ہمیں پی پی حکومت کا مشکور ہونا
چاہیے کہ بانی پاکستان محمد علی جناحؒ کی سالگرہ سرکاری طور پر منانے کا
اہتمام ہوا ہے۔
گزشتہ 65 برسوں میں ہم نے اتنے قائد بنا لئے ہیں کہ اپنے اصل قائد کو بھول
ہی گئے ہیں۔ بلکہ آمریتوں کے ادوار میں جان بوجھ کر قائداعظمؒ کی سالگرہ
اور برسیوں پر خاموشی اختیار کی گئی۔ پرویز مشرف کے دور میں آمریت کے کاسہّ
لیس اورشاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروںنے پاکستان کے کرنسی نوٹوں سے بانی
پاکستان کی تصویر ہٹا کر جنرل پرویز کی تصویر لگانے کا پورا منصوبہ بنالیا
تھا۔ نمونے کے طور پر ایسے نوٹ تیار بھی ہوگئے تھے۔آج بھی قائداعظمؒ کی ذات
اور ان کے افکار کو متنازعہ بنانے کا ٹھیکہ لنڈا بازار کے دانشوروں کو دے
دیا گیا ہے۔ ایسی ایسی بولیاں سنائی گئیں کہ کان پھٹنے کو آگئے ہیں۔ یوں
محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانان ہند نے یہ ملک مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ چند
امریکی غلاموں کی ناجائز خواہشوں کی بارآوری کیلئے بنایا تھا۔
”پاکستان کا مطلب کیا لاالٰہ اللہ“ والے نعرے کا تمسخر اڑایا جارہا ہے۔
اسلام کا حوالہ مٹانے کی ہر کوشش کی جارہی ہے۔ ایک گروپ نے امریکیوں کے
اشارے پر ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ میں سے اسلام کا لفظ حذف کرنے کی رٹ
لگانا شروع کررکھی ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے ہمارے دوست کالم نگار بیگ
راج نے کہیں لکھ دیا ہے ”اگر آج قائداعظم زندہ ہوتے....” تو بگرام ایئربیس
پر امریکیوں کی قید میں ہوتے“
قائداعظمؒ کی تقاریر کے حوالے سے بیسیوں تقاریر کو ایک طرف رکھ کر کسی ایک
تصویر کو اس کے سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا جاتا ہے اور ثابت کیا جاتا
ہے کہ قائداعظمؒ اس ملک کو ایک سیکولر یا بے دین ریاست بنانا چاہتے
تھے۔راقم نے راولپنڈی میں قائم ایک معتبر تھنک ٹینک“ تھنکرز فورم“ میں ایسے
ہی پھیلائے گئے تاثر کے خلاف دستاویزی ثبوتوں کا حوالہ دیکر عرض کی تھی کہ
مانا کہ یہ پاکستان اسلام کیلئے نہیںمسلمانوں کے لئے بنایا گیا تھا۔ اگر یہ
حقیقت سب تسلیم کرتے ہیں تو کوئی مسلمان بتائے کہ اس کا مذہب اور دین کیا
ہے؟ ظاہر ہے اسلام ہے۔ پھر یہ ہٹ دھرمی کیسی؟ اسلام اور مسلمان لازم و
ملزوم ہیں۔ اسلام کے بغیر مسلمان نہیں اور جو مسلمان ہے وہ اسلام کے بغیر
مسلمان رہ نہیںسکتا۔
فکرو نظر کی ان بحثوں سے بچنے کا ایک راستہ یہ ہے کہ ہم یقین کر لیں کہ
قائداعظمؒ اس مملکت خداداد کو اسلام کے فلاحی نظام سے مزین کرنا چاہتے تھے
ان کی منزل اسلامی فلاحی ریاست کا قیام تھا۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے
بحیثیت قوم‘بحیثیت مسلمان اور بحیثیت انسان اپنے اس وطن کو حقیقی فلاحی
ریاست بنانے کے لئے کوئی تگ و دو کی ہے۔”اسلامی“ تو بڑی دور کی منزل ہے ‘
اس کی پہلی سیڑھی تو ایک فلاحی ریاست ہے جو قرآن و سنت کے لازوال اصولوں پر
قائم ہو۔ کیا ہمسائے کے حقوق سے لیکر دولت کی منصفانہ تقسیم اور اختیارات
کے عوامی حق تک کوئی پیش رفت ہوئی ہے۔
ہمیں آج پھر ایک بار سوچنا ہے کہ ہماری منزل کیا ہے اور منزل کا تعین بانی
پاکستان نے ایک بار نہیں باربار‘ہر تقریر اور ہر میٹنگ میں کیا تھا۔ ہمیںان
سارے افکار کو منظر پر لانا ہے جن کو سن کر سمجھ کر ہمارے دل و دماغ اس وطن
کو اسلامی فلاحی مملکت بنانے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ ہمیں اسلام کا معاشی نظام
ترتیب دینا ہے۔رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والا مدینہ نہ سہی کم از
کم اس ماڈل کو نگاہوں میں رکھ کر آگے بڑھنا ہے۔ ہماری اس منزل کے حصول میں
جہاں سے روشنی ملے لینی ہے‘ جو مددگار ثابت ہو اس سے فکری مدد لینی
ہے۔قائداعظمؒ کو رول ماڈل کے طور پر عوام کے سامنے پیش کرنا ہے۔یہ ثابت
کرنے کی بجائے کہ ہماری حکومت جو کام کر رہی ہے وہی قائداعظمؒ چاہتے
تھے۔قائداعظمؒ کے ویژن کو بالا وبرتر رکھنا ہے۔نہ ملاں کا فساد اس ملک کو
آگے لے جاسکتا ہے نہ ہی مغرب زدہ افکار اسے سنوار سکتے ہیں امت رسول ہاشمی
کو قرآن و سنت کی روشنی میں ہی آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔
میں قارئین کے ساتھ قائداعظم کی واحد تمناشیئرکرناچاہتا ہوں جس سے قائد کا
وژن اور فلسفہ پاکستانیوں کے سامنے آئے گا‘قائداعظم نے فرمایا:
”مسلمانو! میں نے دنیا کو بہت دیکھا۔ دولت‘شہرت اور عیش وعشرت کے بہت لطف
اٹھائے۔ اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور سربلند
دیکھوں۔ میںچاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ
میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور
غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی ‘ تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض ادا
کردیا۔میں آپ سے اس کی داد اور شہادت کا طلب گار نہیں ہوں۔ میں یہ چاہتا
ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل‘میرا اپنا ایمان‘ میرا اپنا ضمیر گواہی دے کہ
جناح! تم نے واقعی مدافعتِ اسلام کا حق ادا کردیا۔جناح تم مسلمانوں کی
تنظیم‘اتحاد اور حمایت کا فرض بجالائے۔ میرا خدا یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان
پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبے میں علمِ اسلام کو سربلند رکھتے ہوئے
مسلمان مرے“۔ |