آزادی کے مد مقابل یوں تو غلامی
کا لفظ آتا ہے اور غلامی کا مفہوم عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ کوئی
انسان یا گروہ ، قوم یا نسل کسی دوسرے انسان یا گروہ ، قوم یا نسل کے
ہاتھوں غلام بنا دی جائے۔ آج اس طرز کی جسمانی غلامی ظاہری طور پر ختم
ہوجانے کے باوجود حقیقی اعتبار سے فکری، معاشی، سیاسی اور ثقافتی غلامی میں
تبدیل ہو چکی ہے۔ حقیقتاً غلامی کا خاتمہ نہیں شکل تبدیل ہوئی ہے۔ لیکن یہ
'غلامی' اور 'آزادی' آج ہماری گفتگو کا موضوع نہیں۔ اس کو ہم کسی اور وقت
کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔ ہاں اگر عافیہ کو اس کے جسم سے اٹھتی ٹیسوں نے
اجازت دی تو وہ اس بار بھی 30 مارچ 2003ء کا وہ دن ضرور یاد کرے گی۔ کہ جس
دن اُس کے محافظوں نے اُسےروشنیوں کے شہر سے نکال کر اندھیری کوٹھڑی کے
سپرد کر دیا۔ وہ محافظ، جنہوں نے صلیبیوں کے لئے اپنی سرزمین کو شکار گاہ
بنا دیا تھا اور اس کے بدلے کئی ملین ڈالر انعام میں پائے۔ محمد بن قاسم
اور طارق ابن زیاد کو پڑھنے والی عافیہ کو اس قوم کے وقار کا اس روزپتہ چلا
ہوگا، جس دن دختر فروشوں نے اُسے ہتھکڑیاں پہنا کر دشمنوں کے حوالے کر دیا
تھا۔ معلوم نہیں کہ انہوں نے عافیہ کے سر کی کتنی قیمت وصول کی ہوگی۔ یقیناً
بہت بھاری ہوگی کیونکہ طاغوتوں کے سامنے پورے قد سے کھڑے ہونے والوں کے سر
بڑے قیمتی ہوتے ہیں، کوڑیوں کے مول تو وہ کھوپڑیاں ملتی ہیں جو جابروں کی
دہلیز پر سجدہ ریز ہوتی ہیں۔ صرف چند لمحوں کے لئے سوچیےکہ ایک پنجرے میں
قید برہنہ مسلمان عورت کے سامنےمرد اہلکار قہقہے لگائیں تو اُس کی عزت نفس
کتنی بار موت کی تکلیف سے گزرے گی۔ یہ وہ عورت ہے جس نے مغرب کے بے حجابانہ
ماحول میں حجاب کی لاج رکھی اور ستر پوشی کا جو وعدہ اُس سے قرآن نے لیا
تھا اُسے ہمیشہ پورا کرنے کی کوشش کی۔ جب اُس کے کانپتے ہوئے ہونٹوں
نےتہذیب کے علمبرداروں سے بس اتنا کہا کہ"مجھے قرآن لا دو "، تو ستم گروں
نے پتھریلی دیواروں پر ایک اللہ کے آگے جھکنے والے اُس سر کو اتنا مارا کہ
اُس چشم نم کو اب کم دکھائی دیتا ہے۔ وہ شیرنی کی طرح دھاڑتی رہی یہاں تک
کہ جسم پر مسلسل پڑنے والے بندوق کے بٹوں نے اُسےخاموش کرا دیا اور وہ
بیہوش ہوگئی۔ پنجرے میں قید عافیہ کچھ دیر کے لئے بیہوش ہوئی تھی مگر
حقیقتاً ہم کافی دیر سے بے ہوش ہیں۔ ہم ایسی راکھ بن چکے ہیں کہ اب کوئی
کسی چنگاری کی آرزو میں اِس راکھ کو نہ کریدے۔
ہاں البتہ اگراُسی لمحے طالبان کی گولی کسی ملالہ کے پاس سے گزر جاتی اور
دہشت گردی کی یہ داستان میڈیا پر چلائی جاتی تو شاید ریلہ بھی نکلتا اور
ریلی بھی! فتوے بھی دیے جاتے اور آپریشن بھی ہوتے۔ یا رب ذوالجلال! عافیہ
پر چلنے والی گولی کام کیوں نہ دکھا سکی۔ ایم-4 رائفل کی گولیاں جو پہاڑ کو
چیرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ عافیہ کو شہید کیوں نہ کر سکیں۔ شایہ امت کا
امتحاں مقصود تھا۔ بھلا کونسی امت، وہ امت جو بے عزتی اور بے حمیتی کے
تازیانے تو جھیل سکتی ہے، مگر عافیہ کے لئے ٹس سے مس ہونا اُس کے بس میں
نہیں۔ جس کے قائدین نے ڈالروں کے عوض بردہ فروشی کر کے خود گوانتانامو بے
کو سجایا ہے۔ اپنی جانوں کے عوض اپنی بیٹیوں کو دشمن کے سامنے پیش کر دینے
والے صلیبی مفاد میں مداخلت کیسے کر سکتے ہیں۔
اے مسلمانو! یہ صرف ایک عافیہ کی نہیں بلکہ ان کافروں اور منافقوں کے عقوبت
خانوں میں عافیت کی دعائیں مانگتی کتنی بہنوں اور بھائیوں کی التجائیں ہیں
جو ہمارے تک پہنچتے پہنچتے گھٹ کر ختم ہو جاتی ہیں یا پھر جنہیں ہماری
سماعتیں سلب کر لیتی ہیں۔ ابو غریب جیل میں تڑپتی ہوئی فاطمہ بھی ہم سے
کہتی ہے "اے میرے بھائیو! ہمارے بارے میں اللہ سے ڈرو، اپنا رُخ ابو غریب
جیل کی طرف موڑ لو، ہمیں بھی ان کفار کے ساتھ مار ڈالو شاید کہ ہمیں سکون
نصیب ہو جائے"۔ اس سے پہلے کہ اللہ کا حکم آجائے اور بے غیرت حکمرانوں کے
لئے اللہ کی زمین تنگ ہوجائے، اِس قوم کو جاگنا ہوگا اور یہ جاننا ہوگا کہ
ابھی ہم آزاد نہیں ہیں۔ اُنہیں نہ صرف "دخترفروش آمر" سے حساب لینا ہوگا
بلکہ اُن حکمرانوں کو جھنجھوڑنا ہوگا جو عوامی مینڈیٹ پر ناز کرتے ہیں لیکن
اپنی بیٹیوں کو امریکی قید سے چھڑانے کے لئے حیلے بہانے کرتے ہیں۔ اگر بے
حسی کا لبادہ اوڑھنے والی یہ قوم اسی طرح چُپ رہی تو یاد رکھیے کہ یہاں کسی
بھی لمحے کسی کی بھی باری آسکتی ہے۔ |