چار ماہ اور تین دن بعد دولخت کیوں ہوا اور باقی ماندہ پاکستان اسلامی ہونے کے باوجود عملی طور پر جمہوریہ کیوں نہ رہا ۔آج کا تاریخی دن ہماری ساری قومی سیاسی تاریخ کو اپنے پہلو میں سمیٹے ہوئے ہمیں دعوت فکر وعمل دے رہا ہے مختصر یہ کہ 23مارچ کا دن قرار داد پاکستان اور یوم پاکستان کے حوالہ سے ایک تاریخی دن ہے اس تاریخی ساز دن کے پس منظر اور اہمیت کے بارے میں تاریخی حقائق اور سیاق وسباق کے حوالے سے درج ذیل سطور میں اظہار خیال کیا جارہا ہے ۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ برصیغر جنوبی ایشیا ءمیں پاکستان کا قیام مسلمانوں کی قومی تاریخ اور ان کی جدید ضروریات کا ناگزیر نتیجہ ہے قیام پاکستان کا مطالبہ دوقومی نظریہ کی بنیاد پر کیا گیا تھا جس کی اساس اسلام اور ہندو مت کے دو مختلف ،متضاد اورمتصادم فلسفہ ہائے حیات پراستوار ہوئی تھی ۔اس نظریہ کی تشکیل او رارتقاءکے پس منظر میں برصیغر جنوبی ایشیا ءکے مسلمانوں کی عروج وزوال سے لبریز کی صدیوں پر محیط قومی تاریخ کو مرکز اور محور کی حیثیت حاصل رہی ۔انہوں نے اپنی سیاسی برتری اور بعد ازاں سیاسی زوال اور معاشی ومعاشرتی انحلطلا ط اور پسماندگی کے ہر دور میں اپنی قومی انفرادیت اور جداگانہ حیثیت کو برقرا ر اور اسلام کی نشاة ثانیہ کیلئے طویل جدوجہد کی اوربے پناہ قربانیاں پیش کیں ۔

انگریز سامراج کے دواقتدار میں مسلمانوں پر لرزئہ خیز مظالم ڈھائے گئے اور ان کو سیاسی ،معاشی ،معاشریت ،تعلیمی ،قانونی اور مذہبی حقوق سے محروم کرنے اور پسماندہ تربنانے کیلئے ہرمذموم کوشش اور کاروائی کی گئی بہر حال مسلمانوں نے بیسویں صدی کے آغاز میں اپنے سیاسی حقوق کے حصول او رہندوستان کی آزادی کی تحریک میں اپنی ہمسایہ قوم ہندوﺅں کے شانہ بشانہ جدوجہد میں حصہ لیکر اپنا تاریخی کردار ادا کیا ۔مسلمانوں برصیغر کی واحد نمائندہ قومی سیاسی جماعت ”آل انڈیا مسلم لیگ “نے مسلمانوں کے قومی اور سیاسی حقو ق کے آئینی تحفظ کی ضمانت حاصل کرنے کی بھرپور جدوجہد کرنے کے علاوہ کانگرس کے ساتھ تعاون اور مفاہمت کی ہر ممکن کوشش کی تاکہ آزادی کی منزل کو قریب ترلایا جاسکے مگر کانگرس نے ہندو اکثریت کے بل بوتے پر مسلمانوں کی واحد نمائندہ قومی سیاسی جماعت مسلم لیگ کے دست تعاون کو جھٹک دیا ۔حکومت برطانیہ نے جب گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ءکے تحت ہندوستان کیلئے فیڈریشن سیکم کا اعلان کیا تو مسلم لیگ نے اس سیکم کو مسلمانوں کے مفادات کے منافی قرار دیا ۔جہاں تک اس ایکٹ کے صوبائی حصہ کا تعلق ہے مسلم لیگ نے اس زہنی تحفظ کے ساتھ قبول کیا تھا مگر 1937ءکے صوبائی انتخابات کے بعد جب بیشتر صوبوں میں کانگرسی وزارتیں قائم ہوئیں تو مسلمانوں پر بے پناہ مظالم ڈھائے گئے ۔مسلمان اقلیت کے صوبوں میں کانگرس حکومتوں نے مسلمانوں کا جینا دوبھر کردیا اور ان کو تمام قسم کے حقوق سے محروم کرنے کیلئے ظلم وستم کا بازار گرم کردیا کانگرسی حکومتوں کے مسلم کش رویہ اورہندوراہنماﺅں کامتصبانہ کاروائیوں نے مسلمانوں کو یہ سوچنے اور یقین کرنے پر مجبور کردیا۔کہ ان کا مسلمانوں کا مستقبل متحد ہ ہندوستان میں محفوظ نہیں ہوسکتا اس پس منظر میں پٹنہ کے مقام پر 26دسمبر 1938ءکو آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا جس میں ایک قرار داد کے زریعے قائد اعظم محمد علی جناح ؒ صدر آل انڈیا مسلم لیگ کو یہ اختیا ددیا گیا کہ وہ کوئی ایسا متبادل اور موزوں حل تلاش کریں جس کے زریعے مسلمانوں اوردیگر اقلیتوں کے حقوق ومفادات کا تحفظ ہوسکے یہاں اس بات کا اعادہ کرنا بے جا نہ ہوگا کہ علامہ اقبال ؒنے دسمبر 1930ءمیں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں صدارتی حطبہ ارشادفرماتے ہوئے ہندوستان کو تقسیم کرنے اور مغربی ہندوستان میں مسلم اکثریت کے صوبوں پر مشتمل ایک متحدہ اسلامی ریاست کے قیام کامطالبہ کیا تھا اس کے بعد قائداعظم کی زیر صدرات سندھ صوبائی مسلم لیگ نے کراچی میں آٹھ تا نو اکتوبر 1938ءکو منعقد ہ اجلاس میں درج زیل قرار دادمنظور کی تھی ۔

”اس وسیع و عریض براعظم ہندوستان میں دیر پا قیام امن اور مسلمانوں کی ثقافتی ترقی ،معاشی اور معاشرتی بہبود اور ہندو اور مسلمان دونوں قومی کے حق خوداردیت کے مفاد میں یہ انتہائی ضروری ہوگیا ہے کہ کانفرنس آل انڈیا مسلم لیگ سے یہ سفارش کرے کہ وہ اس سارے مسئلے پر نظرثانی کرکے اس بات کا جائزہ لے کہ ہندوستان کیلئے کس قسم کا موزوں دستور ہوجوان (ہندواور مسلمانوں ) کو ان کا جائز اور باوقار مقام دلاسکیں اور یہ کہ یہ کانفرنس آل انڈیا مسلم لیگ سے سفارش کرتی ہے کہ وہ ایسی دستور ی سیکم وضع کریں جس کی رو سے مسلمان مکمل آزادی حاصل کرسکیں ۔“

اس پس منظر میں 26مارچ 1939ءکو میرٹھ کے مقام پر آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کا ایک اجلاس قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی صدارت میں منعقد ہوااس اجلاس میں قائد اعظم نے مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت ورکنگ کمیٹی کی منظوری سے ایک کمیٹی تشکیل دی جس کے زمہ یہ کام تھا کہ وہ ان مختلف تجاویز کی روشنی میں جن کے زریعے تقسیم ہند کا نظریہ پیش کیا گیا تھا جائزہ لے کر اپنی اولین فرصت میں ایک جامع روپورٹ ورکنگ کمیٹی کے روبروپیش کرے جائزہ کمیٹی کے ارکان حسب ذیل تھے ۔
1۔قائد اعظم محمد علی جناحؒ----( صدر مسلم لیگ )صدر
2۔خان لیاقت علی خان ---- کنونیئر
3۔سرسکندر حیات خان ----- رکن
4۔نواب محمد اسماعیل خان ----- رکن
5۔سید عبدالعزیز ------ رکن
6۔سرعبداللہ ہارون ----- رکن
7۔خواجہ ناظم الدین ----- رکن
8۔عبدالمتین چوہدری ----- رکن
9۔سردار اورنگزیب خان ---- رکن

آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے 26مارچ 1939ءکے اجلاس سے لے کر 23مارچ 1940ءکے لاہور کے تاریخی اجلاس کے درمیانی ایک سال کے عرصہ میں مسلم لیگ نے قائد اعظم محمد علی جناح کی زیر قیادت مسلم ہندوستان کے سیاسی و آیئنی حقوق ومفادات کے تحفظ کے نظریہ کی بنیاد پر کانگرس کے ساتھ مفاہمت اور مصالحت کی ممکن کوشش کی جس میں کانگرس کی ہٹ دھرمی اور متصبانہ رویہ کی وجہ سے کامیابی نہ ہوسکی اس عرصہ میں مسلم لیگ کے مختلف اجلاسوں کی کاروائی اور پنڈت جواہر لعل نہرو ،مسٹر گاندھی اور واسرائے ہندو لارڈ لنلتگو(Linlithgow) کے ساتھ قائد اعظم کی خط وکتابت کا جائزہ لیاجائے تو یہی نتیجہ اخذ کیاجاسکتا ہے کہ قیام پاکستان کامطالبہ مسلمانوں کی ناگزیر قومی ضرورت بن چکا تھا ۔

قرارداد لاہور کی منظوری کے ساتھ ہی مسلمانوں برصیغر حتمی طور پر اپنی منزل مقصود اور اپنے نصب العین کا تعین کرکے آزادمسلم ریاست کے قیام ک فیصلہ کرلیا تھا انگریزوں کیلئے برصیغر کی تقسیم اس کے (برطانیہ ) عالمی مفادات کے منافی تھی جبکہ ہندوﺅں نے اس مطالبہ کی شدید ترین مخالفت کی بعض نے اسے فرقہ پرستی پر معمول کیا ہندو مہاسبھا کا واویلا یہ تھا کہ گاﺅ ماتا کے ٹکڑے کئے جارہے ہیں اور یہ کہ مادر وطن ہندوستان کو تقسیم کیا جارہا ہے ۔گاندھی کی سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو جنہوں نے محض ہندومت کو چھوڑ کر اسلام قبول کیا تھا ایک قوم قرار نہیں دیئے جاسکتے تھے گاندھی نے کہا کہ اس کے وجود کے تو دوٹکڑے ہوسکتے ہیں لیکن وہ ہندوستان کے دو ٹکڑے نہیں ہونے دے گا ۔مختصر یہ کہ ہندوﺅں ،انگریزوں اور نیشنلسٹ مسلمانوں نے مطالبہ پاکستان کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا ۔قائد اعظم ؒ نے مطالبہ پاکستان کے مخالفین کے اعتراضات کا بڑے مدبرانہ ،بے باکانہ اور جرات مندانہ انداز میں جواب دیا ۔قائد اعظم ؒنے فرمایا :۔
”قدرت نے ہندوستان کو پہلے ہی تقسیم ررکھا ہے ہندوستان کے طبعی نقشہ پر مسلم انڈیا اور ہندوانڈیا پہلے سے موجود ہیں ۔وہ ملک کہاں ہے جسے تقسیم کیا جارہا ہے ۔۔۔؟وہ قوم کہاں ہے جسے تقسیم کیا جارہا ہے ۔۔؟مسلمان ایک الگ قوم ہیں وہ قوم کی ہر تعریف کے اعتبار سے ایک قوم ہیں مرکزی قومی حکومت کہاں ہے جس کے اختیار کی خلاف ورزی کی جارہی ہے ۔۔۔؟اگر ہندوستان نے سارا ہندوستان حاصل کرنے کی کوشش کی تو وہ اس سارے سے محروم ہوجائینگے لیکن وہ مسلمانوں کیلئے اگر ایک تہائی پر رضا مند ہوجائیں تو انہیں وہ تہائی مل جائے گا مسلمان پاکستان کا مطالبہ ہندوستان سے نہیں کررہے ہیں کیونکہ پورا ہندوستان کبھی بھی ہندوﺅں کے قبضہ میں نہیں رہا ہے یہ مسلمان تھے جنہوں نے ہندوستان فتح کی اور اس پر سات سوسال حکمرانی کی یہ انگریز تھے جنہوں نے ہندوستان مسلمانوں سے چھین لیاتھا مسلمانوں کامطالبہ انگریزوں سے تھا جن کے قبضہ میں ہندوستان ہے یہ کہنا سراسرحماقت ہوگی کہ ہندوستان ہندوﺅں کی ملکیت ہے “۔

مختصر یہ کہ ہندوﺅں نے مطالبہ پاکستان کی شدید مخالفت کی اور انگریزوںنے اپنے عالمی مفادات پیش نظر ہندوستان کی سیاسی وحدت کو برقرار رکھنے کی ہرممکن کوشش کی انگریزوں کی طرف سے اگست 1940ءکی پیشکش 1942ءمیں کرپشن مشن کی تجاویز 1945ءکی شملہ کانفرنس میں لارڈویوں کا منصوبہ تھا جو اپنے جائز اور مبنی برصداقت موقف سے دستبردار ہونے کیلئے قطعاً تیار نہ تھی یہی وجہ ہے کہ جون 1945ءمیں شملہ کانفرنس کی ناکامی پر قائد اعظم ؒنے تبصرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ ”اگر میں دیول منصوبہ پر دستحط کردیتا تو گویا میں مسلمانوں کی موت کے پروانہ پر دستحط کرتا “۔دہلی کے مقام پر اوائل اپریل 1946ءمیں منعقد مسلم لیگ یجسیلٹر ز کنونشن میںقرارداد لاہور کے ”دوریاستوں “کے ابہمام کو دور کرتے ہوئے متحدہ پاکستان کے قیام کے مطالبہ کو دہرایا گیا اور حصول پاکستان کیلئے ہر قسم کی قربانی دینے کا حلفیہ عہد کیاگیا ۔مسلمانوں کی زبان پر نعرہ مستانہ تھا کہ ”بٹ کے رہے گا ہندوستان اور بن کر رہے گا پاکستان ۔“مسلمانوں کی اپنی واحد نمائندہ سیاسی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کے موقف اور اپنے عظیم راہنما قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی صلاحیتوں اور فکر ونظر کی دیانت پر مکمل بھروسہ تھا ۔

مسلمانوں نے حضرت قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی قیادت وراہنمائی میں بے مثال قربانیاں دیں اور قائد ااعظم نے مطالبہ پاکستان کو عملی جامہ پہنانے اور دو قومی نظریہ کو روشناس کروانے کے لیے برصیغر کے چپے چپے کا دورہ کیا سیاسی کارکنوں صحافیوں ،وکلاء،طلباءوخواتین ماسوائے نیشنل لسٹ علماءہر ایک نے تحریک پاکستان میں قربانیاں دے کر اپنا تاریخی کردار اداکیا مسلمانان برصیغر نے حضرت قائد اعظم کی مومنانہ ،مدبرانہ ،منصفانہ اور لازوال قیادت میں انگریزوں اور ہندوﺅں کو گھنٹے ٹیکنے اور مطالبہ پاکستان تسلیم کرنے پر مجبور کردیا آل انڈیا مسلم لیگ نے قائد اعظم کی راہنمائی میں ایمان اتحاد اور تنظیم کی بدولت صرف سات کے قلیل عرصے میں مطالبہ پاکستان کی جنگ جیت لی اور تین جون 1947ءکے تقسیم ہند کے منصوبے کا اعلان کرکے انگریزوں نے قیام پاکستان کے مطالبے کو تسلیم کرلیا اور آخرکا ر وہ مبارک کھڑی آپہنچی جب 14اگست 1947ءکا مطالبہ پاکستان کا خواب حقیقت میں بدل گیا اور دنیا کے نقشے پر سب سے بڑی نظریاتی اسلامی ریاست معرض وجود میں آگئی اگرچہ انگریزوں نے ایک سازش کے تحت پاکستان کو غیر محفوظ اور کمزور بنانے کی ہر مجرمانہ کاروائی کی تھی مگر ناگزیر حالات میں مسلمانوںنے ٹوٹے پھوٹے پاکستان کو قبول کرکے انگریز اور ہندسامراج سے چھٹکا را حاصل کرلیا ۔

قیام پاکستان کے بعد اس نوآزادہ مملکت کو یوں تو بے شمار مشکلات مسائل اور بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا مگر آئین کا بحران سب سے شدید اور سنگین تھا قائد اعظم نے قیام پاکستا ن کے بعد بابائے قوم اور گورنر جنرل کی حیثیت سے قدم قدم پر قوم کی راہنمائی کی مگر وہ صرف ایک سال زندہ رہنے کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جاملے اور قوم یتیم ہوگئی آپ نے قیام پاکستان سے قبل اور اس کے بعد مملکت خدادا دکی ہرشعبے میں راہنمائی فرمائی پاکستان کی ترقی اورا ستحکام پر بہت زور دیا آپ نے آئین کے بارے میں خصوصیت کے ساتھ ہدایت بھی دی اور راہنمائی بھی فرمائی چونکہ پاکستان مقصد نہیں بلکہ اصول مقصد کا زریعہ قرار دیا گیا تھا اس لیے ضرورت اس امر کی تھی کہ تحریک پاکستان کے مقاصد کو دستورمیں متعین کرنے اور نظام حکومت وضع کرنے کے بارے میں دستور بنایا جائے چنانچہ پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کی تحریک پر پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے و ہ تاریخی قرار دادمنظور کی جسے قرار داد مقاصد کہا جاتاہے یہ قرارداد مارچ 1949ءمیں منظور کی گئی تھی اس قرار داد کی منظوری کے بعد پاکستان کے پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کے شہادت ،وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی برطرف ،دستور ساز اسمبلی کو توڑنے اور فیڈرل کورٹ کی طرف سے سرکار بنام مولوی تمیز الدین کے مقدمے میں فیصلہ سنائے جانے والے تمام واقعات تاریخ پاکستان کے المناک ترین باب ہیں بہرحال 23مارچ 1956ءکو پاکستان میں پہلا دستور نافذ کرکے ملک کو اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار دیا گیا اس دستور کے تحت عام انتخابات منعقدہونے سے قبل ہی اکتوبر 1958ءمیں منسوخ کردیا گیا اس آئین کے نفاذ کے 15سال اور اس کی منسوخی کے 13سال بعد پاکستان کو دولخت کردیا گیا ۔مشرقی پاکستان بنگلادیش بن گیا اور مغربی پاکستان ،پاکستان قرار پایا بہرحال 23مارچ 1956ءکی مناسبت سے ہم ہر سال 23مارچ کو یوم پاکستان کا تزک واختشام سے اہتمام کرتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں قیام پاکستان کے مقاصد اور محرکات کی عملی تعبیرکی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
بقول شاعر مشرق ،فرزند کشمیر علامہ اقبال ؒ
ہو صداقت کیلئے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میںجان پیداکرے

(مضمون نگار پاکستان پیپلزپارٹی آزادکشمیر کے سینئر رہنما اور جموں وکشمیر ہیومن رائٹس کمیشن کے سربراہ ہیں )
Humayun Zaman Mirza
About the Author: Humayun Zaman Mirza Read More Articles by Humayun Zaman Mirza: 10 Articles with 12186 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.