سابق آمر کی پاکستان آمد

بالآخر سابق آمر و جابرسابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف تقریباً چار سال کی خودساختہ جلاوطنی کے بعد اتوار کو کراچی پہنچ گئے ہےں۔ ان کی پاکستان آمد کے بارے میں زبردست تشہیری مہم چلائی گئی تھی اور پاکستان کے نجی نیوز چینلز اور اخبارات میں جنرل مشرف کی آمد پر بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی ہے۔ مگر اس کے برعکس ان کی آمد کے وقت ائیر پورٹ پر جماعت کے کارکن اور حمایتیوں کی تعداد اتنی کم تھی کہ ان کے مقابلے میں ائیر پورٹ پر سیکورٹی اہلکاروں اور میڈیا کی تعداد کافی زیادہ تھی۔ ائیرپورٹ پر پولیس، رینجرز، ایئر پورٹ سیکورٹی فورس اور سادہ لباس میں سینکڑوں کی تعداد میں اہلکار موجود تھے۔ پرویز مشرف نے پاکستان روانگی سے قبل دوبئی میں صحافیوں سے کہا تھا کہ انہیں اس بات کی خوشی ہے کہ کراچی میں انتظامیہ کو ان کی فکر ہے ۔

پاکستان کے سابق فوجی سربراہ پرویز مشرف نے ملک واپسی پر کراچی کی اسی شارع سے اپنا سفر طے کیا، جو سڑک 2007ءمیں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے لیے ممنوع بن گئی تھی۔اس آمر کی آمد پر چیف جسٹس صاحب اسی بدامنی کیس کی سماعت کررہے تھے جو اس آمر کے دور میں2007 ءمیں شروع ہوئی تھی، ایک ہی دن میں کراچی میں سو کے لگ بھگ افراد اندھی گولیوں کا نشانہ بنے تھے اور اس کو پرویز مشرف نے اسلام آباد میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھاکہ ہم نے کراچی میںآج اپنی طاقت دکھا دی ہے۔ اس روز چیف جسٹس کے استقبال کے لیے جانے والے جلوسوں پر حملے کیے گئے اور شہر میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے۔ ان واقعات سے شہر میں لسانی اور سیاسی مخالفت کی بنیاد پر ہلاکتوں کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا تھا۔ شارع فیصل پر کارساز کے مقام پر اٹھارہ اکتوبر 2007ءکا ایک یادگار بھی موجود ہے جو اس بات کی یاد دلاتا ہے کہ جنرل مشرف کی ہدایت کے باوجود سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو وطن لوٹی تھیں اور ان کے استقبالیہ جلوس پر حملہ ہوا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں یہ الزام تحریک طالبان کے رہنما بیت اللہ محسود کے سر پر ڈال دیا گیا تھا جس کے بارے میں بیت اللہ محسود نے کئی بار تردید بھی کی تھی اور اس وقت پیپلز پارٹی کے کئی ارکان نے بھی اسے تسلیم نہیں کیا تھا۔راولپنڈی کی ایک عدالت نے پرویز مشرف کو مفرور قرار دیا تھا۔ ایف آئی اے کی جانب سے راولپنڈی کی عدالت میں ایک چارج شیٹ دائر کی گئی تھی جس میں پرویز مشرف کوسابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ جنرل پرویز مشرف نے اٹھارہ اگست دو ہزار آٹھ کو صدر پاکستان کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور کچھ عرصہ پاکستان میں رہنے کے بعد نومبر سال دو ہزار آٹھ میں وہ بیرون ملک چلے گئے اور لندن میں رہائش پذیر تھے۔ دو دن قبل ہی سندھ ہائی کورٹ نے تین مقدمات میں سابق صدر مشرف کی حفاظتی ضمانتیں منظور کرلی گئی تھیں۔ سابق صدر نے کراچی آمد کے بعد اتوار کی شام پانچ بجے مزارِ قائد کے قریب گراو ¿نڈ میں جلسے سے خطاب کرنا تھا۔ تاہم حکومت نے مزار قائد پر جلسے کا اجازت نامہ منسوخ کر دیا تھا۔

ذرائع کے مطابق پرویز مشرف کے آنے سے ایک دن پہلے ہی کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اپنے ایک تازہ پیغام میں کہا تھا کہ پرویز مشرف پر حملے کے لیے خودکش بمبار اور ماہر نشانہ باز بھیجے جائیں گے۔ تحریک طالبان کی جانب سے جاری کردہ وڈیو پیغام میں تحریک طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان اور کمانڈر عدنان رشید نے باری باری جامعہ حفصہ کا ذکر کرتے ہو ئے مشرف کو للکارا ہے کہ کسی صورت میںاسے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ وڈیو میں تحریک طالبان کے ترجمان نے بلوچستان میں لڑنے والے جنگجوﺅں کو تحریک طالبان میں شمولیت کی دعوت بھی دی۔

واضح رہے سابق آمر پرویز مشرف پر کئی قسم کے الزامات ہیں اور متعدد بار ان کے وارنٹ بھی جاری ہوچکے ہیں۔ ان پر یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے نومبر دو ہزار سات سے مارچ دو ہزار آٹھ تک سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت کئی ججوں اور وکیلوں کو غیر قانونی طور پر ان کے عہدے سے بر طرف کیا تھا۔ ہیومن رائٹس کے مطابق مشرف کو اپنے دور میں دو بار آئین کو معطل کرنے کا شرمناک اعزاز حاصل ہے ۔ دو ہزار سات کے ایمرجنسی کے نفاز کے بعد مشرف نے تشدد کی کاروائی کا آغاز کیا اور دس ہزار سیاسی مخالفین سمیت سپریم کورٹ کے اعلیٰ ججوں کو حراست میں لینے کا حکم دیا اور چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری اور پانچ دوسرے ججوں کو معطل کر دیا اورکئی معروف وکلاءکو نظر بند کیا تھا۔
پرویز مشرف پر سابق وزیر اعظم اور بینظیر بھٹو کو مطلوبہ حفاظت فراہم نہ کرنے، بلوچستان کے قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی کو قتل کرنے کا الزام بھی ہے۔پرویز مشرف کے دور میں ہی امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا،جس کے لیے امریکا کے سات مطالبات مان کر پرویز مشرف نے پوری قوم کا سر جھکا دیا تھا اور اس کے بعد سے پاکستان میں بھی تشدد کو نیا جنم ملا اور آج تک پوری قوم اس آمر کی دی ہوئی سزا بھگت رہی ہے۔ڈرون حملوں کی ابتدا بھی اسی کے سیاہ دور میں ہوئی،جس میں اب تک ہزاروں بے گناہ پاکستانی امریکا کی جارحیت کا نشانہ بن چکے ہیں۔پرویز مشرف نے ہی قوم کی بیٹی بے گناہ عافیہ صدیقی کو امریکی ڈالروں کے عوض بیچ دیا تھا، جس پر پوری قوم سراپا احتجاج ہے، لیکن اس معصوم کی رہائی کی کوئی سبیل ابھی تک نہیں دکھائی دیتی۔امریکا نے آمر کے ہاتھوں بیچی ہوئی پاکستانی قوم کی اس بیٹی کو چھیاسی سال کی سزا سنا کر ظلم کی ایک انوکھی تاریخ رقم کی، جس کا سہرہ پرویز مشرف کے سر پر ہے۔

پرویز مشرف پر سب سے اہم اور سفاکانہ کیس لال مسجد اورجامعہ حفصہ میں ہزاروں بچیوں کو بمبوں اور گولوں سے آگ میں جلا کر مارڈالنے کا ہے۔پرویز مشرف نے سات دن لال مسجد میںآگ و خون کی ہولی کھیلی، مسلسل ان معصوم بچیوں پر بمباری کرواتا رہا۔جب کسی نے معاملے کو سلجھانے کی کوشش کی تو وہ اور اس کے ٹاﺅٹوں نے معاملے کو مزید الجھا دیا اور ہزاروں معصوم بچیوں کو جلا کر راکھ کردیا تھا۔اَمریکی ڈالروں کے عوض لاپتہ کیے جانے والے والدین کے ہزاروں لخت جگر کیسے فراموش کیے جاسکتے ہیں! کون آگاہ نہیں کہ پرویز مشرف ہی نے فرزندِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ایٹم بم بنانے کی سزا ٹیلی وڑن پر ناکردہ گناہ کی معافی مانگنے کی صورت میں دی تھی۔ جب کہ ہندوستان نے اپنے سائنسدان ڈاکٹر عبدالکلام کو ملک کا صدربناکرا ±س کی عزت بڑھائی تھی۔ بلوچستان میں فوجی آپریشن کیے اورسیاسی مسائل کو بندوق کی گولی سے حل کرنے کی روایت قائم کی۔ اکبربگتی کو موت کے گھاٹ اتارکروہاں لامتناہی بدامنی اورلسانی وصوبائی تعصب کے عفریت کو بے لگام کردیا۔

ڈیفنس ہیومن رائٹس آف پاکستان کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا ہے کہ سابق آمر (ر) جنرل پرویز مشرف لال مسجد جامعہ حفصہ آپریشن، اکبر بگٹی اور غازی عبدالرشید کے قتل، ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور ہزاروں لاپتہ افراد کا ذمہ دار ہونے کی وجہ سے قومی مجرم ہے۔ فوجی و سیاسی قیادت سابق آمر کا احتساب کرے۔ سابق آمر پرویز مشرف نے اپنے دور اقتدار میں آئین کو توڑا جس پر سپریم کورٹ کو ان کے خلاف ازخود نوٹس لے۔ بلوچ عوام نواب اکبر بگٹی کے قاتل کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ پرویز مشرف قومی مجرم ہے، اسے گرفتار کر کے اس پر غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔وکلاءتنظیموں کا کہنا ہے کہ ہم پرویز مشرف کی آمد پر کوئی سخت لائحہ عمل طے نہیں کرسکے،لیکن بعد میں پرویز مشرف کے حوالے سے مشاورت کر کے لائحہ عمل طے کریں گے۔

مولانا عبدالعزیز نے اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ پرویز مشرف کو آنے کی اجازت دے کر سیکڑوں طالبات اور بلوچوں کے زخموں پر نمک چھڑکا گیا ہے، قوم کبھی اس آمر کو معاف نہیں کے گی۔ اس ظالم نے معصوم طالبات کو فاسفورس بمبوں کے ساتھ جلا ڈالا تھا۔ پاکستانی قوم کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کر کے سخت سے سخت سزا دی جائے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 771820 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.