اس مرتبہ کے انتخابات ہماری قوم
کی طرح طالبان کے لئے بھی نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔اسلام کے ٹھیکیداروں نے
اب تک ملت ِ پاکستان کا جتنا بھی قتلِ عام کیاہے اب وہ چاہتے ہیں کہ اس قتلِ
عام کے صلے کے طور پرانہیں ایک سیاسی طاقت تسلیم کیا جائے اور اس طرح وہ
ایک نام نہادسیاسی عمل سے گزر کر کے ملت پاکستان کے سینے پر چڑھ بیٹھیں ۔
امریکہ اور طالبان کے باہمی گٹھ جوڑ کے سینکڑوں شواہد میں سے ایک یہ بھی ہے
کہ ۲۰۰۹میں جب پاک فوج نے وزیرستان میں آپریشن شروع کیا تو نیٹو فورسز نے
افغانستان کی طرف کی چوکیاں یکدم خالی کردیں تاکہ وہاں سے افغانی با آسانی
وزیرستان میں داخل ہو سکیں۔اس وقت وزیر داخلہ رحمان ملک نے بیان دیا کہ ہم
نے اس بارے میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروادیاہے ۔
طالبان کے ہاتھوں نہ صرف یہ کہ امریکہ اپنے مفادات حاصل کررہاہے بلکہ
طالبان ہر اسلام دشمن اور مسلم کش ملک اور ایجنسی کے ساتھ بھی جڑے ہوئے ہیں
جیساکہ جولائی 2009ء میں سوات اور فاٹا میں گرفتار ہونے والے طالبان سے جن
میں افغانی طالبان بھی شامل تھے ان سے بھارتی کرنسی اور اسلحے کے علاوہ
امریکہ کے جاری کردہ آپریشن انڈیورنگ فریڈم کے کارڈ بھی ملے اور اس حقیقت
کا انکشاف ۱۲جولائی ۲۰۰۹ کو پاکستانی اخبارات نے کیا ۔
اسی طرح نومبر 2009ءمیں ہی پاک فوج کے ترجمان اطہر عباس نے پریس کانفرنس سے
خطاب کرتے ہوئے بتایا تھا کہ وزیرستان میں جاری آپریشن راہ نجات کے دوران
بھارتی روابط کے ناقابل تردید ثبوت ملے ہیں۔ دہشت گردوں کے زیرِ استعمال
بھارتی لیٹریچر اور اسلحہ بھی پکڑا گیا ہے۔ان کے مطابق مناسب کاروائی کے
لئے یہ شواہد وزارت خارجہ کو بھجوا دیے گئے تھے۔
جب اس طرح کے حقائق مسلسل منظرِ عام پر آنے لگے تو طالبان کو تحفظ دینے کی
خاطر ہمارے حکومتی اداروں میں بیٹھے ہوئے طالبان نواز کارندوں نےطالبان کو
کئی ناموں اور ٹولوں میں تقسیم کردیا،مثلا ،افغانی طالبان،پٹھان
طالبان،مہاجر طالبان،پنجابی طالبان،سندھی طالبان۔۔۔ پاکستانی خفیہ اداروں
کی ایک رپورٹ میں طالبان کو 34 تنظیموں میں تقسیم کیا گیا ۔
یہ سب طالبان کی مدد کرنے کی بہترین چال ہے تاکہ لوگوں سے کہاجائے کہ فلاں
طالبان برے ہیں اور فلاں طالبان تو بہت نیک،متقی اور اللہ والے ہیں۔
اسی طرح طالبان نے بھی اپنے استعماری آقاوں کو خوش کرنے کے لئے بری امام سے
لے کر عبداللہ شاہ غازی تک اور مام بارگاہوں سے لے کر مساجد تک بے دردی کے
ساتھ بے گناہ انسانوں کا قتلِ عام کیاہے ،انہوں نے مخلص اور دیانتدار
سرکاری افیسروں کو موت کے گھاٹ اتار کر ملت پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان
پہچایا،انہوں نے فرقہ واریت کا جھوٹا نعرہ لگاکر ہماری ملت کو بہترین
ڈاکٹروں،انجینئروں ،پروفیسروں اور شعرا سے محروم کیا۔
طالبان کے جرائم کی فہرست صرف طویل ہی نہیں بلکہ وحشتناک بھی ہے۔طالبان نے
عوام الناس کا صرف قتلِ عام نہیں کیا بلکہ وحشت و بربریت کی دل دہلا دینے
والی داستانیں رقم کی ہیں۔طالبان نے نہتے اور بے گناہ انسانوں پر ایسے ایسے
مظالم کے پہاڑ توڑے کہ جنکے ذکر سے ہی پتھروں کا جگر بھی آب ہوجاتاہے اور
ہلاکو اور چنگیز کا سر بھی شرم سے جھک جاتاہے۔
آپ صرف اور صرف ۱۴ اگست ۲۰۰۷ کو طالبان کے ہاتھوں شہید ہونے والے " لانس
نائیک لائق حسین" کے قتل کے درد ناک مناظر کو دیکھیں۔پاکستان کے یومِ آزادی
کے روز دشمنان پاکستان نے اس فرزندِ اسلام اور فرزندِ پاکستان کو اس بے
دردی کے ساتھ ذبح کیا کہ اب رہتی دنیا تک جب بھی درندگی اور بربریت کی مثال
دی جائے گی ،سب سے پہلے " لانس نائیک لائق حسین" کی شہادت کا ذکر ہوا کرے
گا۔
اگر طالبان کی کوئی دینی بنیاد ہوتی تو وہ کم از کم اتنا توسوچتے کہ اس طرح
بے گناہ انسانوں کو قتل کرنے کی دین اجازت نہیں دیتا۔بلکہ بانی اسلام حضرت
محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت تو یہ ہے کہ آپ [ص] حالتِ جنگ میں بھی سپہ
سالاروں کو حکم دیاکرتے تھے کہ خبردار کوئی بے گناہ انسان نہ مارا
جائے،بھاگتے ہوئے کا پیچھا نہیں کرنا،جو دروازہ بند کردے اسے کچھ نہیں
کہنا،کسی زخمی پر تلوار نہیں کھینچنا،خواتین اور بچوں پر ہاتھ نہیں
اٹھانا،فصلوں کو تباہ نہیں کرنا اور اسیروں کو قتل نہیں کرنا۔دینِ اسلام
میں اگر جانور کو بھی ذبح کیا جائے تو اس کے بھی خاص احکامات ہیں اور ان
میں سے بھی ایک خاص حکم یہ ہے کہ جانور کو پہلے پانی پلاو۔شکار کے لئے بھی
حکم ہے کہ محض سیر و تفریح کے لئے جانوروں کی جانوں کا اسراف نہ کرو۔
کہاں دینِ اسلام کی کریمانہ تعلیمات اور کہاں طالبان کا وحشی پن۔طالبان کے
کرتوت ہم سب کے سامنے ہیں ۔یہ لوگ فکری اور عملی طور پر پیغمر اسلام ﷺ کے
عین مخالف ہیں۔درندگی ان کا دین ہے،وحشت و بربریت ان کی شریعت ہے اور ظلم و
ستم ان کی سیرت ہے۔
موجودہ دور میں دنیا کے اندر طالبان کی طرز کا بے دین اور وحشی صرف اور صرف
ایک گروہ ہے جسے "صیہونی"کہاجاتاہے۔جس طرح طالبان اگرچہ اپنے آپ کو مسلمان
کہتے ہیں لیکن دین اسلام کے عین مخالف ہیں،اسی طرح صیہونی بھی اپنے آپ کو
یہودی کہتے ہیں لیکن عملی طور پر دین یہودیت کے عین خلاف ہیں اور دونوں کی
قدرِ مشترک یہ ہے کہ دونوں امریکہ و برطانیہ کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے
ہیں۔جس طرح مسلمان طالبان سے بیزار ہیں اسی طرح یہودی بھی صیہونیوں سے
متنفر ہیں۔
طالبان اور صیہونیوں کے جنم اور باہمی اتحاد کا حقیقی نقشہ کچھ اس طرح سے
ہے کہ موجودہ دور میں استعماری دنیا اچھی طرح یہ جانتی ہے کہ اگر اسرائیل
کا خاتمہ ہوگیا تو اسلامی دنیا سے استعماری مفادات کی بساط لپٹ جائے
گی۔چنانچہ امریکہ و برطانیہ اسرائیل کو ہر صورت میں قائم رکھنا چاہتے ہیں
اور اس وقت وہ پوری توجہ اور یکسوئی کے ساتھ اسرائیل کی بقاء کی جنگ لڑ رہے
ہیں۔
دنیاء اسلام کے قلب میں واقع ہونے کے باعث اسرائیل کو حقیقی خطرہ صرف اور
صرف مسلمانوں سے ہے۔استعماری طاقتوں کومسلمانوں کے درمیان ایک ایسے طبقے کی
ضرورت تھی جو بظاہر نہ صرف یہ کہ مسلمان ہو بلکہ خوارج کی طرح ایک ٹھوس قسم
کا سچا اور پکا مسلمان نیز مجاہدبھی ہو جبکہ فکری طور پر مکمل صیہونی ہو
اور مسلمانوں کے درمیان رہ کر صیہونی مفادات کا تحفظ کرے۔
اسرائیل کے تحفظ کی خاطرلوگوں کو اسلام اور جہاد سے متنفر کرناامریکہ و
برطانیہ کے لئے ضروری ہوچکاہے۔ انہیں ایک ایسے گروہ کی ضرورت تھی جو مسلمان
اور مجاہد بن کر لوگوں پر اس قدر شب خون مارے کہ،چرچ،کلیسا،عوامی
مراکز،بازار، مساجد،امام بارگاہیں اور اولیاء کرام کے مزارات سمیت کچھ بھی
محفوظ نہ رہے تاکہ مسلمانوں کو اسرائیل کے خاتمے کے بجائے اپنی زندگی کی
فکر پڑجائے۔
اس گروہ کی تشکیل کے مراحل سعودی عرب اورپاکستان کے استعمار نوازحکمرانوں
کی باہمی رضامندی سے انجام پائے اور پھر سادہ لوح مسلمانوں کے مخلص اور
دیندار بچوں کو دینی مدارس کے سائے میں جہادی کیمپوں میں بھرتی کیا جانے
لگا۔ان جہادی کیمپوں کی آوٹ پٹ آج ہم سب کے سامنے ہے جسے دیکھ کر ہم بخوبی
یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ان کیمپوں میں بھرتی کئے جانے والے بچوں کو سو فی صد
صیہونیت کے عقائد کے مطابق تربیت دی گئی ہے۔
یہاں پر یہ عرض کرتا چلوں کہ اگر کسی کو صیہونیت و طالبان کے فکری و عقیدتی
رابطے کا یقین نہ آئےتو وہ دل کھول کر تاریخ صیہونیت اور تاریخ طالبان پر
تحقیق کرئے اور پھر بلاتعصب صیہونی عقائد و افکار کا طالبان کے عقائد و
افکار کے ساتھ موازنہ کرلے۔
ہر تجزیہ و تحلیل اور ریسرچ و تحقیق کرنے والا بہت جلد اس نتیجے پر پہنچ
جاتا ہے کہ جوکام ماضی میں منحرف یہودی کرتے تھے ،مثلاً لوگوں کے گلے
کاٹنا،عوامی مراکز کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا،مستحکم ممالک کو متزلزل
کرنا،عورتوں کا استحصال کرنا،دین کے نام پر لوگوں کو ظلم و بربریت کی طرف
دعوت دینا،پر امن بستیوں کو آن واحد میں کھنڈر بنا دینا،اپنے سوا باقی سب
کو گمراہ سمجھنا،دوسرے مکاتب کے مفکرین اور سکالرز کو قتل کرنا،لاشوں کو
درختوں اور بجلی کے کھمبوں لٹکانا،پرامن بستیوں میں خوف و ہراس
پھیلانا،انسانوں کو جانوروں کی طرح ہلاک کرنا اور آستین کا سانپ بن کر ڈسنا
۔۔۔وغیرہ وغیرہ آج یہ سارے کام استعماری جہادی کیمپوںمیں تربیت پانے والے
طالبان کررہے ہیں اور ان کا ادعا ہے کہ وہ آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔۔۔۔۔
اس وقت استعماری ایجنڈے کے مطابق طالبان کو میدان سیاست میں لانے کا کام
کیاجارہاہے اور شاید یہ طالبان کے ساتھ کئے گئے امریکہ کے خفیہ معاہدوں کی
تکمیل کا ایک مرحلہ بھی ہو۔ممکن ہےطالبان کو امریکہ پاکستانیوں کے قتل عام
کا صلہ انہیں پاکستانی سیاست میں شمولیت کی صورت میں دینا چاہتاہو بالکل
ایسے ہی جیسے یہودیوں کو نام نہاد ہولو کاسٹ کا صلہ اسرائیل کی صورت میں
دیاگیا۔
پاکستان کے اندر بدمعاشی اور غنڈہ گردی کی بنیاد پر ایک اسرائیل نما ریاست
تشکیل دینے کے لئے اس وقت طالبان کی امیدوں کے تین محور ہیں۔ایک محور کو
ڈاکٹر عبدالقدیر خان،نواز شریف،مولانا فضل الرحمن اور منور حسن جیسی شخصیات
تشکیل دیتی ہیں۔ایسے لوگ ڈنکے کی چوٹ پر طالبان کو ایوانِ اقتدار میں
بٹھانے کی باتیں کرتے ہیں۔دوسرا محور عام لوگوں کی نظر سے مخفی ہے،یہ محور
اُن لوگوں سے تشکیل پاتاہے جو بظاہر طالبان کے شدید مخالف ہیں لیکن درپردہ
اپنے مفادات کے حصول کے لئے اور اپنے مخالفین کو راستے سے ہٹانے کے لئے
طالبان کے سیاسی پارٹنر ہیں۔یہ عوام النّاس کو دبے لفظوں میں طالبان سے
ڈراتے ہیں اور انہیں مشورے کے طور پر یہ سمجھاتے ہیں کہ اگر طالبان سے
مذاکرات نہ کئے گئے تو نہ ہی یہ قتل و غارت رک سکتی ہے اور نہ ہی ملک کی
حالت تبدیل ہوسکتی ہے۔یہ لوگ خود بھی طالبان کی مانند کشت و خون پر عمل
پیراہیں اور پاکستان کی سیاست میں دہشت گردی کے ذریعے داخل ہونے کا دروازہ
کھولنا چاہتے ہیں۔چنانچہ عوامی سطح پر یہ لوگ طالبان کو اقتدار میں لانے کے
لئے ماحول بنانے میں سرگرمِ عمل ہیں۔
طالبان کی امیدوں کا تیسرا محور نگران حکومت ہے۔ نگران حکومت کے دوران
طالبان کی پوری کوشش رہے گی کہ ظالمانہ کاروائیوں میں اور زیادہ شدت لائی
جائے تاکہ انتخابات کے بروقت انعقاد کے لئے نگران حکومت، طالبان کے ساتھ
مذاکرات کے لئے مجبور ہوجائے ۔
ہم جس علاقے اور فرقے سے بھی تعلق رکھتے ہوں ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہیے
کہ اگر آج اتنے بے گناہ انسانوں کے قتل کے بعد طالبان کو اقتدار اور سیاست
میں شمولیت کاا نعام دیا گیا تو کل کو کئی اور دہشت گرد گروپ سامنے آجائیں
گے اور اقتدار اور سیاست میں شمولیت کا مطالبہ کریں گے۔یوں دہشت گردی منظم
طریقے سے ہماری سیاست کاحصہ بن جائیگی اور پاکستان کے اندر ایک اور اسرائیل
جنم لے لے گا۔
پاکستان میں ایک نئے اسرائیل کی تشکیل کی استعماری سازش کو روکنا ہم سب کی
دینی و ملی ذمہ داری ہے۔ |