برما میں مسلمانوں کی نسل کشی اب بھی جاری ہے

ابھی تک برما کی سڑکوں پر پڑی مسلمانوں کی جلی ہوئی لاشوں کا تعفن ختم نہیں ہوا تھا کہ برمی مسلمانوں پر ایک بار پھر قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ یک بار پھر مسلمانوں اور ان کی املاک ،مساجد، مدارس پر بودھ ہشت گردوں نے حملے شروع کر دیے ہیں۔ بودھ دہشت گرد مسلمانوں کے قتل عام اور ان کے املاک کو لوٹنے کا کام برما انتظامیہ کی نگرانی میں کررہے ہیں، پولیس خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔برما کے شہر میانمار کے علا قے میکتلا میں جہاں مسلمانوں کی 30فیصد آبادی رہائش پذیر ہے، 20مارچ کی دوپہر سے بدھ دہشت گردوں کی جانب سے مسلمانوں کی املاک کو لوٹ کر ان کے گھر اور دکانوں کو آگ لگا دی گئی۔ 20مارچ کو شروع ہو نے والی دہشت گردی میں مسلمانوں کی اس علا قے میں موجود 13میں سے 10مساجد کو آگ لگاکر شہید کردیا گیا تھااور4مسلمان اساتذہ ،28طلبہ جن میں برما کے نا مورعالم مولانانور الحق کے صاحبزادے حافظ محمد احتشام بھی شامل تھے کوقتل کرنے کے بعد لاشوں کو جلا دیاگیا۔ان مدارس اور مساجد کو کرفیونافذ ہو نے بعداور پولیس کی موجودگی میں قتل کیا اورجلایا گیا ہے، اکثر مسلمان اپنی جانیں بچا کر اطراف کے گاﺅں اور دیہاتوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ۔ مسلمانوں اور ان کی املاک پر دستی بموں اور پیٹرول بموں سے حملے کےے گئے ۔

یہ سلسلہ مزید جاری رہا اور اگلے ہی دن مزید 5مساجد شہید کردی گئیں۔ 600سے زاید مسلمانوں نے اسٹیڈیم میں پناہ لے کر جان بچانے کی کوشش کی۔ فسادات کی وجہ سے 800 سے زاید افراد بے گھرہوگئے۔ میانمر کی اپوزیشن جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے رہنما ون ہتائن نے بتایا کہ صرف جمعہ کے روز 5 مساجد نذر آتش کی گئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مشتعل بودھ باشندے مقامی حکام کو مسلمانوں کے گھروں کو لگائی گئی آگ بجھانے سے روک رہے ہیں۔ میانمر کی پولیس نے اعتراف کیا کہ متعدد مشتعل بودھوں سے بڑی تعداد میں چھریاں، ہتھوڑے، کلہاڑیاں، لاٹھیاں برآمد کرلی گئیں۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق بودھ بلوائی بھی ہتھیاروں سے لیس ہوکر سڑکوں پر آزادانہ گھوم رہے ہیں اور سڑکوں پر مسلمانوں کی جلی ہوئی لاشیں بھی دیکھی گئی ہیں۔

دوسری جانب میانمر برما میں مسلمانوں کے قتل، املاک کی تباہی و لوٹ مار، قرآن کریم، مساجد اور مدارس کی بے حرمتی اور انہیں شہید کیے جانے پر علماءکرام نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے اور اس حوالے سے مسلسل چشم پوشی اور سرد مہری پر مسلم حکمرانوں، اقوام متحدہ اور او آئی سی کی شدید ملامت کی ہے، جامعہ الدرسات اسلامیہ کے مدیر مفتی یوسف طیبی، اہلسنّت والجماعت کے ترجمان مولانا اکبر سعید اور جمعیت علماءاسلام(س)کے مفتی عثمان یارخان نے میانمر(برما) میں مسلمانوں پر ظلم وتشدد کی شدید مذمت کی۔ان رہنماﺅں کا کہنا تھا کہ ایک زمانہ تھا جب ایک مسلم خاتون کی عزت و ناموس بچانے کی خاطر مسلمان صحراﺅں اور سمندر کا سینہ چیر کر ظالموں کی سرکوبی کے لیے پہنچ جاتا تھا، مگر ان باتوں کا تعلق عزت، غیرت اور حمیت سے ہے جو شاید آج ہم مسلمانوں میں مفقود ہوگئی ہے۔ دنیابھر کے مسلم ممالک خاص طور سے پاکستان جو نا صرف ایک ایٹمی طاقت ہے بلکہ ماضی قریب میں روس جیسی سپر پاور کو افغانستان سے مار بھگانے کا ریکارڈ رکھتا ہے، کی ذمہ داری ہے کہ میانمر کے مظلوم و مقہور مسلمانوں کی مدد اور دستگیری کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔

یہ بھی بے حسی کی انتہا ہے، آج ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو اور ان کو لوٹ کھسوٹ، ووٹ بینک اور سیٹوں کی فکر تو ہے لیکن اپنے مسلمان بھائیوں کی کوئی فکر نہیں جو لادین بودھوں کے ہاتھوں بدترین مظالم کا شکار ہیں۔ قرآن میں اللہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ مسلمان اگر اپنی عبادت گاہوں کی حفاظت نہیں کریں گے تو ان کو ختم کردیا جائے گا اسی طرح ایک اور جگہ اللہ فرماتا ہے کہ اگر یہ تم سے دین کے حوالے سے مدد مانگےں تو تم پر ان کی مدد کرنا لازم ہے، اس لیے ہمیں چاہیے کہ برما ہو یا کشمیر اور دیگر علاقے ان کے لیے عملی اقدامات کرےں۔میانمر میں اقوام متحدہ کے بین الاقوامی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ بودھ مذہب میں تو یہ بات شامل ہے کہ وہ کسی جاندار کو قتل نہیں کرتے پھر برما میں یہ مسلمانوں کے ساتھ ایسا کیو نکر کر رہے ہیں، اس کے خلاف عالمی سطح پر شدید رد عمل آنا چاہیے تاکہ ان بودھ لوگوں کے ہاتھوں کو مسلمانوں کے خون میں مزید رنگنے سے روکا جائے۔ برما میں مسلمانوں کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت نشانہ بنایا جارہا ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی دینی غیرت و حمیت کا مظاہرہ کر تے ہو ئے برما میں مسلمانوں کے قتل عام، ان کی املاک کو لوٹنے اور جلانے اور مساجد و مدارس اور قرآن پاک کی بے حرمتی کے خلاف ہر فورم پرآواز اٹھائیں۔

یاد رہے کہ برما میں مسلمانوں پہ ہونے مظالم کی یہ داستان کوئی نئی نہیں ہے !بلکہ 60سال کے عرصہ میں یہاں کے مسلمان پانچ بڑے خونی فسادات سے نبرد آزما ہوئے،اس دھرتی پہ آئے روز مسلمانوں اور وہاں کی دیگر غیر مسلم طاقتوںکے درمیان چھوٹے موٹے حادثات تو رونما ہوتے ہی رہتے ہیں،لیکن پانچ بڑے فسادات میں اب تک تین لاکھ سے زائد مسلمان تہ تیغ کیے گئے جبکہ 15لاکھ افراد بے آسرا ہوئے،دوسری جنگِ عظیم کے دوران1941میں اراکان کے ضلع اکیاب میں بدھسٹوں نے ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی،پھر اسی تنظیم کے تحت مگھوں نے 26مارچ1942کو اراکان میں بسنے والے روہنگیا مسلمانوں کا قتل ِ عام شروع کیا،یہ دہشت گردی تین مہینے تک جاری رہی،اس دوران مارچ 1942سے جون1942تک ڈیڑھ لاکھ مسلمان شہید جبکہ پانچ لاکھ مسلمان بے آسرا ہوئے،دوسری بار 1950میں بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری ہوئی،اس میں بھی ہزاروں مسلمان لقمہ ¿ اجل بنے۔تیسری دفعہ1978میں برما کی غیرمسلم فوجی حکومت نے مسلمانوں کے خلاف خونی آپریشن کیا،جس کے نتیجہ میں انہوں نے ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا اور پانچ لاکھ سے زائد باشندوں کواپنی ہی سرزمین سے بے دخل کردیا۔

1991 میں چوتھی دفعہ یہاں فسادات پھوٹ پڑے،جس کے سبب بھی ہزاروں مسلمان ان ظالم مگھوں کے ظلم و ستم کے ہاتھوں چل بسے،اسی وحشیانہ وسربریت کے نتیجہ میں ساڑھے تین لاکھ برمی مسلمانوں کو اپنے دیس کو الوداع کہنا پڑا۔ایک بار پھر گزشتہ جون سے مسلمان برما میں مسلسل موت کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں، ایک اندازے کے مطابق اب تک اس خون ریزی میں پچاس ہزار سے لے کر ایک لاکھ تک مسلمان اپنی جان دے چکے ہیں۔یہ سلسلہ ابھی بھی رکا نہیں بلکہ جاری ہے۔

پوری دنیا میں ایٹمی قوت کہلانے والے اسلامی ممالک بھی موجود ہیں،تمام دنیا سے زیادہ وسائل رکھنے والے اسلامی ممالک بھی موجود ہیں،سب سے زیادہ افرادی قوت رکھنے والے اسلامی ممالک بھی موجود ہیںلیکن سب گنگ ہیں، زبانوں کو تالے پر چکے ہیں۔اپنی حکومتیں بنانے کے لیے تو ایک ایک شخص کے پیچھے ووت کی بھیک مانگنے کے لیے چلے جاتے ہیں ، لیکن مسلمان بھائیوں کا قتل عام کیا جارہا ہے، اس کے لیے دنیا میں آواز تک نہیں اٹھاسکتے، ہے ایسی حکومتوں پر!
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 636081 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.