سنہ 2009، جنوبی وزیر ستان میں
فوجی آپریشن کے نتیجے میں محسود قبیلے کی پانچ لاکھ سے زیادہ آبادی کو اپنا
صدیوں سے آباد آبائی علاقہ چھوڑ کر پاکستان میں ہجرت کرتے ہوئے مختلف شہروں
میں بے سروسامانی و کسمپری آباد ہونا پڑا۔ان مہاجرین نے اپنے گھروں
میںواپسی کےلئے بھرپور احتجاج بھی کیا ، لیکن بد قسمتی سے پاک، ابلاغ
کیجانب سے مناسب کوریج نہ ملنے کے سبب ملک کی دیگر عوام اس بات سے نا آشنا
رہے۔پاکستانی کے قبائلی علاقوں سے بے دخل ہونے والے لاکھوں افراد اپنے
گھروں میں جانے کےلئے بے چین اور حکومتی دعوے کی بے عمل تصویر ِعبرت بنے
بیٹھے ہیں۔محسود قبائلی عوام کا مسلسل مطالبہ ہے کہ انھیں اپنے گھروں میں
واپس جانے دیا جائے اور جو نوٹس انھیں ایک ہفتے میں اس دعوے کےساتھ جاری
ہوا تھا کہ آپ کے علاقوں کو شدت پسندوں سے صاف کردیں گے ، اب یہ دعوی ایک
ہفتہ ، پھرچارمہینے ، اور اب چار سال ہوچکے ہیں کہ آپریشن کے نام پر لاکھوں
عوام بے گھر،نہ کوئی ڈیڈ لائن اور نہ ہی ان قبائلی کی ثقافتی زندگی کے تحفظ
اور پختون خودداری کے حوالے سے ان کے مسائل کو حل کرنے پر توجہ دی گئی
ہے۔لسان سے عدم واقفیت ،روایات ،ثقافت اور کئی طرح کے مسائل نے ان کا جینا
دوبھر کردیا ہے ، عوامی نیشنل پارٹی کی بشری گوہر تو کہہ چکی ہیں کہ قبائلی
علاقوں (فاٹا) کو باقی پاکستان میں ضم کردیا جائے۔ ان کی یہ بات صائب ہے کہ
صوبائی حکم داری نہ ہونے کے سبب ، فاٹا کے عوام مساوی حقوق سے محروم اور
ضیاءالحق کے جانب سے ڈالے گئے اس دلدل میں کبھی پنجاب سے پنجابی طالبان آتے
ہیں تو کبھی ازبک، تو کبھی چیچن ملکی سرحدوں کو خلاف قانون عبور کرکے داخل
ہوتے ہیں۔دہشت گردی کے ستائے ان لاکھوں افراد کو کسی تہوار کی کوئی خوشی
نہیں ملتی بلکہ کسمپرسی کے عالم میں موجود کیمپوں میں زبوں حالی کی زندگی
بسر کرنے پر مجبورہیں۔بلکتے بچوں کےلئے ناکافی دودھ ،خوراک اور امداد کے
حصول کےلئے ذلت آمیز مار کھانا ، ان غیور عوام کا مستقبل بنتا جارہاہے۔ پھر
پاکستان میں ، مشرقی پاکستان کی طرح ، نیا شمالی پاکستان محرومیوں و
انصافیوں کی بنیاد پر تشکیل دینے کی سازش کی جا رہی ہے۔دہشت گردی کےخلاف
جنگ میں امریکی کردارکی بد نما حقیقت اور اسکے تلخ نتائج کے باعث پاک قوم
کے بچوں میں رزق کے حصول کےلئے کاسہ ہے ، بندوق کے بجائے قلم کے دلفریب
نعرے بلند کرنے والوں نے عوام کو انکے بنیادی حقوق دینے میں مکمل ناکامی کا
سامنا کرنے کے باوجود ،کسی بھی شرمندگی کی احساس سے عاری ہیں۔سب سے پہلے
پرانے باجوڑ کے 2007-08ءکے آپریشن کے سبب دیرپائیں سے لیکر پشاور اور سبی
کے نزدیک مہاجر کیمپوں تک پھیلتے چلے گئے تھے اب ایک تعداد محتاط اندازے کے
مطابق دس لاکھ سے بھی تجاوز کر رہی ہے۔باجوڑ میں امن کے بعد ،بظاہر زندگی
رواں دواں ہے اور اکا دکا دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے ہیں لیکن اسکے
باوجود ہزاروں کی تعداد میں باجوڑ کے بے گھر لوگ تمیر گرہ ، دیر کے علاوہ
جلوزائی کے کیمپوں میں موجوداپنے علاقوں میںجانے کےلئے بے چین ہیں۔ گو کہ
دہشت گردی کے واقعات میں انکے گھر بار ملبے کے ڈھیر بن چکے ہیں۔رزق کا
واحدذریعہ زرعی جانور بھی ہلاک ہوچکے ہیں ۔ اس صورتحال میں پختون روایات کے
مطابق عورت کی حرمت ، جان سے بڑھ کر ، مہاجرین قبائل اپنی عزتوں کو کہاں
لیکر جائیں۔کچھ یہی صورتحال جلوزائی کیمپ کی ہے جہاںقبائلی عوام عزت مندانہ
طریقے سے زندگی کی بنیادی ضروریات کی حصول کےلئے ڈیرہ اسمعیل خان اور ٹانک
کے کیمپوں اور زیادہ تعداد اپنے عزیز رشتہ داروں کے گھروں میں ہیں جن سے
دونوں خاندانوں کو شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے۔المیہ یہی ہے کہ تمام تر
دعوﺅں کے باوجود ، عسکریت پسندوں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان جنگ میں بے
قصور قبائلی عوام نشانہ بن جاتے ہیں ،واپس جانے والے بھی محفوظ نہیں۔ اگر
عسکریت پسند کسی کے گھر میں زبردستی داخل ہوجائیں اور انکے مطالبات پورے نہ
کریں تو وہ بچاراغدار اور موت کے حقدار بن جاتا ہے۔اسلئے زیادہ تر قبائلی
مہاجرین ، مستقل قیام کے امن کو قائم کرنے کے وعدے پورے کرنے کے ساتھ اپنے
علاقوں میں باحفاظت جانے کے خوائش مند بھی ہیں اور اکثروہاں کی کمزور معاشی
صورتحال دیکھ کر ہمت بھی ہار بیٹھتے ہیں کہ پچاس فیصد تباہ ہونے والوں
گھروں اورانفرااسٹرکچر کی بحالی ہونے تک پنے روتے بلکتے بچوں کو کس طرح ،
سنبھال پائیںگے۔اسلئے کیثر تعداد اپنی سرزمین سے محبت کی بنا ءپر ہر
صورتحال کا سامنا کرنے کو بھی تیار ہے لیکن کچھ خاندان اپنی بشری طاقت
اورمالی کمزوری کے باعث سمجھتے ہیں کہ پہلے حکو متی رٹ کاقائم ہونا ضروری
ہے۔ ا ورکرزئی ایجنسی کے بے گھرلوگوں کا کوہاٹ کے کیمپوں ، خیبر ایجنسی کے
بے گھر پختونوں کا پشاور کے نواحی اور رنگ روڈ کے ساتھ ساتھ قریبا تمام
دیہات میں بنے حجروں میں اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ کرائے پر بھی رہنے پر
مجبور ہیں۔نیز خیبر کے لوگ قبائل کی شکل میں علاقوں سے بس ہوچکے ہیں اور ان
کے قبائل ملک دین خیل،اکا خلیل ،شلوبر،سپاہ،قنبر اور قمر خیل سمیت دیگر
قبائل بھی اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔صرف خیبر ایجنسی
کی تحصیل باڑہ کے متاثرین کے ا عداد ایک لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے، جبکہ
اس سے کئی گنا زیادہ وزیرستان کے محسود علاقو ں کے معصوم ،بے گناہ لوگ ہیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ باجوڑ اور کرزئی کی عوام کو بھی نظر انداز کیا
جارہاہے۔ان کے گھر واپسی کےلئے پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی
آنکھیں بند کر رکھیں ہیں جو قابل افسوس ہے۔یہ بھی پاکستانی،ہمارے بھائی اور
مسلمان ہیں ، ان کے بھی ہر خوشی و غم میں پرُسا، ہماری اسلامی اور اخلاقی
روایات ہیں۔فاٹا کی عوام کو اپنے گھروں میں جانے کےلئے انکے ، علاقے واپس
کردئےے جانے چاہیں اگر یہ قبائلی عوام اپنے گھروں سے سالوں سال دور رہیںگے
تو امن اور ترقی کا دور کس طور شروع ہوسکتاہے۔؟قبائلی عوام چاہتی ہیں کہ اب
جبکہ اقوام متحدہ نے تسلیم کرلیا ہے کہ پاکستانی حدود میں بین لااقوامی
قوانین کی خلاف ورزی اور ملکی خود مختاری کے خلاف ہے تو پاکستان کو فوری
طور خاموش بیٹھنے کے بجائے ، اپنا معاملہ او آئی سی ،یو این او کے ساتھ
عالمی عدالت میں بھی لے جانا چاہیے۔جنوبی وزیرستان فوجی کاروائیوں میں اپنے
اہداف ایک ہفتے کے بجائے ، چار سا لوں میں کیوں پورے نہیں کرسکے یہ اہم
انسانی مسئلہ ہے لاکھوں افراد کی بے گھری و بے سروسامانی پر ان کے دل مسوس
کیوں نہیں ہورہے ۔ ارباب اختیارقبائلی عوام کو باعزت گھر جانے دیں۔ عوام کو
اتنے عرصے اپنے علاقوں سے دور رکھنے کے باعث بھی ، شدت پسندوں کو محفوظ
پناہ گائیں گنجان آبادیوں میں مل رہی ہیں۔جبکہ قومی و صوبائی انتخابات میں
ان کی عدم شرکت کے باعث بھی انکے نمائندے، اسمبلیوں میں نہیں پہنچ سکیں
گے۔نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن کوبھی اس معاملے پر غور کرنا چاہیے۔ |