احساسِ زیاں جاتا رہا

سابق صدر جنرل پرویز مشرف دوبارہ پاکستان آگئے ہیں ان کو واپسی مبارک ہو۔ جنرل مشرف کے حوالے سے ہم نے متعدد لوگوں سے گفتگو کی اور اکثریت کا یہ ماننا ہے کہ جنرل مشرف کی صرف دو بڑی غلطیاں ہیں ایک لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر فوج کشی اور دوسری عدلیہ سے محاذ آرائی، اگر وہ یہ دو کام نہ کرتے تو ان کا دور حکومت بہت اچھا تھا۔یہ رائے دراصل ہماری نظریاتی اور فکری انحطاط کی بھیانک مثال ہے اس رائے کا مطلب ہے کہ عوام کی اکثریت کو جنرل مشرف کی پالیسیوں کا ادراک ہی نہیں ہے۔ یا ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ شعورِ عامہ اب صرف سامنے نظر آنی والی چیزوں پر ہی غور کرنے کے قابل رہ گیا ہے اور وہ کسی بھی شخصیت، واقعے یا پالیسی کے پس پردہ عناصر اور اس کے نتیجے میں مسقتبل میں ہونے والی تبدیلیوں کا اداراک نہیں کرپارہا ہے ۔یہ صورتحال بہت خطرناک ہے۔

عوام کو جب نانِ شبینہ کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑے تو ایسا ہی ہوتا ہے، روز افزوں مہنگائی، دہشت گردی، بدامنی کے باعث اب عوام صرف یہی سوچتے ہیں کسی طرح آج کا دن گزار لیں کل کی کل دیکھی جائے گی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل مشرف کے یہ سیاہ کارنامے ان کے دور اقتدار پر ایک بد نما داغ ہیں لیکن یہ کوئی نہیں سوچتا کہ یہ دونوں واقعات دراصل مشرف کی شروع کی گئی نظریاتی اور فکری کشمکش اور بدترین کرپشن کے رد عمل میں ہی ظہور پذیر ہوئے تھے۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جنرل مشرف کے دور میں عوام کا معیارِ زندگی بہتر ہوا، تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا بالخصوص افواج کے سپاہیوں اور اساتذہ کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مشرف کے دور میں اخلاقی قدروں کو روندا گیا۔ شعائر اسلام کا مذاق اڑایا گیا، جہاد کو دہشت گردی ، کشمیر کی جدوجہد آزادی کو دراندازی،مجاہدین کو دہشت گرد کہا گیا۔فحاشی کو فروغ دینے کے خاطر خواہ اقدامات کیے گئے، نام نہاد حقوق نسواں بل منظور کیا گیا، مخلوط میراتھن ، ناچ گانے کی محفلوں کو فروغ دیا گیا۔جنرل مشرف کے دور میں کیے گئے اقدامات کا ہی نتیجہ ہے کہ آج آپ پاکستان کے کسی بھی پبلک پارک میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ نہیں جاسکتے ہیں۔جامعہ حفصہ اور لال مسجد کا سانحہ دراصل اسی برائی اور فحاشی کو روکنے کے ’’جرم‘‘ میں ظہور پذیر ہوا۔ جامعہ حفصہ اور لال مسجد کے لوگوں کا یہ قصور تھا کہ انھوں نے اسلام آباد میں مساجد کو توڑنے کے خلاف احتجاج کیا، ان کا قصور یہ تھا کہ انھوں نے اسلام آباد میں فحاشی کے اڈوں کو روکنے کی کوشش کی۔

جنرل مشرف کے دور میں تعلیم پر حملہ کیا گیا اور نصاب سے جہادی آیات اور جہادی اسباق کو نکالا گیا، نصاب سے ان آیات کو بھی نکالا گیا جن میں یہود نصاریٰ سے دوستی کی ممانعت کی گئی تھی( بدقسمتی سے حا ل ہی میں پنجاب حکومت نے بھی یہ قبیح حرکت کی ہے)۔ ایک ایسے فرد کو وزیر تعلیم بنایا گیا جو ٹی وی پروگرام میں قرآن کے چالیس پاروں کی بات کرتے ہیں۔ٹی وی کے پروگرامات میں جسم فروشی کے بارے میں مباحث کیے گئے اور اس کو ایک معاشرتی ضرورت باور کرانے کی کوششیں کی گئی، پردہ اور حجاب کے خلاف پروگرامات منعقد کیے گئے۔علماء کرام کے مقابل اداکاراؤں اور گلوکاروں کو لایا گیا اور دین کے احکامات کے بارے میں علمائے کرائے کے علم اور رائے پر اُن کی رائے کو ترجیح دی گئی اور عوام کو یہ باور کرانے کی کوششیں کی گئیں کہ دراصل ناچ گانا، راگ رنگ کوئی غیر اسلامی چیزیں نہیں علماء نے خوامخوہ ان چیزوں سے عوام کو دور رکھا ہے۔

جنرل مشرف کے دور میں پاکستان کی نظریاتی بنیادوں پر حملہ کیا گیا۔ پہلی بار پاکستان میں یہ بحث شروع ہوئی کہ پاکستان اسلام کے نام پر نہیں بنا تھا ، قائد اعظم محمد علی جناحؒ سیکولر تھے،علامہ اقبال رجعت پسند تھے۔کشمیر کے معاملے پر الٹی قلابازی کھائی، کشمیر کی آزادی کے بجائے دیگر معاملات یعنی تجارت، بس سروس، ٹرین سروس وغیرہ پر مذاکرات کیے گئے ، اور ان اقدامات کا نتیجہ یہ نکلا کہ سابقہ حکومت نے بھی انہی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے کشمیر کی آزادی اور وہاں سے بھارتی افواج کی بے دخلی کے علاوہ ہر معاملے پر مذاکرات کیے اور اس وقت مسئلہ کشمیر مزید پیچیدہ ہوگیا ہے کیوں کہ جب ہم نے اپنے موقف سے پسپائی اختیار کی تو دراصل ہم نے بھارت کے موقف کو تسلیم کرلیا اور اب ہماری پوزیشن بہت کمزور ہے۔مجاہدین کو دہشت گرد اور جدو جہد آزادی کو در ندازی اور دہشت گردی مان کر ہم نے یہاں بھی بھارتی موقف کی تائید کی ، مجاہدین کو کمزور کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت نے گذشتہ دس برسوں میں وہاں چھوٹے بڑے کئی ڈیم بنا لیے، پاکستان کے حصے کا پانی کم کردیا اور دوسرا بڑا معاملہ یہ کہ اب وہ جب چاہے پانی روک دے اور جب چاہے خاموشی سے پانی اچانک چھوڑ دیتا ہے جس کے باعث یہاں آئے روز سیلاب آرہے ہیں۔

جنرل مشرف کے دور میں ہی کرپشن کے ریکارڈ قائم کیے گئے۔قومی اداروں کو اونے پونے داموں بیچا گیا۔ کے ای ایس سی کوجب بیچا گیا تو واقفانِ حال کا یہ کہنا تھا کہجتنی اس کی قیمت لگائی گئی ہے اتنے کے تو صرف کھمبے ہی کراچی میں لگے ہوئے ہیں جبکہ کے ای ایس سی کی جائیدادیں،گاڑیاں،مشینری وغیرہ الگ ہیں۔ انتہائی اہم ادارہ پی ٹی سی ایل بیچا گیا،اسٹیل مل کو بیچنے کی کوشش کی گئی تو سپریم کورٹ ڈٹ گئی جس کے بعد جنرل مشرف کی عدلیہ سے محاذ آرائی شروع ہوئی۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ اگر اسٹیل مل کو سودا ہوجاتا تو اس کے بعد اگلا نمبر پی آئی اے کا تھا۔

یہ وہ سارے عوامل تھے جن کے باعث سانحہ لال مسجد اور عدلیہ سے محاذ آرائی شروع ہوئی اس لیے جب یہ کہنا کہ جنرل مشرف کے دامن پر صرف سانحہ لال مسجد اور عدلیہ سے محاذ آرائی کے داغ ہیں اور اس کے علاوہ ان کا دامن صاف ہے تو دراصل وہ اپنے نظریاتی اور فکری نقصان سے لاعلمی کا اظہار کرتا ہے۔ ایسا کہنے والا دراصل اس بات سے آگاہ ہی نہیں ہے کہ جنرل مشرف کی پالیسیوں نے کہاں کہاں نقب لگائی ہے۔ وائے ناکامی کہ متاعِ کارواں جاتا رہا ۔کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا.

 
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1455020 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More