راقم کی جانب سے نگراں وزیراعظم
کیلئے لازم ”صفات “کی روشنی میں پاکستان کے سینئر ترین و کہنہ مشق اور
دیانتدار و غیرجانبدار سیاستدان معراج محمد خان کانام نگراں وزیراعظم کیلئے
پیش کئے جانے اور الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری و انتخابی عمل کو شفاف
بنائے جانے کے عزم کو دیکھتے ہوئے راقم کو یہ یقین تھا کہ الیکشن کمیشن کے
پا س نگراں وزیراعظم کی تقرری کا اختیار آیا تو ان کی نگاہ انتخاب معراج
محمد خان پر ہی ٹہرے گی مگر بوجوہ ایسا نہیں ہوا اور اس کی وجہ شاید یہ ہے
کہ” آزادی عدلیہ“ تحریک کے نتیجے میں جو عدلیہ وجود میں آئی اور اس عدلیہ
نے اپنا جو فعال کردار نبھایا اس کے بعدقوم اس شعبے کے افراد کو ہی” با
اعتبار“ سمجھنے لگی ہے اور سیاسی قیادت ہمیشہ عوامی مزاج کے مطابق فیصلوں
کے ذریعے مفادات کی تکمیل کی روایت قائم کرتی چلی آئی ہے یہی وجہ ہے کہ چیف
الیکشن کمشنر کے عہدے کیلئے بھی جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم کے نام پر ہی
اتفاق رائے ہوا اور نگراں وزیراعظم کیلئے سیاسی قیادتوں نے بھی ریٹائرڈ جج
صاحبان کے نام ہی پیش کئے جبکہ الیکشن کمیشن نے بھی سیاسی قیادتوں کے کسی
ایک نام پر عدم اتفاق کی صورت جسٹس (ر) میرہزار خان کھوسو کو نگراں
وزیراعظم مقرر کرکے قوم کے مزاج سے آشنائی کا ثبوت دیا ہے اور اس پریکٹس کی
روشنی میں چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ کے
محلوں میں بھی ریٹائرڈ جج صاحبان کے براجمان ہونے کے امکانات بھی واضح
ہوچکے ہیں ۔
نگراں وزیراعظم کیلئے الیکشن کمیشن کے اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے
نگراں وزیراعظم کیلئے پیش کردہ جسٹس ( ر) ناصر اسلم زاہد کے نام پر الیکشن
کمیشن پنجاب کے نمائندے کا اصرار اور الیکشن کمیشن کے چار اراکین کی جانب
سے میر ہزار خان کھوسو کے حق میں ووٹ دیئے جانے کے باوجوداختلافی نوٹ لکھنے
سے اس بات کا بھی پتا چلتا ہے کہ پنجاب میں نوکر شاہی اور بیور وکریسی پر
مسلم لیگ ( ن ) کی گرفت کتنی مضبوط ہے رہی بات عوام پر گرفت کی تو اگر پورے
ملک میں انتخابات یکساں نظام کے تحت کرائے جائیں اور پنجاب میں بھی آئین و
قوانین اور انتخابی ضابطہ اخلاق کی پاسداری اسی طرح سے کرائی جائے جس طرح
پاکستان کے دیگر صوبوں میں کرانے کی کوشش کی جاتی ہے تو مسلم لیگ (ن ) کی
عوام پر گرفت کی حقیقت بھی کھل جائے گی جس کے بعد شاید بیوروکریسی اور نوکر
شاہی بھی ان کی گرفت سے آزاد ہوجائے ۔
پاکستان کو چلانے کیلئے جس سیاسی شعور ‘ تدبر ‘ فہم وفراست اور سیاسی
فیصلوں کے ساتھ قومی امنگوں کو بھی مدِ نظر رکھنے اور ملکی ‘ قومی و عوامی
مفادات کے حصول و تحفظ کیلئے نئی راہوں کے انتخاب کیلئے جس خاصیت و خصوصیت
کی ضرورت ہوتی ہے عدالتی ماحول اس کی نفی کرتا ہے کیونکہ عدالت انصاف کی
فراہمی کی ذمہ دار ہوتی ہے کیونکہ آئین و قانون کی روشنی میں ”انصاف “
فراہم کرتے ہوئے نفع و نقصان اور جذبات و احساسات سے ماورا رہنا ہی عدلیہ
کی پریکٹس کا حصہ ہے۔ اسلئے نگراں حکومت کی تشکیل میں معراج محمد خان جیسے
کہنہ مشق اور دیانتدار سیاستدانوں کی نظر اندازی اور عدالتی شخصیات کی تمام
عہدوں پر تقرری انتخابات کی غیر جانبداری اور شفافیت کی یقین دہانی تو
ہوسکتی ہے مگر نگراں دورِ حکومت میں ملکی حالات کیا رخ اختیار کریں گے اور
نگراں حکومت ان سے کس طرح سے نمٹنے میں کامیاب ہوگی ‘ عوام کے مسائل کس حد
تک حل ہونگے ‘ ان میں کمی واقع ہوگی یامزید اضافہ ہوجائے گا۔ امن و امان پر
قابو پانے کیلئے کس قسم کے اقدامات کئے جائیں گے اور جان و مال کے تحفظ کے
ساتھ چادر و چاردیواری کے تحفظ کو کیا مقام حاصل ہوگا ۔ صنعت و تجارت کی
بہتری ‘ مہنگائی سے نجات ‘ بیروزگاری کے خاتمے ‘ تعلیمی ماحول و معیار میں
بہتری اور معاشی بحران سے نجات کیلئے کیا ترجیحات اپنائی جائیں گی اور سب
سے بڑھ دہشت گردی کے بڑھتتے ہوئے تسلسل و دائرہ کا ر میں انتخابی عمل کو کس
طرح سے پر امن بناکر عوام کو تحفظ کی ضمانت کی فراہمی کی ساتھ حق انتخاب و
رائے دہی کے استعمال کیلئے پولنگ اسٹیشن تک کس طرح سے لایا جاسکے گا یہ وہ
ذمہ داریاں ہیں جنہیں نگراں حکومت نے پورا اترنا ہے گوکہ بیشتر ذمہ داریوں
کا تعلق منتخب حکومت سے ہوتا ہے مگر پھر بھی اگر نگراں حکومت انہیں اپنے 90
روزہ دوراقتدار میں نظر انداز کردے تو ان90روز میں پیدا ہونے والی خرابیوں
کی اصلاح 90سال میں بھی ممکن نہیں ہوتی اسلئے نگراں حکومت کی ہر شعبے پر
توجہ ہونا اور ہر شعبے کو متوازن و درست طریقے سے چلانا نگراں حکومت کی ذمہ
داری اور قوم کے مستقبل کیلئے ضروری ہوتا ہے ۔
لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان کو چلانے یا پاکستان کو چلانے میں کسی
بھی شعبے میں معاون و مددگار رہنے کا شرف و تجربہ نہ تو ملک کو چلانے کی
ذمہ داریاں تفویض پانے والوں کے پاس ہے اور نہ ہی انہیں اس اہلیت کا حامل
جانتے ہوئے انہیں یہ ذمہ داریاں تفویض کرنے والے کسی ایسے تجربے کے حامل
ہیں !
اس صورتحال میں پرویز مشرف کی وطن واپسی اور سیاسی تجزیہ نگاروں کی توقعات
کے برخلاف ایئر پورٹ پر پرویز مشرف کیلئے جمع ہونے والوں کا اژدھام اور
نعرے بازی پاکستان کی سیاست میں آنے والی تبدیلی کا پتا دے رہی ہے جبکہ
عمران خان کے کامیاب جلسے اور نوازشریف کے جلسوں میں لوگوں کا اژدھام ‘
سندھ اور بلوچستان میں قوم پرستوں کی احتجاجی ریلیاں ‘آئندہ پھر فتح کے
حوالے سے پیپلز پارٹی کا اطمینان ‘ سندھ کی فضا سے کشمیر اور گلگت بلتستان
کے بعد پنجاب کے شہروں اور دیہاتوں تک متحدہ قومی موومنٹ کی رسائی اور عوام
ی پذیرائی ‘ بنتے بگڑتے سیاسی اتحاد ‘سیاست کے میر جعفروں اور میر صادقوں
کی پارٹیاں بدلنے اور سیاسی جماعتوں کی ایک دوسرے پر الزامات لگانے و بہتان
تراشنے کی روایت ‘ سیاست سے دوررہنے کا فوج کا عزم اور دہشت گردی کے واقعات
کا بڑھتا ہوا تسلسل و دائرہ کار آنے والے وقت میں ”حالات کی ستم ظریفی“ کا
پتا دے رہا ہے اور ”ستم ظریفی“ سے نمٹنا شاید نہ تو ہر ایک کی تربیت میں
شامل ہوتا ہے ‘ نہ فطرت میں اور نہ ہی عادت میں کیونکہ تربیت کے ذریعے
حالات سے نمٹنے اور درست فیصلے کرنے کی خاصیت انسان کی فطرت میں شامل کرکے
عادات و اطوار کو ان کے مطابق ڈھال دینا ہی” سیاست “ہے ۔ اسی لئے سیاسی طور
پر تربیت یافتہ افراد ہی پاکستان وعوام کو مشکل حالات سے نکالنے کے وصف کے
حامل ہوتے ہیں اور قوم ہمیشہ” آمریت“ کے خلاف جدوجہد کرکے” جمہوریت“ لاتی
ہے تاکہ آمروں کی طرح حکمرانی کرنے کی بجائے سیاسی افراد اپنی سیاسی بصیرت
سے قوم کی” مشکلات“ کا حل تلاش کریں اور جب کوئی حکومت اس سیاسی بصیرت سے
محروم ہوتی ہے تو آمریت سے زیادہ مشکلات کا باعث بنتی ہے۔ |