اس مرتبہ کے انتخابات ہماری قوم
کی طرح طالبان کے لئے بھی نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔اسلام کے ٹھیکیداروں نے
اب تک ملت ِ پاکستان کا جتنا بھی قتلِ عام کیاہے اب وہ اس کا لطف ایوانِ
اقتدار میں بیٹھ کر اٹھانا چاہتے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ انہیں ایک سیاسی طاقت
کے طور پر پاکستان میں تسلیم کیا جائے اور اس طرح وہ سیاسی عمل کو عبور کر
کے ملت پاکستان کے سینے پر چڑھ کر بیٹھ جائیں ۔
طالبان کی امیدوں کے اس وقت تین محور ہیں۔ایک محور کو ڈاکٹر عبدالقدیر
خان،نواز شریف،مولانا فضل الرحمن اور منور حسن جیسی شخصیات تشکیل دیتی
ہیں۔ایسے لوگ ڈنکے کی چوٹ پر طالبان کو ایوانِ اقتدار میں بٹھانے کی باتیں
کرتے ہیں۔دوسرا محور عام لوگوں کی نظر سے مخفی ہے،یہ محور اُن لوگوں سے
تشکیل پاتاہے جو بظاہر طالبان کے شدید مخالف ہیں لیکن درپردہ اپنے مفادات
کے حصول کے لئے اور اپنے مخالفین کو راستے سے ہٹانے کے لئے طالبان کے سیاسی
پارٹنر ہیں۔یہ عوام النّاس کو دبے لفظوں میں طالبان سے ڈراتے ہیں اور انہیں
مشورے کے طور پر یہ سمجھاتے ہیں کہ اگر طالبان سے مذاکرات نہ کئے گئے تو نہ
ہی یہ قتل و غارت رک سکتی ہے اور نہ ملک کی حالت تبدیل ہوسکتی ہے۔یہ لوگ
طالبان کو اقتدار میں لانے کے لئے ماحول بنانے میں سرگرمِ عمل ہیں۔
طالبان کی امیدوں کا تیسرا محور نگران حکومت ہے۔ نگران حکومت کے دوران
طالبان کی پوری کوشش رہے گی کہ ظالمانہ کاروائیوں میں اور زیادہ شدت لائی
جائے تاکہ انتخابات کے بروقت انعقاد کے لئے نگران حکومت، طالبان کے ساتھ
مذاکرات کے لئے مجبور ہوجائے ۔
آپ تاریخِ طالبان اٹھاکر دیکھ لیں،طالبان چاہے افغانستان سے آئیں یا
پاکستان کے مدارس میں ٹریننگ حاصل کریں ملتِ پاکستان نے کبھی بھی طالبان کے
ساتھ کوئی جغرافیائی یا سرحدی تنازعہ کھڑا نہیں کیا۔دوسری اہم بات یہ کہ
طالبان کی سب سے زیادہ حمایت " بحیثیتِ قوم "ملت پاکستان نے دینی جذبے کے
تحت کی۔طالبان کو ملت پاکستان نے اپنا خون جگر پلاپلاکر جوان کیا۔جب طالبان
مضبوط اور توانا ہوگئے تو انہوں نے اپنی محسن قوم "ملت پاکستان " کو ہی خاک
و خون میں غلطاں کرنا شروع کردیا۔
اگر طالبان کی کوئی مخالفت تھی بھی تو وہ حکمرانوں کے ساتھ تھی اور سچ بات
تو یہ ہے کہ ہمارے حکمران اور طالبان آپس میں کبھی مخالف نہیں رہے۔اسلام کو
بدنام کرنے کے لئے یہ دونوں گروہ اپنے بیرونی آقاوں کے اشارے پر قدم سے قدم
ملاکر چلتے رہے۔یہی وجہ ہے کہ طالبان کو تحفظ دینے کے لئے ہمارے حکومتی
اداروں نے انہیں کئی ناموں اور ٹولوں میں تقسیم کیا،مثلا ،افغانی
طالبان،پٹھان طالبان،مہاجر طالبان،پنجابی طالبان،سندھی طالبان۔۔۔یہ سب
طالبان کی مدد کرنے کا بہترین طریقہ ہے تاکہ لوگوں سے کہاجائے کہ فلانے
طالبان برے ہیں اور فلانے طالبان تو بہت نیک،متقی اور اللہ والے ہیں۔
اسی طرح طالبان نے بھی حکمرانوں کے ساتھ فقط نورا کشتی کی جبکہ انہوں نے
جتنی بھی ظالمانہ کاروائیاں کیں ان کا نشانہ عوام بنے۔انہوں نے بری امام سے
لے کر عبداللہ شاہ غازی تک اور مام بارگاہوں سے لے کر مساجد تک بے دردی کے
ساتھ بے گناہ انسانوں کا قتلِ عام کیاہے ،انہوں نے مخلص اور دیانتدار
سرکاری افیسروں کو موت کے گھاٹ اتار کر ملت پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان
پہچایا،انہوں نے فرقہ واریت کا جھوٹا نعرہ لگاکر ہماری ملت کو بہترین
ڈاکٹروں،انجینئروں ،پروفیسروں اور شعرا سے محروم کیا۔
اگر طالبان کی کوئی دینی بنیاد ہوتی تو وہ کم از کم اتنا توسوچتے کہ اس طرح
بے گناہ انسانوں کو قتل کرنے کی دین اجازت نہیں دیتا۔بلکہ بانی اسلام حضرت
محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت تو یہ ہے کہ آپ [ص] حالتِ جنگ میں بھی سپہ
سالاروں کو حکم دیاکرتے تھے کہ خبردار کوئی بے گناہ انسان نہ مارا
جائے،بھاگتے ہوئے کا پیچھا نہیں کرنا،جو دروازہ بند کردے اسے کچھ نہیں
کہنا،کسی زخمی پر تلوار نہیں کھینچنا،خواتین اور بچوں پر ہاتھ نہیں
اٹھانا۔دینِ اسلام میں اگر جانور کو بھی ذبح کیا جائے تو اس کے بھی خاص
احکامات ہیں اور ان میں سے بھی ایک خاص حکم یہ ہے کہ جانور کو پہلے پانی
پلاو۔شکار کے لئے بھی حکم ہے کہ محض سیر و تفریح کے لئے جانوروں کی جانوں
کا اسراف نہ کرو۔
کہاں دینِ اسلام کی کریمانہ تعلیمات اور کہاں طالبان کا وحشی پن۔طالبان کے
کرتوت ہم سب کے سامنے ہیں ۔یہ لوگ فکری اور عملی طور پر پیغمر اسلام ﷺ کے
عین مخالف ہیں۔درندگی ان کا دین ہے،وحشت و بربریت ان کی شریعت ہے اور ظلم و
ستم ان کی سیرت ہے۔یہ بات بالکل واضح ہے کہ طالبان کا کوئی دینی یا قومی
نظریہ ہی نہیں کہ جس کی بنیاد پر ان سے مذاکرات کئے جائیں۔
اس وقت استعماری ایجنڈے کے مطابق طالبان کو میدان سیاست میں لانے کا کام
کیاجارہاہے اور شاید یہ طالبان کے ساتھ کئے گئے امریکی خفیہ معاہدوں کی
تکمیل کا ایک مرحلہ بھی ہو۔ممکن ہےطالبان کو امریکہ پاکستانیوں کے قتل عام
کا صلہ انہیں پاکستانی سیاست میں شمولیت کی صورت میں دینا چاہتاہو بالکل
ایسے ہی جیسے یہودیوں کو نام نہاد ہولو کاسٹ کا صلہ اسرائیل کی صورت میں
دیاگیا۔
جس طرح طالبان اگرچہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں لیکن دین اسلام کے عین
مخالف ہیں،اسی طرح صیہونی بھی اگرچہ اپنے آپ کو یہودی کہتے ہیں لیکن دین
یہودیت کے عین خلاف ہیں اور دونوں کی قدرِ مشترکہ یہ ہے کہ دونوں امریکہ و
برطانیہ کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
بات کچھ یوں ہے کہ جس طرح برطانیہ کے مفادات کے تحفظ کی خاطر استعمار نے
ہندوستان میں ایک ایسے طبقے کی ضرورت کو محسوس کیا تھا جو جسمانی طور پر
ہندی ہو لیکن فکری طور پر برطانوی ہو اور اس طرح وہ طبقہ ہندوستان میں رہ
کر برطانیہ کے مفادات کا محافظ ہو۔اسی طرح آج اکیسویں صدی میں اسرائیل کا
مسئلہ یہودی دنیا کی زندگی اور موت نیز عزت و آبرو کا مسئلہ ہے۔یہودی دنیا
اچھی طرح یہ جانتی ہے کہ اسرائیل کا خاتمہ موجودہ منحرف یہودیت کے تابوت
میں آخری کیل ثابت ہو گا۔چنانچہ یہودی اسرائیل کو ہر صورت میں قائم رکھنا
چاہتے ہیں اور اس وقت وہ پوری توجہ اور یکسوئی کے ساتھ اسرائیل کی بقاء کی
جنگ لڑ رہے ہیں۔
دنیاء اسلام کے قلب میں واقع ہونے کے باعث اسرائیل کو حقیقی خطرہ صرف اور
صرف مسلمانوں سے ہے۔یہودیوں کو ایک ایسے طبقے کی ضرورت تھی جو بظاہر نہ صرف
یہ کہ مسلمان ہو بلکہ خوارج کی طرح ایک ٹھوس قسم کا سچا اور پکا مسلمان نیز
مجاہدبھی ہو جبکہ فکری طور پر مکمل صیہونی ہو اور مسلمانوں کے درمیان رہ کر
صیہونی مفادات کا تحفظ کرے۔
صیہونیوں کے لئے اسرائیل کے تحفظ کی خاطرلوگوں کو اسلام اور جہاد سے متنفر
کرنا ضروری تھا۔انہیں ایک ایسے گروہ کی ضرورت تھی جو مسلمان اور مجاہد بن
کر لوگوں پر اس قدر شب خون مارے کہ،چرچ،کلیسا،عوامی مراکز،بازار،
مساجد،امام بارگاہیں اور اولیاء کرام کے مزارات سمیت کچھ بھی محفوظ نہ رہے
تاکہ مسلمانوں کو اسرائیل کے بجائے اپنی فکر پڑجائے۔
اس گروہ کی تشکیل کے مراحل سعودی عرب اورپاکستان کے استعمار نوازحکمرانوں
کی باہمی رضامندی سے انجام پائے اور پھر سادہ لوح مسلمانوں کے مخلص اور
دیندار بچوں کو دینی مدارس کے سائے میں جہادی کیمپوں میں بھرتی کیا جانے
لگا۔ان جہادی کیمپوں کی آوٹ پٹ آج ہم سب کے سامنے ہے جسے دیکھ کر ہم بخوبی
یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ان کیمپوں میں بھرتی کئے جانے والے بچوں کو سو فی صد
صیہونیت کے عقائد کے مطابق تربیت دی گئی ہے۔
یہاں پر یہ عرض کرتا چلوں کہ اگر کسی کو صیہونیت و طلبان کے فکری و عقیدتی
رابطے کا یقین نہ آئےتو وہ دل کھول کر تاریخ صیہونیت اور تاریخ طالبان پر
تحقیق کرئے اور پھر بلاتعصب صیہونی عقائد و افکار کا طالبان کے عقائد و
افکار کے ساتھ موازنہ کرلے۔
ہر تجزیہ و تحلیل اور ریسرچ و تحقیق کرنے والا بہت جلد اس نتیجے پر پہنچ
جاتا ہے کہ جوکام ماضی میں یہودی کرتے تھے ،مثلاً لوگوں کے گلے کاٹنا،عوامی
مراکز کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا،مستحکم ممالک کو متزلزل کرنا،عورتوں کا
استحصال کرنا،دین کے نام پر لوگوں کو ظلم و بربریت کی طرف دعوت دینا،پر امن
بستیوں کو آن واحد میں کھنڈر بنا دینا،اپنے سوا باقی سب کو گمراہ
سمجھنا،دوسرے مکاتب کے مفکرین اور سکالرز کو قتل کرنا،لاشوں کو درختوں اور
بجلی کے کھمبوں لٹکانا،پرامن بستیوں میں خوف و ہراس پھیلانا،انسانوں کو
جانوروں کی طرح ہلاک کرنا اور آستین کا سانپ بن کر ڈسنا ۔۔۔وغیرہ وغیرہ آج
یہ سارے کام استعماری جہادی کیمپوںمیں تربیت پانے والے طالبان کررہے ہیں
اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔۔۔۔۔
یاد رہے کہ جب طالبان کو صیہونی خطوط پر تربیت دی جارہی تھی تو ساتھ انہیں
اسرائیل کی طرح افغانستان میں ایک ریاست قائم کرنے کا خواب بھی دکھایا
گیاتھاجسے غیور افغانی باشندوں نےجلد ہی ناکام بنادیا۔اس کے بعد طالبان نے
اپنی کاروائیوں کا مرکز پاکستان کو بنالیا۔موجودہ حالات کے تناظر میں
لگتاہے کہ استعماری طاقتیں جس حکومت کا خواب طالبان کے ذریعے افغانستان میں
پورا نہیں کرسکیں اسے اب پاکستان میں پورا کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔
اس وقت ایک طرف تو طالبان اپنی مکروہات پھیلانے میں مصروف ہیں جبکہ دوسری
طرف یہودیوں کا سدھا یاہوامیڈیا کئی سالوں سےمسلسل طالبان کو مجاہدین اسلام
پکارے جارہاہے۔
آج ہر باشعور انسان کے لئےحیرت سے زیادہ ہنسی کی بات تو یہ ہے کہ دنیا
انہیں مجاہدین اسلام کہہ رہی ہے جنہوں نے جنم ہی امریکی مفادات کی خاطر
لیاہے ، جو پلے ہی پوست کی پیداوار افیون پر ہیں اور جو اسرائیل کے تحفظ کے
لئے مسلمانوں کو خود کش حملوں میں آج بھی اڑا رہے ہیں ۔۔۔
کیا ایسے لوگوں کو اسلام کا ہمدرد اور مجاہدین اسلام کہنا اور انہیں اقتدار
اور سیاست کے ذریعے ملت پاکستان پر مسلط کرنا اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ
زیادتی نہیں۔
ہم جس علاقے اور فرقے سے بھی تعلق رکھتے ہوں ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہیے
کہ اگر آج اتنے بے گناہ انسانوں کے قتل کے بعد طالبان کو اقتدار اور سیاست
میں شمولیت کاا نعام دیا گیا تو کل کو کئی اور دہشت گرد گروپ سامنے آجائیں
گے اور اقتدار اور سیاست میں شمولیت کا مطالبہ کریں گے۔یوں دہشت گردی منظم
طریقے سے ہماری سیاست کاحصہ بن جائیگی اور پاکستان کے اندر ایک اور اسرائیل
جنم لے لے گا۔
پاکستان میں ایک دوسرے اسرائیل کی تشکیل کی استعماری سازش کو روکنا ہم سب
کی دینی و ملی ذمہ داری ہے۔ |