حضرت مولانا محمدیوسف کاندھلوی
اپنی تصنیف حیات الصحابہؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت ربیع بن زیدؓ فرماتے
ہیں کہ رسول اللہ ٬ﷺ راستہ کے درمیان میں درمیانی رفتار سے تشریف لے جارہے
تھے کہ اتنے میں آپ نے ایک قریشی نوجوان کو دیکھا جو راستہ سے ہٹ کر چل رہا
تھا۔ آپ نے فرمایا کیا یہ فلاں آدمی نہیں ہے؟ صحابہؓ نے کہا جی ہاں وہی
ہے۔آپ نے فرمایا اسے بلاﺅ چنانچہ وہ آئے۔حضورﷺ نے اس سے پوچھا تمہیں کیا ہو
گیا تم راستہ سے ہٹ کر چل رہے ہو؟ اس نوجوان نے کہا مجھے یہ گردوغبار اچھا
نہیں لگتا۔آپ نے فرمایا۔ارے! اس گردوغبار سے خود کو نہ بچاﺅ کیونکہ اس ذات
کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے یہ غبار تو جنت کی (خاص قسم کی) خوشبوہے۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ لوگ حضوراقدس ﷺ کے ساتھ تھے۔ہم میں سے سب سے زیادہ
سائے والا وہ تھا جو اپنی چادر سے سایہ کر رہا تھا۔جنہوں نے روزہ رکھا
ہواتھاوہ تو کچھ نہ کر سکے اور جنہوں نے روزہ نہیں رکھا تھا انہوں نے
سواریوں کو (پانی پینے اور چرنے کے لیے) بھیجا اور اور خدمت والے کام کیے
اور مشقت والے بھاری بھاری کام کیے۔یہ دیکھ کر حضورﷺ نے فرمایا جن لوگوں نے
روزہ نہیں رکھا وہ آج سارا ثواب لے گئے۔
حضرت سعید بن جمہان کہتے ہیں میں نے حضرت سفینہؓ سے ان کے نام کے بارے میں
پوچھا کہ یہ نام کس نے رکھا ہے؟ انہوں نے کہا میں تمہیں اپنے نام کے بارے
میں بتاتا ہوں۔ حضورﷺ نے میرا نام سفینہ رکھا۔ میں نے پوچھا حضور نے آپ کا
نام سفینہ کیوں رکھا؟ انہوں نے فرمایا حضورﷺ ایک دفعہ سفر میں تشریف لے گئے
اور آپ کے ساتھ آپ کے صحابہؓ بھی تھے۔ صحابہ ؓ کو اپنا سامان بھاری لگ رہا
تھا حضورﷺ نے مجھ سے فرمایا اپنی چادر بچھاﺅ میں نے بچھا دی۔حضورﷺ نے اس
چادر میں صحابہؓ کا سامان باندھ کر اسے میرے اوپر رکھ دیا۔ اور فرمایا ارے
اسے اٹھا لو تم تو بس سفینہ یعنی کشتی ہی ہو۔ حضرت سفینہؓ فرماتے ہیں کہ
اگر اس دن میرے اوپر ایک یا دو تو کیا پانچ یا چھ اونٹوں کا بھی بوجھ رکھ
دیا جاتا تو وہ مجھے بھاری نہ لگتا۔
قارئین آج کا کالم ایک کھلی ایف۔آئی۔آر ہے۔ فرسٹ اانفارمیشن رپورٹ یا پہلی
اطلاعی رپورٹ کا مقصد انصاف کے حصول کے لیے کسی بھی مظلوم کی جانب سے محکمہ
پولیس سے رابطہ کرکے انصاف کی گھنٹی بجانے کے مترادف ہے ۔آج سے چند روز قبل
ایک ایسا در د ناک حادثہ پیش آیا کہ جس نے آزادکشمیر کی بیورو کریسی اور
تمام اہل دل کی آنکھیں نم کر دیں ۔33سالہ نوجوا ن ڈپٹی کمشنر راجہ ثاقب
منیر جنہیں آزادکشمیر کی بیوروکریسی کے سر کا تاج کہا جاتا تھا وہ اپنے
فرائض منصبی کی ادائیگی کے سلسلے میں مظفرآباد اور وادی نیلم کے درمیان سفر
کر رہے تھے کہ ایک مقام پر اچانک ان کی گاڑی پر ایک چٹان گری اور یہ چمکتا
ہوا ستارہ خالق حقیقی سے جاملا ۔ویسے تو ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا
پکا عقیدہ اور ایمان ہے کہ جو رات قبر میں ہے وہ باہر نہیں اور جو باہر ہے
وہ قبر میں نہیں لیکن یہاں پر ہم آج فکری بنیادوں پر کچھ باتیں آزادکشمیر
کے حکمرانوں اور پالیسی سازوں سے کرنا چاہتے ہیں ۔ حضرت عمر ؓ کے متعلق ایک
بات اکثر دوہرائی جاتی ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ اگر فرات کے کنارے کوئی
کتا بھی بھوکا مرتا ہے تو عمر ؓ سے اس کی پوچھ ہو گی ۔ہم وزیراعظم چوہدری
عبدالمجید کی مثبت خوبیوں کے دل سے قائل ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ
آزادکشمیر کے تمام اضلاع میں وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے انتہائی کم مدت
میں متعدد میگا پراجیکٹس شروع کر کے بلا شبہ ایک ترقی کرتے ہوئے کشمیر کی
بنیاد رکھ دی ہے اور ان کی سیاسی بصیرت اور قابلیت پر ہم سمیت کسی کو بھی
کوئی شبہ نہیں ہے ۔آج کے کالم کا عنوان ” ایف ۔آئی ۔آر اور وزیراعظم چوہدری
عبدالمجید “ رکھنے کا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ خدا نخواستہ ہم اپنے پیارے
اور محبوب تھوڑے سے غصیلے لیکن انتہائی مہربان اور شفیق وزیراعظم چوہدری
عبدالمجید کے خلاف کوئی قلمی ایف ۔آئی ۔آر کٹوانے کا جرم کرنے لگے ہیں بلکہ
آج کے کالم کا بنیادی مقصد شہاب نامہ کے مصنف قدرت اللہ شہاب کی اس بات کو
دہرانا ہے جو اللہ کا ایک ولی صدر پاکستان جنرل ایوب خان کو خطوط لکھتے
ہوئے بار بار دہراتا تھا کہ
” بھیڑوں کے چرواہے سوتے نہیں بلکہ جاگ کر بھیڑوں کی رکھوالی کرتے ہیں “
قارئین وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کشمیری بھیڑوں کے رکھوالے ہیں اگر کسی کو
کوئی نقصان پہنچتا ہے تو چرواہے سے پوچھ گچھ ضرور کی جائے گی اور اگر
بھیڑیں امن اور سکون کے ساتھ زندگی گزار رہی ہیں تو یقینا چرواہے کو انعام
و اکرام سے نوازا جائے گا ۔آج کے کالم کے آغاز میںہم نے اخلاقیات کے سب سے
بڑے اور مستند مجموعے یعنی نبی کریم ﷺ اور آپﷺ کے ستاروں کی طرح چمکنے والے
روشن صحابہ کرام ؓ کے جو واقعات تحریر کیے ان کا مقصد آپ یقینا بخوبی سمجھ
چکے ہوں گے ۔راجہ ثاقب منیر شہید کی طرح گزشتہ 65سالوں میں آزادکشمیر کی
مختلف سڑکوں پر سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں معصوم اور بے گناہ انسان عرف عام
میں کہی جانے والی بات ” اللہ کی مرضی“کی نذر ہو چکے ہیں کیا کبھی کسی نے
یہ غور کرنے کی زحمت کی ہے کہ پاکستان اور آزادکشمیر کی قومی تاریخ میں
کتنے بڑے بڑے حادثوں کو ہم نے اللہ کی مرضی کہہ کر ٹال دیا ۔قائداعظم محمد
علی جناحؒ کی پر اسرار ناگہانی وفات سے لے کر نواب زادہ لیاقت علی خان کی
شہادت اور ذوالفقارعلی بھٹو شہید کے منصوبہ بندی کے تحت کیے جانے والے
سیاسی قتل سے لے کر جنرل ضیاءالحق کی انتہائی المناک C-130طیارہ کے حادثے
میں اعلیٰ ترین عسکری قیادت کی شہادت تک تمام باتیں آج تک صیغہ راز بنی
ہوئی ہیں اور باوجود اس کے کہ گزشتہ پانچ سال تک پیپلزپارٹی کی حکومت وفاق
میں بر سر اقتدار رہی لیکن شہید جمہوریت محترمہ بے نظیر بھٹو کی انتہائی
المناک شہادت کے راز سے نہ تو وہ پردہ فاش کر سکے اور نہ ہی کسی اور کو یہ
توفیق ہوئی اور تمام کے تمام معاملات ” اللہ کی مرضی“بن کر قومی راز بنے
بیٹھے ہیں آخر کیوں؟
قارئین راجہ ثاقب منیر شہید جو یقینا ایک بوڑھے باپ کے بیٹے ،ایک خاندان کا
فخر اور سرمایہ ،ہماری کشمیری بہن کے خاوند ،معصوم بچے کے والد اور نہ جانے
کیا کیا تھے ۔کیا ہم نے کبھی سوچا کہ اس سجیلے جوان کی اس شہادت نے اس
خاندان کی زندگی پر کیا کیا اثرات مرتب کیے ہوں گے ۔ہم نے اسی حوالے سے
گفتگو کرنے کے لیے ایف ایم 93ریڈیو آزاد کشمیر کے مقبول ترین پروگرام
”لائیو ٹاک ود جنید انصاری “ میں اپنے استاد محترم اور آزادکشمیر کی پرنٹ
اور الیکٹرانک میڈیا کے محترم او رمعتبر ترین نام راجہ حبیب اللہ خان کے
ہمراہ ایک خصوصی گفتگو کا اہتمام کیا جس کا عنوان ” ڈپٹی کمشنر نیلم راجہ
ثاقب منیر کی شہادت اور آزادکشمیر کی سڑکوں کی حالت زار ۔۔۔۔ذمہ دار
کون؟“تھا پروگرام میں کمال مہربانی کرتے ہوئے آل جموں کشمیر نیوز پیپر ز
سوسائٹی کے صدر سینئر صحافی عامر محبوب ،ڈی جی و سیکرٹری سیرا سردار رحیم
خان ،ڈپٹی کمشنر میرپور چوہدری گفتار حسین ،مسلم لیگ ن کے رہنما راجہ اعجاز
دلاور اور ایس ایس پی میرپور چوہدری امین نے اپنا قیمتی وقت عنائت کیا اور
اپنے اپنے جذبات اور معلومات سے ہمیں اور ہمارے لاکھوں سامعین کو آگاہ کیا
۔
قارئین آل جموں کشمیر نیوز پیپرز سوسائٹی کے صدر عامر محبوب کی باتیں دل
دہلا دینے والی تھیں ۔عامر محبوب نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ
آزادکشمیر میں گزشتہ 65سالوں سے ٹھیکیدار مافیا نے سیاست دانوں اور کرپٹ
سرکاری ملازمین کے ساتھ مل کر آزادکشمیر سڑکوں کا بیڑہ غرق کرنے میں کوئی
کسر نہیں چھوڑی ۔ایک کروڑ کی سڑک پر اگر تیس لاکھ روپے بھی خرچ ہو جائیں تو
اسے بھی غنیمت جانیے ۔سڑکوں کا ٹھیکہ ہونے کے بعد ریوائزنگ کے نام پر کرپشن
کے وہ وہ دروازے کھولے جاتے ہیں کہ ایک عام آدمی سوچ بھی نہیں سکتا کہ عوام
کے خون پسینے کی گاڑھی کمائی کو یہ ٹھیکیدار مافیا کرپٹ سیاستدانوں اور
کرپٹ سرکاری افسران کو رشوت دیتے ہوئے پانی کی طرح ضائع کر رہا ہے ۔عامر
محبوب کا کہنا تھا کہ آزاد کشمیر کے نارتھ کے علاقوں مظفرآباد ،وادی نیلم
،اٹھ مقام ،ہٹیا ںبالا اور ٹائیں ڈھلکوٹ سے لے کر دھیر کوٹ اور اسی طرح
راولاکوٹ ،باغ سمیت جس بھی ضلع کی طرف نظر اٹھا کر دیکھیں تو آپ کو
ٹھیکیدار مافیا ، کرپٹ حکمران اور بد عنوان بیورو کریسی کے کارنامے دکھائی
دیں گے جن کی وجہ سے آج ڈپٹی کمشنر نیلم راجہ ثاقب منیر جیسا سجیلا اور
خوبصورت جوان شہید ہو کر ہم سے جدا ہو گیا ۔عامر محبوب کا کہنا تھا کہ
گزشتہ پینسٹھ سالوں کے دوران آزادکشمیر میں محکمہ شاہرات نے اربوں روپے کی
کرپشن کی ہے اور اس مدت میں کئی سو ارب روپے سڑکوں کے نام پر ٹھیکیدار
مافیا ،کرپٹ سیاستدانوں اور محکمہ شاہرات اور بل پاس کروانے والے دیگر ذمہ
داران ہڑپ کر چکے ہیں اگر سڑکوں کے نام پر منظور شدہ رقم کا نصف حصہ بھی
واقعی شاہرات پر خرچ کیا جاتا تو آ ج آزاد کشمیر کی سڑکیں موٹر وے لیول کی
ہوتیں ۔پروگرام کے دوسرے مہمان آزادکشمیر کی بیوروکریسی کا ایک بہت بڑا نام
تھا سردار رحیم خان جو آج کل سیکرٹری و ڈائریکٹر جنرل سیرا ہیں انہوں نے
گفتگو شروع کی تو ان کی باتوں کے اندر دکھ اور غم کی گہرائی واضح طور پر
دکھائی دے رہے تھی ۔سردار رحیم خان کا کہنا تھا کہ راجہ ثاقب منیر شہید ایک
انتہائی دیانتدار اور باصلاحیت نوجوان تھا ڈپٹی کمشنر نیلم ہونے کی حیثیت
سے ان کے کارنامے سب کے سامنے ہیں مظفرآباد سے لیکر وادی نیلم تک کی سڑک
انتہائی دشوار گزار ہواکرتی تھی لیکن اب یہ سڑک نئے سرے سے تعمیر کی گئی ہے
سردار رحیم خان نے بتایا کہ میں بھی جب آج سے بہت پہلے ڈپٹی کمشنر مظفرآباد
تھا تو وادی نیلم کا انتظام وانصرام دیکھنے کیلئے سفر کرنے کا اتفاق ہوا
کرتاتھا اس دور کی سڑک اورآج کی سڑک میں زمین آسمان کا فرق ہے استاد محترم
راجہ حیبب اللہ خان نے سرد گرم چشیدہ انتہائی دیانت دار بزرگ بیوروکریٹ
سردار رحیم خان سے ایک سوال کیا کہ سردار صاحب آپ یہ بتائیے کہ جس سڑک پر
یہ حادثہ پیش آیا کہ جس میں ڈپٹی کمشنر نیلم راجہ ثاقب منیر شہید ہوئے یا
آزادکشمیر کی وہ تمام سڑکیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اور محکمہ
شاہرات کی مہربانیوں سے سارا سال زیر تعمیر رہتی ہیں اور اس کے باوجود ہر
سال کئی قیمتی جانیں سڑکوں کی حالت زار کی وجہ سے ضائع ہوتی ہیں ان سب
حادثوں کا ذمہ دار کون ہے اس پر انتہائی ذہین اور دانشمند بیوروکریٹ سردار
رحیم خان نے انتہائی محتاط انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ شاہرات
کا شعبہ ان کے پاس نہیں ہے اوراس کا درست جواب متعلقہ لوگ ہی دے سکتے ہیں
لیکن میں اتنا ضرور کہتاہوں کہ مظفرآباد سے لیکر تمام بالائی پہاڑی علاقوں
میں اگر بین الاقوامی معیار کی ایسی سڑکیں تعمیر کی جائیں جنہیں فول پروف
کہاجائے تو اس پر فی کلو میٹر 15کروڑ روپے کے اخراجات کا تخمینہ موجو د ہے
سردار رحیم خان نے کہا کہ آزادکشمیر کے مختلف علاقوں میں معیاری سڑکیں
بنانے پر کام کیاجارہاہے تاکہ عوام کی زندگیاں دوران سفر محفوظ رہ سکیں
ہمارے پروگرام کے اگلے مہمان مسلم لیگ ن آزادکشمیر کے رہنما راجہ اعجاز
دلاور کا یہ کہنا تھا کہ پاکستان میں سڑکوں کے حوالے سے اگر کسی لیڈر نے
کوئی کام کیاہے تو وہ میاں محمد نوازشریف ہیں ڈپٹی کمشنر نیلم راجہ ثاقب
منیر کی شہادت سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے اور جلد ہی پاکستان میں مسلم لیگ
ن کی حکومت آنے کے بعد آزادکشمیر بھر میں معیار ی شاہرات تعمیر کی جائیں گی
پروگرام کے اگلے مہمان ڈپٹی کمشنر میرپور چوہدری گفتار حسین نے ڈپٹی کمشنر
نیلم راجہ ثاقب منیر کی شہادت اور جوانی کی وفات کو ان کے خاندان اورپوری
کشمیری قوم کیلئے ایک بہت بڑا سانحہ قراردیا استاد محترم راجہ حبیب اللہ
خان نے ان سے بھی آزادکشمیر کی سڑکوں کی حالت زار اور ذمہ داروں کے تعین کی
جب بات کی تو ڈپٹی کمشنر چوہدری گفتار حسین کا جواب سچائی اور جذبات سے
لبریز تھا ان کا کہنا تھا کہ آزادکشمیر قدرتی طور پر ایک ایسا پہاڑ ی علاقہ
ہے کہ جہاں پر نارتھ کے علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ روز کا معمول ہے ضرورت اس
امر کی ہے کہ سڑکیں بناتے ہوئے تمام حفاظتی احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں
تاکہ مستقبل میں کسی بھی بڑے حادثے سے بچا جاسکے ہمارے پروگرام کے آخری
مہمان ایس ایس پی میرپور چوہدری امین تھے چوہدری امین نے دل گرفتگی کے
انداز میں بتایا کہ راجہ ثاقب منیر شہید ڈپٹی کمشنر نیلم ان کے بیچ میٹ تھے
اور ان کی شخصی خوبیوں سے جتنی آگاہی انہیں ہے وہ شائد کم لوگوں کو ہو راجہ
ثاقب منیر کی اس جوانی کے اندر ہونے والی شہادت کا صدمہ ساری زندگی میرے
ساتھ رہے گا اللہ تعالیٰ سے میں یہ دعا کرتاہوںکہ اللہ مرحوم کے اہل خانہ
اور خاندان کو صبر جمیل عطا فرمائے -
قارئین یہاں ہم چچا غالب کی زبان میں وزیر اعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید
اور آزادکشمیر کی تمام دیانتدار بیوروکریسی سے کچھ عرض کرنا چاہیں گے ۔
نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلی نہ سہی
امتحاں اور بھی باقی ہو تویہ بھی نہ سہی
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحہ ءغم ہی سہی نغمہءشادی نہ سہی
نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا
گر نہیں ہیں مرے اشعارمیں معنی نہ سہی
عشرت ِ صحبت ِ خوباں ہی غنیمت سمجھو
نہ ہوئی غالب اگر عمر ِ طبیعی نہ سہی
قارئین اب کالم کا آخری حصہ ۔ہماری معلومات کے مطابق مظفرآبا د سے اٹھمقام
تک پہلے جو سڑک موجودتھی اس پر چھ سے آٹھ گھنٹے سفر کرتے ہوئے لوگ اپنی
منزل مقصود تک پہنچتے تھے یہ سڑک حال ہی میں چائنیز کمپنی نے تعمیر کی ہے
اور اس کیلئے فنڈز ایشین ڈویلپمنٹ بنک نے فراہم کیے ہیں اور آج کل پی ڈبلیو
ڈی شعبہ شاہرات نارتھ اس کا انتظام وانصرام سنبھالے ہوئے ہے جبکہ شعبہ
شاہرات کے سیکرٹری انتہائی قابل اور ذہین سیکرٹری فیاض علی عباسی ہیں جبکہ
وزیر شاہرات چوہدری رشید اس محکمے کے سربراہ ہیں اس تمام حادثے اور سڑکوں
کی حالت زار پر ہم نے جو گفتگو کی ہے اس میں چند باتیں آپ سب کی توجہ کی
متقاضی ہیں برطانیہ امریکہ یورپ جاپان سے لیکر دنیا بھر کے ترقی یافتہ
ممالک اور تہذیب یافتہ معاشروں میں اگر سڑکوں پر سفر کرنے کے دوران کسی شہر
ی کو کسی بھی محکمہ کی وجہ سے کوئی نقصان پہنچے یا حتیٰ کہ ”ترا ہ “بھی نکل
جائے تو وہ شہری عدالت پہنچ کر متعلقہ ذمہ دار محکمے یا اتھارٹی پر کیس
دائر کردیتاہے اور اسے اس کا جرمانہ یا ہرجانہ اداکیاجاتاہے آزادکشمیر میں
ہر سال درجنوں افراد سڑکوں کی حالت زار کی وجہ سے موت کے گھاٹ اترجاتے ہیں
ان تمام اموات کا ذمہ دار کون ہے وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید صاحب کشمیری
بھیڑوں کے رکھوالے اس وقت آپ ہیں اگر قیامت کے دن حضرت عمر ؓ جیسی برگزیدہ
شخصیت جنہیں دنیا میں ہی جنت کی بشارت دے دی گئی تھی اس جواب دہی سے ڈرتے
ہیں کہ فرات کے کنارے مرنے والے کتے کا جواب عمر ؓ کیسے دیں گے تو میں آپ
اور ہم سب کس کھیت کی گاجر مولی ہیں ہماری معلومات کے مطابق یہ سڑک معیاری
ہے لیکن حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں بارشوں کے موسم میں اکثر
اوقات لینڈ سلائیڈنگ ہوتی ہے اور اس کی ذمہ داری محکمہ شاہرات اور محکمہ
جنگلات کے سر ہے اگر لینڈ سلائیڈنگ والے علاقے میں شجرکاری کی جاتی اور
زمینی کٹاﺅ نہ ہوتا تو یہ حادثہ بھی پیش نہ آتا ہمیں یقین ہے کہ ہمارے آج
کے اس ادھورے کالم کو کشمیری قوم کے رکھوالے اور چرواہے وزیر اعظم چوہدری
عبدالمجید پورا کریں گے آج کی ایف آئی آر ہم وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید کی
عدالت میں درج کروا رہے ہیں ہمیں امید ہے کہ وہ ہم پر غصہ کیے بغیر روز
قیامت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان تمام اداروں ،ذمہ داروں اور مافیاز کو احتساب
اور قانون کے کٹہرے میں لائیں گے جن کی وجہ سے ڈپٹی کمشنر نیلم راجہ ثاقب
منیر بھی شہید ہوئے اور گزشتہ 65سالوں سے سینکڑوں کشمیری شہید ہوچکے ہیں
۔۔۔رہے نام اللہ کا ۔۔۔ |