23مارچ کے تقاضے

آج 23 مارچ ہے. ہر سال کی طرح اس سال بھی ہم 23 مارچ کو اسی ''روایتی ،،جوش و جذبے سے منارہے ہیں جیسے کہ ہم گذشتہ ایک عرصے سے مناتے چلے آرہے ہیں .لیکن کیا ہم 23 مارچ کو اس انداز اور طریقے سے منارہے ہیں جیسا کہ اس کے منانے کا حق ہے؟ تو میں سمجھتا ہوں کہ ہرگز نہیں .بلکہ اگر سچ لکھوں تو وہ یہ ہے کہ ہم اگر چہ اس دن کو منا تو رہے ہیں لیکن اس دن کے پس منظر و پیش منظر کو سامنے رکھے بغیر.بس جب 23 مارچ قریب آتا ہے تو حکومت سرکاری تعطیل کا اعلان کردیتا ہے .اور پھر 23 مارچ والے دن اگرچہ حکومت، بعض تنظیمیں اور سیاسی پارٹیاں اس دن کے مناسبت سے مختلف پروگرام کے انعقاد کرلیتی ہے .لیکن ان میں سے اکثر قرارداد پاکستان کے روشنی میں چلنے کو تیار نہیں . جبکہ عوامی سطح پر ہماری لاپرواہی کا عالم یہ ہے کہ ہم اس انتہائی اہم دن کو ''نعمت غیر مراقبہ،، تصور کرکے یا تو سارا دن آرام کرتے رہتے ہیں یا پھر سیروتفریح کے نیت سے سیاحتی مقامات کا رخ کرلیتے ہیں .حالانکہ اگر ہم تھوڑا سا غور کرلے تو 23 مارچ کا یہ دن چیخ چیخ کر ہم سے ایک مطالبہ کررہا ہے، یہ دن ہمیں اس مشن کا یاد دلاتا ہے جو ہمارے بزرگوں نے شروع کیا تھا اور جسے پایہ تکمیل تک پہنچانا ہم پر واجب ہے،یہ دن ہمیں وہ وعدے بھی یاد دلاتا ہے جو ہم نے اس وقت اپنے آپ اور مسلمانان ہند سے کئیں تھے.وہ مشن اور وعدے کیا ہے ؟ ملاحظہ فرمائیں.

یہ جمعرات22 مارچ 1940 کی بات ہے جب آل انڈیا مسلم لیگ کا ستائیسواں اجلاس (منٹوپارک( موجودہ اقبال پارک لاہور میں شرع ہوا ،جمعتہ المبارک 23 مارچ کو مولوی ابوالقاسم فضل الحق 'جسے لوگ شیر بنگال مولوی فضل الحق کے نام سے جانتے ہیں ،نے وہ قرارداد پیش کی جسے آج ہم قرارداد پاکستان کے نام سے جانتے ہیں .شیر بنگال نے قرارداد انگریزی زبان میں پیش کی جن کا اردو ترجمہ مولانا ظفر علی خان نے کیا .یہ قرارداد اگلے اور اجلاس کے اخری دن یعنی 24 مارچ کو منظور ہوئی.

لیکن اس قرار داد میں وہ کونسی ایسی خاص بات تھی جس پر چل کر مسلمان صرف سات سال کے قلیل عرصے میں ایک ازاد اسلامی مملکت حاصل کرنے میں کامیا ب ہوئے؟ میں سمجھتا ہوں کہ یہ قائدین کے دلوں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کا فکر اور اسلام سے محبت کا جذبہ تھا. جس پر چل کر وہ اپنے مشن میں کامیاب رہے .اور اس بات کا اندازہ ہم قرارداد پاکستان کے اس اجلاس میں قائدین کے خطبات سے بخوبی لگاسکتے ہیں.بابائے قوم محمد علی جناح نے 22 مارچ کے اپنے صدارتی خطاب میں دو ٹوک الفاظ میں فرمایا کہ '' ہندو اور مسلمان صرف دو مختلف قومیں ہی نہیں بلکہ دو الگ الگ تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں قائد نے کہا کہ ہندو اور مسلمانوں کے مذاہب الگ ، ان کے طرز معاشرت ، رسم ورواج الگ ان کے اداب الگ ، نہ تو یہ دونوں اکھٹے کھانا کھا سکتے ہیں اور نا ہی آپس میں شادیاں کرسکتے ہیں .بلکہ خیالات و تصورات سے لیکر زندگی کے ہر پہلو اور ہر زاویے سے ہندو اور مسلمان آپس میں ایک نہیں ہوسکتے .انہوں نے مزید کہا کہ بسا اوقات ان دونون اقوام میں کسی ایک ہیرو دوسرے کا دشمن اور کسی ایک کی فتح دوسرے کی شکست ہوتی ہے ، لہذا مسلمانوں کے لیئے ایک ایسے وطن کو حاصل کرنا اب ناگزیر ہوچکا ہے جس میں وہ اسلامی اقدار کے مطابق زندگی گزارسکے.

قاضی محمد عیسی جو کہ قائد کے ایک با اعتماد ساتھی تھے .انہوں نے اپنے خطاب مین کہا کہ جب مسلمان ازادی حاصل کر لیں گے تو ان صوبوں کے مسلمانوں کو جو اقلیت میں ،کبھی فراموش نہیں کریں گے بلکہ ان کے قنضہ قدرت میں جو کچھ بھی ہوگا ،اس سے ان کی مدد ضرور کرینگے.اسکے علاوہ ہمارے ایک اور رہنما سید عبدالرؤف شاہ جو محمد علی جناح کے خاص ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے نے اپنے خطاب میں کہا کہ میرا تعلق ایک ایسے صوبے سے ہیں جہاں مسلمان چند فیصد یہ ہے جن پر آزادی کے بعد کانگریس ظلم کے پہاڑ ضرور توڑینگے ،لیکن ان تمام باتوں پر صبر کرکے ہم صرف اس لیئے پاکستان کی حمایت کررہے ہیں کہ ہمارے بھائی تو آزادی کے نعمت سے بہرہ ور ہوں گے اور پاکستان میں اسلام کا بول بولا ہوگا .

سر عبداللہ ہارون جو کہ تحریک پاکستان کا ایک اہم رہنما تھے .انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ اگر ہندو صوبوں میں مسلمانوں کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کیا گیا تو مسلم صوبوں کے مسلمان اس پر خاموش نہیں رہیں گے .بلکہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کا پورا پورا ساتھ دیں گے.

قارئین گرامی! اپنے بزرگوں کے بیانات میں سے چند آپ نے ملاحظہ فرمالئیں ہیں کہ وہ کیوں اور کس مقصد کے لیئے ایک آزاد مسلم مملکت حاصل کرنا چاہتے تھے.ان کا مقصد صرف اور صرف یہی تھا کہ آزاد پاکستان میں مسلمان نہ صرف اللہ تعالی کے احکام اور نبی مہربان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر زندگی بسر کرینگے بلکہ اپنے پیچھے رہ جانے والے مسلمانان ہند کو بھی نہیں بھولینگے بلکہ انکی ہر طرح سے مدد کریں گے. اور یہ سچ ہے کہ ہمارے قائدین نے قوم سے جو بھی وعدے کئیے وہ انہوں نے اللہ تعالی کے مہربانی سے پورے کر دکھائے .لیکن بہت ہی آفسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ بزرگان ملت کے جانے کے بعد ہم نے انکے سب خواب چکنا چور کردئیے ،ہم نے اپنے بزرگوں کے سب وہ تمام اقوال ردی کے ٹوکری میں ڈال دیئں جن پر چل کر ہم دنیا کی رہنمائی کرسکتے تھے. ہم انڈین مسلمانوں کی کیا مدد کرتے ہم نے تو اپنی ناعقبت اندیشیوں سے اپنا ادھا ملک گنوادیا .نا صرف ادھا ملک گنوادیا بلکہ جو بچ گیا وہ بھی امریکی احکامات کے روشنی میں چلانے لگے جس کے نتیجے میں آج پورے ملک میں آج ہر طرف افراتفری کا دور دورا ہے .کراچی سے لے کر خیبر تک گوادر سے کشمور تک اور گلگت سے مظفر آباد تک نہ کسی کی جان محفوظ ہے اور نا ہی مال و آبرو اور ان سب کا سبب حکمرانوں کی ناعاقبت اندیشیوں سمیت ہمارے اعمال بھی ہے .کیونکہ ہم ایک تاریخی پس منظر رکھنے والی نظریاتی قوم ہے اور جب تک ہم اپنے نظرئیے سے وفاداری نہیں کریں گے تب تک مسائل کے دلدل سے نکلنا ہمارے لیئے ممکن نہیں . لہذا اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم مسائل کے دلدل سے نکل کر دنیا میں ایک باوقار مقام حاصل کرے تو پھر اس 23 مارچ سے ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا کہ ماضی میں ہم سے جو غلطیاں ہوچکی ہیں ہم اسے دہرانے کی بجائے ان غلطیوں سے سیکھ انکا ازالہ کرینگے . اگر ہم نے ایسا کیا تو پھر بہت جلد نہ صرف ہم اپنے تمام مسائل پر قابو پالیں گے بلکہ بہت دنیا میں ایک باعزت مقام بھی حاصل کر لینگے. انشاء اللہ-
Saeed ullah Saeed
About the Author: Saeed ullah Saeed Read More Articles by Saeed ullah Saeed: 113 Articles with 124843 views سعیداللہ سعید کا تعلق ضلع بٹگرام کے گاوں سکرگاہ بالا سے ہے۔ موصوف اردو کالم نگار ہے اور پشتو میں شاعری بھی کرتے ہیں۔ مختلف قومی اخبارات اور نیوز ویب س.. View More