23 مارچ 1940ءکے دن کو ہماری ملی
تحرےک و تاریخ مےں جو اہمےت حاصل ہے وہ محتاج بیان نہیں ہے، آج سے تہتر سال
قبل اس عظیم دن اقبال پارک (منٹو پارک) لاہور میں قرار داد لاہور منظور
ہوئی، جسے قرارداد پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔جب بھی ہر سال 23 مارچ کی سپےدہ
سحر نمودار ہوتی ہے تو اس کی کرنےں قوم کو اےک واضح پےغام دےتی ہےں کہ
غلامی کے ماحول کو پس منظر دھکےلنے کے لیے جرات و ہمت،پختہ ارادہ اور اپنے
موقف اور اصولوں پر ڈٹے رہنا چاہیے،اس دن مسلمانوں کے سمندر بے کراں نے ایک
آزاد مسلم وطن حاصل کرنے کا عزم مصمم کیا اور پھر اس کے حصول کے لیے
قربانیاں دینے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی اور نہ ہی کوئی دقیقہ فرگزاشت کیا۔
انگریز کی منافقت اور ہندو کی عداوت کے باوجود عزم و ہمت کے عوض اپنے
دیرینہ خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں کامیاب ہوئے۔
مسلمانوں نے برصغیر پر اےک ہزار سال کے لگ بھگ ایسی شاندار حکومت کی، جس کی
مثالیں مسلمانوں کے مخالفین بھی دیتے ہیں۔ مساوات، انصاف اور رواداری پر
عمل کرنے میں معمولی سی بھی کوتاہی نہیں برتی،ہر ایک کو اس کا پورا حق
دیا،اقلیتوں کو زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا نہ ہی کسی کو بلاوجہ
تنگ کیا۔ اس کے باوجودمسلمانوں کی حکومت کے زوال کے بعد انگرےزوں اور
ہندووں نے ہمیشہ مسلمانوں کے ساتھ معاندانہ اور ناانصافی پر مبنی متعصب
روےہ اپنائے رکھا۔ہر طرح سے مسلمانوں کو تنگ کیا۔
انگریزوں نے تقریباًدو سو سال تک برصغیر کے باسیوں کو غلام بنائے رکھا،ان
کے تمام تر ظلم و ستم کا نشانہ خصوصی طور پر برصغیر کے مسلمان بنتے
رہے۔مسلمان انگریزحکمرانوں کی سخت سے سخت سزاﺅں کے زیر اعتاب رہے۔انگریزوں
کی طرف سے مسلمانوں پر ظلم و سربریت کاہر طریقہ آزمایا گیا۔انہیں جلتی آگ
پہ کڑھتے تیل میں ڈال کر بھونا گیا اور درختوں پہ لٹکا کر پھانسی دی گئی۔
لیکن مسلمانوں نے کسی بھی موڑ پر انگریز کی غلامی کو قبول نہیں کیا،مسلسل
آزادی کے حصول کی جدوجہد کرتے رہے۔مایوسی کبھی بھی ان کے قدموں کی زنجیر نہ
بن سکی۔مسلمانوں کا شوق آزادی ذرا بھی مدہم نہ ہوا۔
جب انگریزوں نے سونے کی چڑیا برصغیر سے سب کچھ لوٹ لیا توانہوں نے جاتے
جاتے اپنے دیرینہ دشمن مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے شاطر و مکار قوم ہندوﺅں کی
غلامی میں دینے کا منصوبہ بنایا۔ ہندو چونکہ پہلے سے ہی مسلمانوں کے ساتھ
انتہا درجے کی دشمنی رکھتے تھے، کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ مسلمان باہر سے
آئے ہیں، یہاں کے اصل مالک ہم ہیں اور برصغیر میں صرف ایک ہی قوم آباد ہے
اور وہ صرف ہندو قوم ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو ہندوﺅں کے ماتحت رہنا ہوگا۔ جس
کے مقابلے میں قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال سمیت متعدد
مسلمان رہنماﺅں نے دو قومی نظریہ پیش کیا،جس کے مطابق مسلمان اور ہندو کسی
صورت بھی ایک قوم نہیں ہوسکتے،مسلمان ایک الگ قوم ہے۔ ان کی ہندوﺅں سے
ہرچیز جدا ہے، ان کی ثقافت و معاشرت، کھانا، پینا اور رہنے کا طریقہ تک
مختلف ہے۔ یہ کس طرح ایک قوم ہوسکتے ہیں؟۔ مسلمان اور ہندو سڑک کے دو
کناروں کی طرح ہیں جو کبھی بھی آپس میں نہیں مل سکتے۔مسلمان رہنماﺅں کا
کہنا تھا کہ آج تک اسلام اور کفر کبھی بھی یکجا نہیں ہوئے اور نہ ہی ایسا
ہونا ممکن ہے۔ دونوں کی مثال آگ و پانی، تاریکی و روشنی کی سی ہے۔اسلام
اپنی ایک الگ اعلیٰ و ارفع شناخت و حثیت رکھتا ہے۔ جس کو دنیا کی کوئی بھی
طاقت مٹا نہیں سکتی۔
ہندو چونکہ مسلمانوں کو انگریزوں کے بعد ہمیشہ کے لیے اپنا غلام بنانا
چاہتے تھے، اس لیے مسلمانوں کا یوں ہندوﺅں کی ہر بات کو رد کرنا ان پر بہت
ہی گراں گزرا۔جس کی پاداش میںانہوں نے مسلمانوں کو بلاوجہ تنگ کرنا شرع
کردیا۔دوسری جانب برصغیر میں ہندو اور دوسرے غیرمسلم مسلمانوں کی اسلامیت
سے متاثر ہوکر دھڑا دھڑ اسلام میں داخل ہورہے تھے، ہندوﺅں کو یہ بات برداشت
نہ ہوئی جس کی وجہ سے برصغیر کے ہندو مسلمانوں کے خلاف اور زیادہ بھڑک
اٹھے۔ انہوں نے مسلمانوں کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کیں۔ مسلمانوں
کے خلاف نفرت کی آگ میں بھڑکتے ہوئے ہندوﺅ نے مختلف طریقوں سے مسلمانوں کو
تنگ کرنا شروع کردیا، ہندوﺅں کو جب کبھی موقع ملا انہوں نے مسلمانوں کو زک
پہنچانے میں کسر نہ چھوڑی، ہمیشہ مسلمانوں کو حملہ آور اور اجنبی سمجھا اور
جب بھی انہیں اقتدار و قوت حاصل ہوئی انہوںنے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا
کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ مختلف اداور میں ہندﺅں کی جانب سے
مسلمانوں کے خلاف مذہبی تحریکیں چلائی گئیں۔گائے چونکہ ہندوﺅں کے نزدیک ایک
مقدس جانور ہے اور مسلمان اسے ذبح کرکے اس کا گوشت کھاتے ہیں، اسی بات پر
وقتاً فوقتاً اس مسلمانوں کے خلاف طوفان کھڑا کردیا جاتا۔
نتےجتاً مسلمانوں کو اےک علےحدہ وطن کا مطالبہ کرنا پڑا، کیونکہ انہوں نے
جان لیاتھاکہ جب تک مسلمان الگ سے اپنا ملک حاصل نہ کرلیں اس وقت تک ہندو
انہیں چین سے جینے نہیں دیں گے۔لہٰذاوہ الگ ملک پاکستان کی آزادی کے لیے
کمربستہ ہوگئے۔ مسلمان پاکستان کی آزادی کے لیے مکمل طور پر پر امید
تھے۔قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا: ”پاکستان اسی دن وجود میں آگیا
تھا جس دن ہندوستان میں پہلے ہندو نے اسلام قبول کیا تھا۔ یہ اس زمانے کی
بات ہے جب یہاں مسلمانوں کی حکومت بھی قائم نہیں ہوئی تھی۔ مسلمانوں کی
قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے نہ کہ وطن اور نسل۔ہندوستان کا پہلا فرد جب
مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا، وہ ایک جداگانہ قوم کا فرد
ہوگیا،ہندوستان میں ایک نئی قوم وجود میں آگئی۔“
اسی سلسلے میں 23 مارچ 1940ءکو اقبال پارک مےں لاکھوں انسان پورے برصغےر سے
جمع ہوئے، دور دور تک سر ہی سر نظر آرہے تھے، یوں معلوم ہوتا تھا کہ لاہور
میں انسانوں کا سمندر امنڈ آیا ہے۔ پہاڑوں کا سا عزم لیے ہجوم کا جوش قابل
دید تھا۔اس دن گویا کہ پاکستان کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا۔23 مارچ کو لاہور
کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تین روزہ سالانہ اجلاس کے اختتام پر
وہ تاریخی قرار داد منظور کی گئی تھی جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر
میں مسلمانوں کے جدا وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی اور سات برس کے بعد
اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی۔برصغیر میں برطانوی راج کی طرف سے
اقتدار عوام کو سونپنے کے عمل کے پہلے مرحلے میں 1936ئ/1937ءمیں جو پہلے
عام انتخابات ہوئے تھے ان میں مسلم لیگ کو ہزیمت اٹھانی پڑی تھی اور ان کے
اس دعویٰ کو شدید زک پہنچی تھی کہ وہ بر صغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ
جماعت ہے۔ اس وجہ سے مسلم لیگ کی قیادت اور کارکنوں کے حوصلے ٹوٹنے لگے اور
ان پر ایک عجب بے بسی کا عالم تھا۔لیکن جب نئے ملک کے حصول کی خاطر ٹھاٹھے
مارتا انسانوں کے سمندر نے لاہور میں جمع ہوکر قرارداد پیش کی۔تواس کے بعد
مسلمانوں کے حوصلے بلند ہوگئے اور انہوں نے ایک نئے عزم کے ساتھ اپنا الگ
ملک حاصل کرنے کی کوششیں تیز کردیں۔ پورے برصغیر میں آزادی کی تحریک نئے
عزم کے ساتھ شروع ہو گئی۔ انگریزوں، ہندووں نے تحرےک آزادی کو دبانے کی
ہرممکن کوشش کی لےکن پاکستان کے مطالبے سے مسلمان کسی بھی قےمت پر پےچھے نہ
ہٹے، ان کے اذہان وقلوب مےں صرف آزادی کا لفظ گردش کر رہا تھا۔ان کے ذہن
میں صرف ایک ہی بات تھی کہ کسی طرح ایک الگ ملک بنانا ہے جس کے لیے ہمیں
چاہے جتنی بھی قربانیاں دینی پڑیں دیں گے۔مسلمان آزادی کے حصول کے لیے
مسلسل جدوجہد کرتے رہے اور بالآخر اپنا الگ ملک پاکستان حاصل کرنے میں
کامیاب ہوگئے۔
23 مارچ کو منٹو پارک میں مسلمانوں نے ایک ایسے ملک کے حصول کا عہد کیا
تھا،جس میںامن ، چین و سکون سب کچھ ملے گا۔جہاں انصاف کا بول بالا
ہوگا۔بدیانتی و بدنیتی نہیں ہوگی۔بدعنوانی و خیانت کو اس ملک میںکہیں بھی
جائے پناہ نہیں ملے گی۔ظلم و زیادتی کا دور دور تک نام ونشان نہیں ہوگا۔لوگ
پیار و محبت سے رہیں گے۔کسی کی جان کوکوئی خطرہ نہ ہوگا۔اس ملک میں عدل
ہوگا صرف عدل۔ امیر وغریب کے لیے قانوں یکساں ہوگا۔لیکن یہ کیا ہوا؟ یہاں
تو سب کچھ اس کے الٹ ہوا ہمارے بڑوں نے جس کے لیے قربانیاں دی تھیں۔یہاں تو
دن دیہاڑے کسی کی جان محفوظ نہیں، لوگوں کو مسجدوں میں گھس کر قتل کردیا
جاتا ہے۔پورے ملک میں کہیںبھی امن وسکون کا نام و نشان نہیں ہے،انصاف صرف
کتابوں میں لکھا ہے۔لوگ بدعنوانی و خیانت کو اپنا حق سمجھتے ہےں۔ہر طاقت ور
ظالم اور ہر کمزور مظلوم ہے۔پیارو محبت ناپید ہوچکی ہے۔قوانین صرف غریبوں
کے لیے ہیں،امیر ہر قسم کے قانون سے ماورا ہیں۔
تہتر سال پہلے منٹو پارک میں جمع ہوکر ایک آئیڈل ملک کے حصول کا عہد کرنے
والے بزرگ حضرات اگر آج آکر اس ملک کی حالت دیکھ لیںتو شاید وہ یہ کہنے پر
مجبور ہوجائیںکہ ایسے ملک کو حاصل کرنے سے بہتر تو تھا کہ ہم اسے حاصل ہی
نہ کرتے۔یقیناً ہم سب نے مل کر ان بزرگوں ، ان کی قربانیوں اور قیام
پاکستان کے وقت اپنی جانوں کی نذرانے دینے والوں کی ناقدری کی ہے،انہوں نے
آج سے تہتر سال پہلے 23مارچ کو پاکستان بنانے کا عہد کیا تھا اوراسے پورا
کرکے دکھایا،آج ضرورت ہے کہ ہم سب مل کر اس ملک کو بچانے کا عہد کریں اور
اسے پورا کردکھائیں۔ اللہ تعالیٰ میرے ملک کا حامی و ناصرہو۔ آمین |