آلواچھاہی ہوا..!کہ حکومت اور
اپوزیشن کی ضد اور ہٹ دھرمی اور اِن کی مفادات کی لڑائی کے باعث نگران
وزیراعظم کا فیصلہ اِن کے ہاتھوں سے نکل گیاناں...!اور اَب نگران وزیراعظم
کا فیصلہ الیکشن کمیشن ہی کریگا ، ایسے پہلے ہی دن یہ فریضہ خود ہی
اداکردیناچاہئے تھا، جو ہوااچھاہی ہوا..مگرپھر بھی میں یہ کہناچاہوں گا کہ
کیا ہی اچھاہوتا..کہ نگران وزیراعظم کے چناو ¿ کا معاملہ الیکشن کمیشن کے
ہاتھ نہ جاتا...اورقبل اِس کے کہ دونوں (حکومت اور اپوزیشن کی )جانب سے
ذراسی لچک کا مظاہرہ کیاجاتااور یہ جمہوری طریقے سے غیر متنازعہ نگران
وزیراعظم کا چناو ¿ کرلیتے تو دنیا میں یہ تاثر ضرورجاتاکہ پانچ سال تک
حکومت اور اپوزیشن والوں( بڑے چھوٹے بھائیوں زرداری اور نواز ) نے اپنے جس
جمہوری عمل کو جاری رکھنے کے لئے سب کچھ چھوڑچھاڑ کر پانچ سال تک قوم کو
توانائی کے بحرانوں سمیت دیگر مسائل میں جکڑااور مُلک کی معیشت کا ستیاناس
کیے رکھا،اوراِنہوں نے اِس دوران ا پنی جس لولی لنگڑی جمہوریت کو مصالحتی
اور مفاہمتی بیساکھیوں کے بل پر قائم رکھا،اِس جمہوری عمل کا اختتام بھی
حکومت اور اپوزیشن والوں نے باہمی اتفا ق اور اتحاد سے نگران وزیراعظم کا
معاملہ حل کرکے جمہوری حق بھی اداکردیاہے ۔مگرآج افسوس تو اِس بات کا ہے کہ
حکومت کو ختم ہوئے کوئی ایک ہفتے سے بھی زاید کا وقت گزرچکاہے مگر نگران
وزیراعظم کا چناو ¿ عمل میں نہیں لایاجاسکا ہے، اِس حوالے سے سابقہ حکومت
اور اپوزیشن کے اراکین سر جوڑ کر تو بیٹھے رہے، مگریہ اِس معاملے میں بھی
اپنے اپنے سیاسی و نظریاتی اختلافات اور ذاتی مفادات کو نہ چھوڑسکے، وہ
حکومت کے خاتمے کے بعد بھی اِس روش کا شکار رہے کہ نگران وزیراعظم ایسا ہو
جو مُلک و قوم سے زیادہ اِن کے مفادات اور نظریات کے طابع رہے،جیسایہ چاہیں
اور اُس سے کہیںوہ ویساہی کرتارہے۔
بالآخرنگراں وزیراعظم پر اتفاق رائے کے لئے جو آٹھ رکنی پارلیمانی کمیٹی
بنائی گئی تھی اِس کا تین روزتک زوروشور سے جاری رہنے والااجلاس مایوسیوں
کے ساتھ بے نتیجہ ثابت ہوکرختم ہوگیااَب جس کے بعد نگراں وزیراعظم کا فیصلہ
الیکشن کمیشن کرے گااگرچہ پارلیمانی کمیٹی میں شامل اراکین اور
سیاستدانوںنے نگراں وزیراعظم کے تقرری کے معاملے پر نا کامی کا اعتراف
ضرورکرلیا ہے، ورنہ توجب تک یہ حکومت میں رہے ہمیشہ اپنے مفادات اور ذاتی
فوائد کے لئے نوراکشتی ہی کرتے رہے، اِنہوں نے اِس دوران اپنی ذاتی اور
مفاداتی لڑائی میں مُلک اور قوم کا بیڑاغرق کرنے میں کوئی کسر نہیں رکھ
چھوڑی ، جب کہ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ نگراں وزیراعظم کے چناو ¿ کے
معاملے میں اِن کی ناکامی کے اعتراف سے قوم کو یہ تو معلوم ہوگیاہے کہ
حکومت اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے دونوں جماعتوں کے سیاستدانوں نے کسی
بھی مُلکی معاملے میں پچھلے پانچ سالوں میں کوئی ایسا سچ بول نہیں بولاکہ
اِس سے قوم کا اِن پر اعتماد بحال ہوتا، مگرنگراں وزیراعظم کے معاملے میں
اِن کا اپنی ناکامی کا اعتراف کرلینایہ ضرور ظاہر کرتاہے کہ اِنہوں نے اپنے
اِس سچ سے قوم کو اعتماد میں لینے کی اپنے تئیں کوشش کی ہے ، ورنہ تویہ لوگ
ہمیشہ جھوٹ ہی بولتے آئے ہیں۔اور پانچ سال تک حکومت او راپوزیشن والے مُلک
اور قوم کے مفادات کے حوالوں سے اپنے کئے جانے والے ہر فیصلے میں یوں ہی
قوم کو بے وقوف بناتے رہے ہیں،اوردوسری جانب معصوم پاکستانی قوم اِس اُمید
پر رہی کہ آج نہیں تو کل حکومت اِن کے مسائل کا مداواکردے گی ،مگر پانچ سال
بعد قوم کو احساس ہواکہ حکومت اور اپوزیشن والے توسِوائے اِسے پانچ سالوں
میں جھوٹی تسلی اور تسکین دینے کے کچھ نہ کرسکے، اور آج یہ اپنی مدت پوری
کرکے کھسک گئے ہیں۔اور اگلی بار پھر منتخب ہونے کے لئے قوم کو جھوٹ کے
سہارے شیشے میں اُتارنے کے ڈھنگ لئے میدانِ سیاست میں کودپڑے ہیں۔
اگرچہ یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ ”سچ بولنا مشکل ضرور ہے مگر اِس سے بہت سی
آسانیاں پیداہوجاتی ہیں ،اور یہ بھی کہ سچائی کامیابی کا سبب اور جھوٹ
رسوائی کا موجب ہے مگر پھر بھی آج اِس میں کوئی شک نہیں کہ مجھ سمیت ہر
اِنسان اور بالخصوص میرے مُلک کے ساڑھے اٹھارہ کروڑ عوام ایسے ہیں جو سچ
کہنے اور سُننے سے کتراتے ہیں، اِس کی کیا وجہ ہے ..؟اِس بحث میں گئے تو
بات کہیں کی کہیں نکل جائے گی، اور میں اپنے موضوع سے ہٹ جاو ¿ں گابہرحال
اتنا کہہ دیناہی کافی ہے کہ ہرچیز کا زیورخُوب صورتی ہے لیکن دل کا
زیورسچائی ہے اور سچاشخص اگر کسی مصلحت کے تحت جھوٹ بھی بولے تو لوگ اِس کو
سچ سمجھیں گے اور جھوٹااگر سچ بھی بولے تو لوگ اِس کو جھوٹ سمجھیں گے۔جبکہ
یہ حقیقت ہے کہ وفاق سمیت صوبوں میں نگران حکومتوںکے قیام کے معاملے میں
حکومت اور اپوزیشن والوںکو محتاط اندازاپناچاہئے تھا، جس کے لئے یہ کہیں
بہت زیادہ محتاط اور کہیں اپنے مفادات کا خیال کرتے نظرآئے، یہی وجہ ہے کہ
جن دوصوبوں میں نگران وزرائے اعلیٰ کا چناو ¿ عمل میں لایاجاچکاہے اِن میں
حق و سچ کاگلاگھونٹ کراپنے اپنے سیاسی مفادات اورنظریات کا خیال
رکھاگیاہے،اور ایسے لوگوں کو وزرائے اعلیٰ کے لئے منتخب کیا گیاہے،
جونظاہرتوکسی جماعت سے سیاسی وابستگی تو نہیں رکھتے مگراِنہوں نے اپنی
انفرادی حیثیت سے کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی معاملے میںجو بھی کام کئے
ہیں، اِن کے دل میں حکومت کے لئے نرم گوشہ ضروررہاہے،اِن کے اِس ہی نرم
گوشے پر نظررکھنے والے سیاستدانوں نے اِن کے وزرائے اعلیٰ کے انتخابات کو
رائی کا پہاڑ بناکر اِن کی انفرادی حیثیت کو بھی جانبداری کا مظہرسمجھ کر
متنازعہ بنادیاہے،اگر واقعی ایساکچھ ہے تو پھر الیکشن کمیشن کو اِس معاملے
میں بھی ضرور کچھ کرناچاہئے، تاکہ مُلک میں وفاق کی طرح صوبائی وزرائے
اعلیٰ کا انتخاب بھی صاف وشفاف اور غیرمتنازعہ شخصیات کے حوالے سے ہوجائے،
اور وفاق سمیت صوبوں میں غیرمتنازعہ حکومتوں کا قیام ہو ، اور اِن
غیرمتنازعہ حکومت کے زیرنگرانی ہونے والے انتخابات کے بعد مستحکم حکومت
کاقیام ہو۔ ۔ختم شُد |