پاکستان میں نگران سیٹ اپ کےلئے
اعلی عدلیہ کے ریٹائرڈ جسٹس صاحبان کو بیورو کریٹس ، ٹیکنو کریٹس اور معروف
سیاسی شخصیات پر فوقیت حاصل ہوگئی ہے۔غیر اعلانیہ تسلیم کرلیا گیا کہ
اپوزیشن جماعتیں ہوں یا اقتدار میں رہنے والی جماعتیں ، نگران حکومت کی
بھاگ دوڑ سنبھالنے کے قابل و ایماندارشخصیات کا فقدان اور باہمی اتفاق رائے
نہ ہوسکا اس لئے نامزد ریٹائرڈ جسٹس صاحبان تمام سیاسی رہنماﺅں پر سبقت لے
گئے ہیں، جبکہ سیاست دان الزام تراشیوں پر ایک دوسرے پربازی لے جانے میں
مصروف ہیں۔تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان کسی دوسری کی نامزد شخصیت پر
بھروسہ کرنے پر تیار نہیں ہیں شائد وہ سمجھتے ہیں کہ کسی کی پسندیدہ شخصیت
پاکستان میں فوری طور پر شفاف الیکشن کےلئے فعال کردار ادا
نہیںکرسکتی۔ظاہری طور پر یہ از خود سیاسی جماعتوں کی کارکردگی جانچنے کا
پیمانہ بن کر سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ یقینی طور پر متوقع انتخابات میں عوام
ہی نگراں حکومتوں کے جج ہونگے جو اپنے فیصلوں سے ایسی سیاسی جماعتوں کے
نمائندوں کو منتخب کریں گے ، جن کے پاس کیئر ٹیکر گورنمنٹ کےلئے شفاف
شخصیات کے انتخابات میں اتفاق رائے ہی موجود نہیں ان کے نگران حکومت کے
بارے میں سیاسی جماعتوں کے ارشادت بجا ، مگر ملک کے معروضی حالات کچھاور ہی
ظاہر کررہے ہیں۔کرپشن اور بد عنوانی ملک کی رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہی ہے
اور عام آدمی اس کے آگے بے بس اور لاچار ہے، تعمیر و ترقی ایک خواب بن چکی
ہے ، پاکستان کا پلاننگ کمیشن لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے دہلا رہا ہے کہ2019ءتک
سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ توانائی کا بحران دور ہوسکے ۔ عسکریت پسندوں کی
دہشت گردی کو سیاسی و مذہبی جماعتیں دہشت گردی ہی نہیں سمجھتیں ۔ بلکہ ایسے
بے امنی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔حکمراں جماعتوں نے آخری ایام میں جس طرےقے سے
اسمبلیوں نے اپنے لئے مراعات میں اضافہ اور اطلاعات کے مطابق 600ارب روپوں
کی خرد برد کر گئے ہیں ، اس نے عوام کے ہوش اڑا دئےے ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے
الیکشن کی سرمایہ کاری مہم میں اپنے امیدواران سے درخواستوں کی وصولی مہم
میں اربوں روپے ، اکھٹے کر لئے ہیں۔(ماسوائے ایم کیو ایم ، جو اپنے
امیدواران سے کوئی فیس وصول نہیں کرتی اور تمام اخراجات از خود کرتی
ہے)۔وسائل کے بے جا اور غیر قانونی استعمال ، اورتو اور ،سیلاب زدگان کےلئے
انسانی ہمدردی کے بنا ءملکی اور بین الاقوامی ذرائع جمع ہونے فنڈز میں
تاریخ ساز خرد برد کے بھی ریکارڈ قائم کئے گئے ۔ ان سابقہ حالات میں سیاسی
جماعتوں کی جانب سے نگراں حکومتوں کےلئے سیاسی شخصیات کو نامزد نہ کرنا ہی
عوام کےلئے اطمینان بخش رہا ہے کہ کم از کم ، اس نگراں سیٹ اپ میں، لوٹ مار
سیل کا منظر تو نظرنہیں آئے گا۔لیکن ایسی بات بھی نہیں ہے کہ پاکستان میں
سنجیدہ سیاست کی حیثیت سے حقائق کا ادراک رکھنے والے سیاست دان موجود ہی
نہیں ہیں۔یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ماضی میں اگر اپنے قوم و فعل پر عمل بر
قرار رکھتے اور خود کو جمہوریت کا سچا دعویدار ثابت کرتے تو آج پاکستان کی
حالت ایسی دگرگوں نہیں ہوتی۔عوام کوہمیشہ جمہوریت کے نعروں اور خالی خولی
نعروں سے بہلایا جاتا رہا اور اصلاح کےلئے صدق دل سے کوشش نہیں کی گئی۔بد
قسمتی ہوگی کہ عوام اب ان ہی چہروں کو نقاب بدلنے کے بعد ، اپنے درمیان
موجود ہونے پر دوبارہ منتخب کریں۔عوام اگر اس حقیقت کو مدنظر رکھے اور اپنے
ضمیر کے مطابق خود مطمئن کرے کہ ان کے ووٹ کا عمل آئندہ جمہوریت کے نام پر
مسند اقتدار میں بیٹھنے والے سرمایہ دراروں ، جاگیر داروں ،صنعتکاروں ،
خوانین اور مورثی سیاست دانوں کےلئے نہیں ہوگا۔عوام نے یہ منصفانہ فیصلہ
کرنا ہے کہ ان کا ووٹ اشرافیہ کےلئے نہیں ہوگا ۔عوام کو امید ہے کہ نگران
سیٹ اپ میں آنےوالے ، حکومت کے بجائے حکمت سے کام لیتے ہوئے اللہ کے ساتھ
عوام کو بھی جواب دہ ہونگے کہ وہ اپنے عمل سے کسی ایک جانب جھکاﺅ کے بجائے
، ہر ادارے کو اپنی حدود میں ، سیاسی منشا اور مفاد کے بغیر غیر جانبدار
ہوکر کام کرنے کےلئے عملی اقدامات کرنے میں کامیاب ہونگے۔ماضی میں مملکت کے
خلاف ، فروعی مفادات کے خاطر فیصلوں سے خاطر خواہ نقصان پہنچ چکا ہے۔ادارے
اپنے دائرے میں کام کرنے کے بجائے ، سیاسی دائرے میں ، اقربا پروری کی روش
پر چلنے میں کام کرنے کے عادی رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ماضی میں اداروں کے
درمیاں محاذ آرائیوں نے مملکت کو جمہوری عمل سے دور کیا ہے۔حدود سے تجاوز
نے مملکت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔اس رخصت ہونے والی حکومت میں
متعدد بار بد گمانی اور غیر یقینی صورتحال کے حالات پیدا ہوئے جیسے صرف ملک
گیر لوڈ شیڈنگ ہونے پر سمجھ لیا گیا کہ ملک میں مارشل لا ءلگ گیا ہے ، جب
قوم کی نفسیاتی حالت ایسی ہوچکی ہو تو نگرانوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ جو
امانت ان کے سپرد ہونے جارہی ہے ، اس کا حساب اللہ تعالی کی عدالت میں سب
سے پہلے دینا ہوگا۔اس بار اداروں کے سربراہان نے دانشمندی سے ماضی قریب میں
حکومتی نااہلیوں کے باوجود جمہوریت کی بساط کو لیپٹنے میں کسی جلد بازی کا
مظاہرہ نہیں کیا ۔اعلی عدلیہ کے فیصلوں نے عوام میں ایک اعتماد کا جذبہ
پیدا کیا ہے اور وہ یہ بھی توقع کرتے ہیں کہ آنےوالی نگراں حکومتیں بھی
ایسا ہی کردار ادا کریں کہ نگراں حکومت کی معیاد کو بڑھانے کی افوہوں اور
انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے والوں کی سازشوں کا خاتمہ کردیں۔یقینی طور
نگران حکومت میں کرپشن ، بد عنوانی ، امن و مان ختم نہیں کی جاسکتی ، لیکن
ایسی شخصیات کے منتخب کرانے کےلئے تاریخی کردار ضرور ادا کیا جاسکتا ہے کہ
آئندہ ایسی قیادت ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالے جس کی پالیسیوں سے ملک امن و مان
و انصاف کا گہوارہ بننے کے راستے پر چل سکے اور معیشت کے تباہ کن اثرات سے
باہر نکل سکے ۔پڑوسی ممالک سے جنگ کی بنیادپر نہیں بلکہ امن کے اعتماد پر
ایسے تعلقات استوار کرے ، جس سے سات سمندر پار طاقتیں ،پاکستان کو اپنی
ذیلی ریاست سمجھنا چھوڑ کر برابری کی سطح پر اہمیت دیں۔نگراں حکومت کی
مدبرانہ عمل سے ہی جمہوریت حقیقی معنوں میں مضبوط ہوگی اور ہمیشہ کےلئے
آمریت کا راستہ بند ہوگا ۔ نگراں حکومتوں نے بھی محض زبانی جمع خرچ کیا تو
پھر پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہے۔اگر نگراں حکومت اپنے مقصد کو محض وقتی
اقتدار کے تحت مدت پوری ہونے تک محدود رکھنے کے بجائے ، واقعی کچھ کرکے بھی
دکھاتی ہے تو یہ اچھی حکومت نہیں حکمت ہوگی۔ |