ذمہ داری کا مظاہرہ

گزشتہ کئی دنوں سے یہ بات محسوس کی جارہی ہے کہ کچھ جماعتیں آنے والی بارہ تاریخ یعنی بارہ مئی کی آڑ میں گھناؤنے منصوبوں کی تیاریوں میں مشغول ہیں اور ان منصوبوں کے پورا ہوجانے کے بعد جس کا الزام وہ کراچی کی مشہور معروف سیاسی جماعت ایم کیو ایم کے سر پر ڈالنے کی کوشش کریں گیں اور پھر طے شدہ منصوبوں کے زریعے متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلز پارٹی میں دراڑیں پیدا کرنے اور ان دراڑوں کو پھیلا کا فصیل کا درجہ دینے اور بالاخر شہر پرسکون کراچی جسے عروس العباد کہا جاتا ہے اس کے امن و سکون کو بری طرح متاثر کرنے کی ہر ممکن کوششوں میں مصروف ہیں۔

گزشتہ دنوں ایک اخباری خبر بذات خود اپنی گناہ گار آنکھوں سے پڑھنے کا موقع ملا جس میں کراچی میں اپنے ایک جلسہ میں اے این پی کے صوبائی صدر شاہی سید صاحب یہ فرماتے پائے گئے اور جس بیان میں انہوں نے اعتراف (جرم) کرتے ہوئے فرمایا کہ “گورنر سندھ کے پاس سو لڑنے والے میں سے صرف ایک اصل لڑنے والا ہے اور اے این پی کے پاس سو لڑنے والوں میں سے ننانوے اصل لڑنے والے ہیں (اخباری خبر کی فوٹو کاپی میرے پاس محفوض ہے اور کسی صاحب کو اگر واقعتاً اس خبر کی صداقت پر کوئی شبہ ہے تو میں انہیں یہ اخباری کٹنگ کی کاپی ارسال کر سکتا ہوں۔ شکر خدا کا یہ ہے کہ اس طرح شاہی سید صاحب نے یہ اعتراف کر لیا کہ متحدہ کے پاس تو صرف ایک فیصدی لڑاکا موجود ہیں اور اے این پی کے پاس ننانوے فیصدی لڑاکا موجود ہیں۔

اب اصل سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر اے این پی کے پاس اتنے زبردست اور لڑاکا اصل لڑنے والے موجود ہیں تو کیا وجہ ہے کہ وہ طالبان کے سامنے گر اور لیٹ گئے اور اس سے کبھی بھی مقابلے کی جرآت اپنے اندر پیدا نہیں کر سکی اور طالبان نے جس طرح اے این پی کے لیڈران جیسے جناب اسفندیار ولی صاحب اور دوسرے بھی کئی لیڈران پر ناصرف حملے کیے بلکہ ان کو ان کے اپنے علاقوں (جہاں سے اے این پی نے ووٹ لیے تھے) سے بھاگ نکلنے پر مجبور کر دیا۔ کیا اس سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں نہیں ہوتی کہ اے این پی جب اپنے برابر یا اپنے سے زیادہ طاقتور کو دیکھتی ہے تو بھاگ نکلنے میں ہی عافیت محسوس کرتی ہے اور جب اپنے سے طاقت میں بظاہر کم کو دیکھتی ہے تو اس دبانے کی فکر میں لگ جاتی ہے۔

جیسے اے این پی کے لیڈران کے آج کل کے بیانات بھی غور کریں جس میں وہ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد جناب الطاف حسین بھائی کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ الطاف حسین برطانیہ میں شیشے کے گھر میں بیٹھ کر سنگ باری کر رہے ہیں اور مزید یہ کہ الطاف حسین کو پاکستان آکر سوات اور ان علاقوں کا دورہ کرنا چاہیے تو بات یہ ہے ہمارے اے این پی کے بھائیوں کہ الطاف حسین اگر بالفرض پاکستان آبھی جاتے ہیں تو کیا سوات پاکستان کا حصہ لگتا ہے جو وہ وہاں جائیں اور جہاں اے این پی کی حکومت کے باوجود اے این پی کی لیڈر شپ خود ساختہ نظام عدل (جان بچانے اور سیاست چمکانے کے لیے نام نہاد نظام عدل کاش یہ واقعی اصل نظام عدل ہوتا) سے پہلے سوات جانے کی جرآت اپنے اندر پاتے تھے خدا کو حاضر ناظر جان کر
اپنے دل و دماغ کو ٹٹول کر دیکھ لیں۔

اور متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے رکن قاسم علی رضا نے عوامی نیشنل پارٹی صوبہ سندھ کے صدر جناب شاہی سید کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے بجا طور پر کہا ہے کہ شاہی سید عوام سے پہلے عوامی نیشنل پارٹی کے ان رہنماؤں کو پشاور اور چارسدہ واپس آنے کی تلقین کریں جو طالبان کے ڈر سے اپنے علاقے چھوڑ گئے ہیں۔ دوسرے یہ کہ شاہی سید کی جانب سے دہشت گردی اور قتل و غارتگری کے باعث سوات سے نقل مکانی کرنے والے افرد سے اپیل کی جارہی ہے کہ وہ واپس اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا جانتی ہے کہ طالبان کی دہشت گردی، قتل و غارتگری اور خودکش حملوں کے خوف سے عوامی نیشنل پارٹی کے لیڈران پشاور اور چارسدہ سے بھاگ چکے ہیں اور کراچی و اسلام آباد میں مزے کی زندگی گزار رہے ہیں۔ قاسم علی نے کہا کہ شاہی سید سوات سے نقل مکانی کرنے والوں کو اپنے گھروں کو واپس آنے کی تلقین کرنے کے بجائے پہلے اپنی جماعت کے رہنماؤں کو پشاور اور چارسدہ واپس آنے کی تلقین کریں جو اپنی زندگی بچانے کے لیے اپنے شہروں اور علاقوں سے بھاگ چکے ہیں۔ (اور وہ بھی کلی طور پر اپنی صوبائی حکومت ہونے کے باوجود)۔

متحدہ قومی موومنٹ کے قائد جناب الطاف حسین کی خصوصی ہدایات پر ایم کیو ایم کے زیر اہتمام پاکستان میں طالبائزیشن کے بڑھنے ہوئے خطرات اور قومی اسمبلی میں منظور کئے گئے نظام عدل ریگولیشن کے موضوع پر علما و مشائخ کنونشن منعقد کیا جائے گا۔ یہ کنونشن مورخہ انیس اپریل بروز اتوار دوپہر ایک بجے پرل کانٹی نینٹل ہوٹل ، کراچی میں منعقد کیا جائے گا جس میں ملک بھر سے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے ممتاز علمائے کرام، مشائخ عظام اور مزہبی اسکالرز شرکت کریں گے۔ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی اور علما کمیٹی کے ارکان کی جانب سے تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام سے رابطے اور انہیں کنونشن میں شرکت کیلیے دعوت نامے تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ ممتاز عالی دین علامہ ڈاکٹر طاہر القادری سے الطاف حسین کی بات ہوئی جس میں الطاف حسین نے انہیں اسلام کے نام پر دہشت پھیلانے والوں کے اصل مقاصد سے آگاہ کیا۔ علامہ طاہر القادری نے الطاف حسین کے خیالات سے مکمل اتفاق کرنے ہوئے کہا کہ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے جو نہ خودکش حملوں کے زریعے انسانی جانوں کو تلف کرنے کی اجازت دیتا ہے اور نہ مخالف عقائد رکھنے والوں اور دیگر مزاہب کے ماننے والوں کے گلے کاٹنے اور نہ جبر و بربریت کا درس دیتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اسلام خوف اور جبر ختم کرنے، امن دینے، انسانی حقوق کو فروغ دینے اور احترام انسانیت کو عام کرنے کیلیے آیا ہے۔ پاکستان قطعی جبر و بربریت کے ماحول کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ علاوہ طاہر القادری نے نظام عدل ریگولیشن کے معاملے پر ایم کیو ایم کے اصولی موقف کو سراہا اور پاکستان میں مزہبی رواداری، فرقہ وارنہ ہم آہنگی اور برداشت کے رویہ کے فروغ کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا۔

اللہ ہمیں عقل سلیم عطا فرما آمین
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 540363 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.