ایک بار پھر تحریک انصاف کے جلسے
میںشدید آندھی اور بارش۔آپ جانتے ہیں کہ جب سونامی آتا ہے توآندھی اور بارش
ساتھ لاتا ہے ۔23مارچ لاہور مینار پاکستان میںعمران خان کی آمد کے موقع
پرخالق کائنات نے تیزہواﺅں کے ساتھ بارش برسا کرایک بار پھر تحریک انصاف کے
سونامی کی گواہی دے دی ہے ۔اس سے پہلے بھی تحریک انصاف کے جلسوں کے موقع پر
آندھی اور بارش حملہ کرچکی ہے ۔اب تحریک انصاف کا سونامی یعنی بڑھا طوفان
تو ثابت ہوچکا لیکن یہ سونامی کن بستیوں میں تباہی و بربادی پھیلائے گا اور
کن بستیوں کے لیے ابررحمت بن کربرسے گا یہ تو آنے والاوقت ہی بتا سکتا ہے ۔ٹھیک
ہے کہ عمران خان مینار پاکستان لاہور میں دوسرا بڑھا سیاسی جلسہ کرنے میں
کامیاب ہوگئے ہیں لیکن میں جلسوں اور جلوسوں کی سیاست پر یقین نہیں رکھتا
اور نہ اُن جلسوں میں کی جانے والی تقریروں اور وعدوں کو سچ مانتا ہوں ۔کیونکہ
جب سیاست دان ہزاروں عوام کے سامنے تقریر کرتے ہیں وہ کبھی بھی یہ نہیں کہ
سکتے کہ وہ عوام سے جھوٹ بولیں گے یا اُن کا جینا مرنا ملک و قوم کے ساتھ
نہےں ہوگا ۔ووٹ لیتے وقت کوئی سیاست دان یہ نہیںکہتاکہ وہ اقتدار میں آکر
اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرے گا، یہاں مجھے ایک سٹیج ڈرامے میں بولا
ہواسہیل احمد کا ایک جملہ یاد آرہا ہے ۔جس میں اُن کا اشارہ حکمرانوں کی
طرف تھا ”پہلے سب یہی کہتے ہیں مزدوری کریں گے لیکن جب مزدوری مل جائے تو
راج کرنے لگتے ہیں“‘یہ ایک جملہ صاف صاف بتا رہا ہے کہ جب عام انتخابت کا
وقت ہوتا ہے تو سیاست دان عوام کے ساتھ بہت خوبصورت وعدے اوردعوے کرتے
ہیں،بڑوں کو باپ اور چھوٹوں کو بیٹا کہتے ہیں ،بیٹیوں کے سروں پر ہاتھ بھی
رکھتے ہےں، اس انداز میں اداکاری کرتے ہیں جیسے وہ صدیوں سے عوام کے ساتھ
ہیں ، لیکن یہ بھی سچ ہے جو شائد عوام نہیں جانتے کہ جب یہ لوگ غریب عوام
سے ہاتھ ملاکر یاکسی غریب کی بیٹی کے سرپر ہاتھ رکھتے ہیں تو فوراگاڑی میں
رکھے ڈیٹول اور قیمتی صابن سے ہاتھ دھوتے ہیں تاکہ جراثیم کی وجہ سے کوئی
بیماری نہ لگ جائے،جتنی دیر سیاست دان عوام کے درمےان موجود رہتا ہے اُس کے
گھر والے اور وہ خود بارگاہ الٰہی میں دعاگو رہتے ہیں کہ یااللہ رحم کر اور
غریبوں کے جراثیموں سے حفاظت فرما۔شائد یہ لوگ غربت ہی کو سب سے بڑی بیماری
سمجھتے ہیں جو امیر بننے کے لیے اپنے والدین ،بہن بھائیوں اور بیوی بچوں تک
کی لاشوں پر بھی سیاست کرنے سے باز نہیں آتے۔لیکن قدرت خُدا کی دیکھو اِن
تمام تندرست سیاست دانوں کو غریب اور بیمار عوام کے پاس لازمی آنا پڑتا
ہے۔2013ءکے عام انتخابات میں ایک بات خاص اور نئی ہے کہ نوجوان نسل سیاست
میں دلچسپی لے رہی ہے ۔ماضی میں عوام اور اُن کے ووٹ علاقے کے بڑوں یعنی
جاگیردار وںاور وڈیروں کے ٹوکرے تلے ہواکرتے تھے لیکن اس بار صورتحال کچھ
مختلف نظر آرہی ہے ۔مجھے لگتا ہے کہ 2013ءکے عام انتخابات میں ووٹ دیتے وقت
بچوں اور والدین میںاختلافات سامنے آئیں گے ۔آج نئی نسل تحریک انصاف کے
پلیٹ فارم پرجمع ہوچکی ہے اور کسی صورت کسی دوسری جماعت کوووٹ دینے کے لیے
تیار نظر نہیں آتی ،اُس پر عمران خان کا یہ وعدہ کہ ظلم کے خلاف جہاد کروں
گا،ایک پیسہ بھی ملک سے باہر نہیں ہوگا،قوم کے ساتھ ہمیشہ سچ بولوں گابالکل
نئے سیاسی وعدے ہیں۔ جہان تک بات ہے ٹیکس کے پیسوں کی حفاظت کرنے کی تو وہ
سمجھ میں نہیں آتی کیونکہ پاکستان میں امیر وں یعنی حکمرانوں اور اُن کے
رشتہ داروں نے کبھی ٹیکس دیا ہی نہیں اس لیے پہلے کرنے کا کام تو’وڈے ٹیڈ“
والوں کے پیٹ پھاڑ کر پچھلے 65سالوں کا ٹیکس نکالاجائے یہ بات آپ سب جانتے
ہیں کہ یہ کام اتنا آسان نہیں جتنا کہ کسی سیاسی جلسے میں تقریر کرنااور
پھر عمران خان کے ارد گرد بھی وہی لوگ موجود ہیں جو پچھلے 65سالوں سے دیمک
کی طرح عوامی ہڈیوں کو چاٹ رہے ہیں ۔مجھے نہیں لگتا کہ عوامی حمایت حاصل
ہونے کے باجود موجودہ ٹیم کے ساتھ کپتان کوئی بڑھا میچ جیت پائے گا،لیکن اس
بات کی خوشی ضرور ہے کہ نوجوان نسل سیاسی میدان میں اتر چکی ہے ، عمران خان
کو چاہئے کہ ان نوجوانوں میں سیاسی شعور اجاگر کرے اور ایک نئی ٹیم تیار
رکھے تاکہ وقت پڑنے پر کسی پرانے کھلاڑی کی جگہ نیاءپرجوش کھلاڑی شامل کیا
جاسکے ۔یہ ٹیم پرانے کھلاڑیوں کو اشارے کاکام بھی دے گی کہ اپنا کام
ایمانداری سے نہیں کریں گے تو اُن کی جگہ کام کرنے کے لیے کپتان کے پاس اہل
متبادل کھلاڑی موجود ہیں۔اب تک تحریک انصاف کی ٹیم میں تمام سینئر کھلاڑی
وہ ہیں جن کی تربیت دوسری سیاسی اکیڈمیوں مےںہوئی ہے ۔جب تک کپتان اپنے
کھلاڑی خودتیار نہیں کرے گا اُس وقت تک تحریک انصاف کو ناقابل شکست قرار
نہیں دیا جاسکتا ۔یہ پرانے کھلاڑی کسی بھی وقت اُڑان بھرنے کی صلاحیت رکھتے
ہیں اور پھر ملک کی تما م سیاسی چھتریوں سے اچھی طرح واقف بھی ہیں اگر
کپتان ان کو ان کی مرضی کے خلاف بیٹنگ یا بولنگ کروائے گا تو قوی امکان ہے
کہ بہت سے کھلاڑی کبوتروں کی طرح ایک سے دوسری چھت کا انتخاب کرنے میں دیر
نہ لگائیں ۔بے شک سیاسی میدان کے ماہر کھلاڑیوںکے تحریک انصاف میں شامل
ہونے سے تحریک انصاف مضبوط ہوئی ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا
جاسکتا جو کپتان اپنے لیے نئے اور اہل کھلاڑی تیارکرنے کی صلاحیت نہیں
رکھتے اُن کی ٹیم زیادہ دیر تک اچھا کھیل پیش نہیں کر سکتی۔کوئی ایک میچ
جیت کر پاکستان کے مسائل کو حل کرنے کا خیال ایک خواب کی ماند ہے۔اس لیے
کپتان کوچاہئے کہ اپنی نئی ٹیم کو ہر وقت تیار رکھے اور ایک کھلاڑی کے ان
فٹ ہونے پر فوری طور مکمل فٹ کھلاڑی میدان میں اُتارنے میں دیر نہ لگائے : |