پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنی
آئینی مدت پوری کر لی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ
جمہوری حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی ہے۔ یوںتو پورے ملک کے بارے میں
بات کی جاسکتی ہے کہ اس حکومت نے ملک کیلئے کیا کیا اور کیا نہ کیا۔ تاہم
اس کالم میں جنوبی پنجاب جس کو ہم سرائیکی وسیب کہتے ہیں کے بارے میں یہ
جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس علاقہ کے مسائل کے بارے میں پیلزپارٹی
کی حکومت کیا کرتی رہی ہے اور اس سلسلہ میں اس کی کارکردگی کیا رہی ہے۔
پہلے ہم مختلف اخبارات میں شائع ہونے والی ان خبروں کو اس کالم میں شامل
کررہے ہیں جن میں اس علاقہ کے مسائل اجاگر کیے گئے ہیں۔ ستمبر دوہزار بارہ
کے ایک اخبار میں ایک خبر یوں شائع ہوئی ہے کہ بجلی کی بڑھتی ہوئی لوڈشیڈنگ
کی وجہ سے پاورلومز صنعت کے ہزاروں مزدور بے روزگار ہو کر رہ گئے ہیں جس کی
وجہ سے پاور لومز کی صنعت میں کام کرنے والے ہزاروں مزدوروں کو پریشانی کا
سامنا ہے۔ مزدوروں نے اخبار کے نمائندے کو بتایا کہ وہ دیہاڑی پر کام کرتے
ہیں لیکن بڑھتی ہوئی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے وہ ہفتہ میں دودن بھی کام نہیں
کرسکتے۔ جنوری دوہزار تیرہ کے ایک اخبار کی خبر کچھ یوں ہے کہ ملتان سمیت
جنوبی پنجاب میں بجلی کا بحران جاری ۔ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ اٹھارہ گھنٹے تک
پہنچ گیا۔ بجلی بحران کے باعث گھریلو، تجارتی، صنعتی اور زرعی صارفین یکساں
متاثر ہو رہے ہیں ۔ اسی اخبار میں ایک نمائندے کا مکتوب بھی شائع ہوا ہے اس
میں لکھا ہے کہ لیاقت پور میں سید حامد سعید کاظمی کی کاوشوں سے سوئی گیس
منصوبہ مکمل ہوا ۔ اب جبکہ شہر اور نواحی قصبات اور دیہات میں محلوں اور
گلیوں میں گیس پائپ لائن بچھانے اور کنکشن دینے کا عمل جاری ہے ۔ ایک مسئلہ
کھل کر سامنے آیا ہے کہ یہاں کنکشن کے درخواست گزاروں اور صارفین کو محکمہ
سوئی گیس کے تمام معاملات کیلئے لیاقت پور شہر سے پچاس کلومیٹر دور خان پور
جانا پڑتا ہے۔ دسمبر دوہزار بارہ کے ایک اخبار کی خبر یہ ہے کہ ڈی سی
اوملتان نسیم صادق نے کہاہے کہ شہر میں اربوں روپے سے تعمیر شدہ فلائی اوور
ز کے باوجود ٹریفک کے مسائل حل نہیں ہوئے۔ جس کی بڑی وجہ تجاوزات اور لنک
روڈز کی بہتر منصوبہ بندی نہ ہونا ہے۔ فروری دوہزار تیرہ کے ایک اخبار ایک
خبر اس طرح شائع کی ہے کہ چیئر مین سول سوسائٹی نیٹ ورک بہاولپور شیخ عباس
رضا نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ سال دوہزار بیس تک بجلی کی طلب تیس
ہزار میگا واٹ تک پہنچ جائے گی۔ لوڈشیڈنگ مہنگائی کے خاتمہ کیلئے تھرکول
پراجیکٹ ہنگامی بنیادوں پر فوری مکمل کیا جائے پاکستان کے قابل فخر
سائنسدانوںنے تین سال کی کاوشوں کے بعد تھرکول پرجیکٹ سے بجلی،ڈیزل،گیس اور
کھاد دستیاب کرکے ناممکن کو ممکن بنا دیا ہے۔ لیکن حکومت کی جانب سے عدم
دلچسپی اور فنڈز کی مناسب فراہمی نہ ہونے کے باعث تھرکول پراجیکٹ تعطل کا
شکار ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ تھرکول پراجیکٹ پاکستان کیلئے نعمت غیر مترقبہ
ثابت ہو سکتا ہے ۔مارچ دوہزار تیرہ کے ایک اخبار کی خبر ہے کہ وفاقی حکومت
نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں پانچ سال قبل منظور شدہ ملتان
شہر کے سولہ کلومیڑ طویل نادرن بائی پاس فیز ٹو کا تعمیراتی منصوبہ ختم
کردیا ۔ جنوری دوہزار تیرہ کے ایک اخبار میں فورٹ عبا س سے خبر ہے کہ
سینکڑوں کسانوں نے فورٹ عباس کے نواحی قصبہ مروٹ میں حکومت اور واپڈا کے
خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا شرکاءنے کہا کہ ہمارے اوپر واپڈا مظالم کی انتہا
ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم غریب کاشتکاروں پر اوور جارجنگ فیول
ایڈجسٹمنٹ اور مختلف ٹیکسوں کی مد میں بھاری بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ انہوں نے
کہا کہ ہمارے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو وہ بلوں کی ادائیگی بند کردیں گے۔
جنوری دوہزار تیرہ کے ایک اخبار کی خبر یہ ہے کہ ملتان ڈویژن میں گیارہ سے
زائد سٹال ٹھیکہ پر نہ دیے جانے سے محکمہ ریلوے کو سالانہ چون لاکھ روپے سے
زائد کا خسارہ ہورہا ہے بند سٹالوں میں دو ملتان اسٹیشن، ایک بہاولنگر ، دو
بھکر اور پانچ خانیوال اسٹیشن پر بغیر ٹھیکہ خالی پڑے ہیں جن میں سے ماہانہ
کرایہ ساٹھ ہزار سے ایک لاکھ تک ممکن ہے۔ فروری دوہزار تیرہ کے ایک اخبار
کی خبر یوں ہے کہ ڈیرہ غازیخان میں سوئی گیس کی غیر اعلانیہ بندش کےخلاف
سینکڑوں افراد نے احتجاج کیا ہے خواتین نے گیس کی کمی کے باوجود بھاری بھر
کم بل بھجوانے پربل پھاڑ کر جلا ڈالے۔ فروری دوہزار تیرہ کے ایک اخبار کی
خبر ہے کہ محکمہ سوئی گیس نے میٹروں کی تنصیب کے ریٹ مقرر کررکھے ہیں۔ دو
ہزار روپے فی میٹر وصول کرکے میٹر لگانے لگے۔ دسمبر دو ہزار بارہ کے ایک
اخبار کی خبر یہ ہے کہ وزارت پانی وبجلی کی نئی ٹیم بجلی کے بحران کو حل
کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ پنجاب کی صنعتوں کو بجلی دوہزار تیرہ میں بھی
بند رہنے کا امکان ہے۔ وزارت پانی وبجلی کی پہلی ترجیح گھریلوصارفین ہیں
الیکشن قریب دیکھ کر حکومت عوام کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔
نرگس سیٹھی کی ٹیم کے دعوے اور اندازے ناکام ہو گئے۔ جنوری دوہزار تیرہ کے
ایک اخبار میں ایک کالم شائع ہوا ۔ جس میں لکھا ہے کہ بحیثیت وزیراعظم
پاکستان سید یوسف رضا گیلانی نے اپنے پہلے دورہ جمال دین والی کے دوران
اپنے نانا سئیں شہرکیلئے جس گرلز اور بوائز کالج کا اعلان کیاتھا ساڑھے چار
سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی اس پر پیش رفت نہیںہوسکی۔ پیپلز پارٹی کی
حکومت نے اپنی مدت تو پوری کرلی ہے تاہم قوم نے ان سے جو مثبت توقعات
وابستہ کی تھیں وہ پوری ہونا تو دور کی بات ہے ۔ اس طرف توجہ بھی بہت کم دی
گئی۔ مارچ دو ہزار تیرہ کے ایک اخبار میںخبر ہے کہ پیپلز پارٹی کے ممبر
صوبائی اسمبلی کرنل (ر)نوید ساجد کی تحریک اور درخواست پر وفاقی حکومت نے
لیاقت پور میں ریلوے انڈر پاس کی منظوری دے دی ہے۔ جس پر تقریباً بیس کروڑ
روپے لاگت آئے گی۔ مئی دوہزار بارہ کے ایک اخبار کی شہ سرخی ہے کہ سرائیکی
صوبے کا مطالبہ میر انہیں چار کروڑ عوام کا ہے ۔ یہ کہا ہے اس وقت کے وزیر
اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی نے ۔فروری دوہزار تیرہ کے ایک اخبار میں اللہ
آباد سے ایک خبر شائع کی ہے کہ سابق وفاقی وزیر سیف اللہ خان نے کہا ہے کہ
پیپلزپارٹی صوبہ بنانے میں متفق ہے تو ن لیگ اس کی پیشکش قبول کرے۔ دسمبر
دوہزار بارہ کے ایک اخبار میں ایک خبر یوں شائع ہوئی ہے کہ سابق وزیر اعظم
پیپلز پارٹی کے مرکزی وائس چیئر مین سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ
جنوبی پنجاب صوبہ نہ بنا تو وہ تحریک چلائیں گے ۔ ورنہ تخت لاہور کے حکمران
ہمیں چین سے نہیں بیٹھنے دیں گے۔ آئندہ الیکشن صوبے کے حامیوں اور مخالفین
میں ہوگا ۔ فروری دوہزار تیرہ کے ایک اخبا ر میں خبر ہے کہ رکن قومی اسمبلی
عبد القادر گیلانی نے کہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بہالپور
جنوبی پنجاب صوبہ بنانے میںمخلص ہے ۔ مارچ دوہ ہزار تیرہ کے ایک اخبار کی
شہ سرخی ہے کہ ملتان میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی رہائش گاہ پر
اراکین پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی سے بات چیت کرتے ہوئے صدر پاکستان آصف
علی زرداری نے کہا ہے کہ جنوبی پنجاب کے عوام کوعلیحدہ صوبہ دینے کا وعدہ
یقینی بنایا جائے گا۔ جمہوری حکومت نے اپنے پانچ سال مکمل کیے ہیں۔ جو ملکی
تاریخ میں سنگ میل ہے۔ فروری دوہزار تیرہ کے ایک اخبار نے ایک خبر اس طرح
شائع کی ہے کہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ بہالپور جنوبی
پنجاب صوبے کے قیام کی منزل دور نہیں ۔ حالات جیسے بھی ہوں انتخابات وقت پر
ہوں گے ۔ سیاسی جماعتوں کی اکثریت صوبے کے حق میں ہے۔ جنوری دوہزار تیرہ کے
ایک اخبار میں خبر ہے کہ سیف کھوسہ کہتے ہیں کہ ن لیگ صوبہ بنانے میں مخلص
نہیں ہے ۔ پیپلز پارٹی نے وسیب کے عوام کی خواہش پوری کردی ہے ۔ مقررین نے
کہا کہ سرادر سیف کھوسہ کو پیپلزپارٹی میں شمولیت پر خراج تحسین پیش کرتے
ہیں۔ نومبر دوہزار بارہ کے ایک اخبار میں کوٹ سلطان ضلع لیہ سے خبر ہے کہ
پیپلز پارٹی ضلع لیہ کے صدر ملک عبد المجید بھٹہ ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ
پانچ سال کے دورن پیپلز پارٹی نے ریکارڈ ترقیاتی کام کرائے ہیں۔ یہ تھیں
مختلف اخبارات میں شائع ہونے والی وہ خبریں جن کا تعلق اس وسیب کے مسائل سے
تھا۔ سرائیکی وسیب کے مسائل کوئی نئے نہیں بہت پرانے ہیں جو بھی حکومت آئی
ہے چاہے وہ کسی بھی سیاسی جماعت کی ہو اس نے اس علاقہ کے مسائل حل کرنے کی
زبانی باتیں بھی کیں اور بلند وبانگ دعوے بھی کیے۔ اس علاقہ کے اصل مسائل
کی طرف تو بہت کم توجہ دی گئی۔ اس وسیب کے عوام کو صرف وعدوں اور نمائشی
اقدامات بھی کیے گئے۔ یہاں کے عوام کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ ان کو الگ صوبہ
دیا جائے۔اس کیلئے مختلف تحاریک بھی کام کر رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت
نے عوام سے سرائیکی صوبہ بنا نے کا وعدہ کیا۔ ملک کے آئین مین نئے صوبوں سے
متعلق کوئی شک نہیں تھی۔ جب تک آئین میں کوئی طریقہ کار نہ ہو اس وقت تک
کوئی کام آئینی طور پر نہیں کیا جا سکتا۔اس بات کا پیپلزپارٹی کے
سیاستدانوں کو اچھی طرح علم تھا کہ سرائیکی صوبہ ہو یا کوئی اور نیا صوبہ
اس کو بنانے کیلئے آئین میںکوئی شک نہیں ہے۔ اس مقصد کیلئے جب تک آئین میں
ترمیم نہ کی جائے اس وقت تک نیا صوبہ نہیں بنایا جا سکتا۔ ایک اور بات بھی
سب کے علم میں تھی کہ صوبہ بنانے کیلئے مطلوبہ اکثریت ان کے پاس نہیں ہے ۔
ان دو اہم وجوہات کی بنیا دپر سرائیکی صوبہ نہیں بنایا جا سکتا۔ اس حقیقت
اور سچ کے جانتے ہوئے بھی یہاں کی عوام کو آئے روز بیوقوف بنایا جاتا رہا۔
بار بار کہا جاتا رہا کہ ہم سرائیکی صوبہ بنا کر رہیں گے۔ آپ اس تحریر میں
سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا اخباری بیان پڑھ چکے ہیں کہ وہ کہتے ہیں
کہ سرائیکی صوبہ نہ بنا تو وہ تحریک چلائیں گے۔ یہ کہہ کر وہ یہاں کی عوام
کو اس بات کا یقین دلا رہے تھے کہ صوبہ بن کر رہے گا اور وہ خود اس کے بننے
میں مخلص حالانکہ جن مجبوریوں کا ذکر ہم اوپر کر چکے ہیں وہ سب ان کے علم
میں تھیں۔ پیپلز پارٹی سرائیکی صوبہ بنانے میں مخلص ہی نہ تھی۔ کوئی بھی یہ
سوال کر سکتا ہے کہ کیسے تم نے کہہ دیا ہے کہ پیپلزپارٹی صوبہ بنانے میں
مخلص نہ تھی تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر یہ اس سلسلہ میں مخلص ہوتی تو جس
وقت اٹھارہویں ترمیم لائی جارہی تھی اور اس کو اسمبلی اور سینیٹ سے منظور
کرایا جارہا تھا اس آئینی ترمیم میں ان شکوں کو بھی شامل کر لیا جاتا جو
سرائیکی صوبہ بنانے کیلئے ضروری تھیں۔ اس سلسلہ میں عوام کو خوش کرنے کیلئے
اسمبلی سے اس صوبہ کے حق میں قرارداد منظور کرالی گئی۔ مسلم لیگ ن نے اس
میں بہاولپور کو بھی شامل کر لیا۔ اس مقصد کیلئے پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی
جس نے اس صوبہ کا نام بہاولپور جنوبی پنجاب تجویز کیا۔ حالانکہ نئے صوبہ کے
بارے میں جتنے بھی مطالبات سامنے آرہے ہیں ان میں سے کسی میں بھی یہ نہیں
کہا گیاکہ بہاولپور جنوبی پنجاب کے نام سے نیا صوبہ بنایا جائے۔ یہاں
مطالبہ سرائیکستان کا کیا جا رہا ہے۔ جبکہ حکومت کہتی رہی کہ وہ جنوبی
پنجاب کو نیا صوبہ بنا کر رہیں گے۔ حکومت کے آخری ہفتوں میں اس صوبہ کی
تشکیل کیلئے جو کچھ سرکاری سطح پر کیا گیا اس مقصد صوبہ بنانا نہیں تھا
بلکہ یہ سب کچھ اس لیے کیا گیا کہ الیکشن مہم کے دوران کہا جا سکے کہ ہم نے
تو کوشش کی تھی کچھ آئینی مجبوریاں تھیں اور وقت بھی ہمارا ختم ہوگیا تھا
اس لیے یہ کام ہم نہ کرسکے۔ عوام سے کہا جاسکے کہ آپ ہمیں ایک بار پھر موقع
دیں ہم اس مرتبہ آپ کو صوبہ بنا کر دیں گے۔ اس لیے یہ بات ذہن نشین کر لیں
کہ پیپلزپارٹی نے نہ سرآئیکستان بنانا تھا اور نہ ہی بنایا۔ اس علاقہ کا
دوسرا سب سے بڑا مسئلہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا ہے۔ اس ڈیم کی تعمیر بھی
یہاں کے عوام کا دیرینہ مطالبہ ہے۔ جب بھی دریائے سندھ میں سیلاب آتا ہے تو
اس علاقہ کی ہزاروں ایکڑاراضی زیر آب آجاتی ہے۔ ہزاروں ایکڑ فصلات تباہ
ہوجاتی ہیں ۔ سڑکیں مکانات الگ سے تباہ ہوجاتے ہیں۔ یہاں کی عوام کو سیلاب
کے دنوں میںدربدر ہونا پڑتا ہے۔ ملک میں بجلی کی صورتحال بھی سبب کے سامنے
ہے۔ ماہرین بھی اس ڈیم کی تعمیر کے حق میں اپنی رپورٹیں دے چکے ہیں۔ اس ڈیم
کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔اس ڈیم کی تعمیر سے ایک طرف عوام
سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچ جائیں گے دوسرااس سے سستی بجلی بھی پیدا کی
جاسکے گی۔ اس کے پھر دو فائدے ہوں گے ایک یہ کہ اس سے ملک میںبجلی کی
لوڈشیڈنگ کم ہو جائے گی۔ دوسرا ملک کا قیمتی سرمایہ بھی بچایا جا سکے گا۔
جو کسی اور کارآمد منصوبہ پر خرچ کیا جاسکے گا۔ پیپلزپارٹی اس علاقہ سے
کتنی مخلص ہے اس بات کا اندازہ اس بات سے لگا لیںکہ ایک طرف وہ یہاں کے
عوام کو خوش کرنے کیلئے کہتی ہے کہ وہ صوبہ بنائے گی۔ دوسری طرف اس علاقہ
کی سب سے اہم ضرورت اور یہاں کی عوام کا دیرینہ مطالبہ پورا کرنے میں اس نے
جو کچھ کیا وہ سب کے علم میں ہے۔ اس پیپلزپارٹی نے کالاباغ ڈیم کامنصوبہ ہی
ختم کردیا صرف اس لیے سندھ نہیں چاہتا کہ یہ ڈیم بن جائے۔ پنجاب میں
پیپلزپارٹی سرآئیکی صوبہ کے حق میں تقریریں کرتی ہے۔ اس کے حق میں پنجاب
اسمبلی اور قومی اسمبلی سے قراردادیں پاس کرتی ہے۔ پارلیمانی کمیٹی بنا
دیتی ہے پھر سینیٹ کمیٹی بنادی جاتی ہے۔سندھ میں بھی یہی پیپلزپارٹی ہے جو
کالا باغ ڈیم کے خلاف قرارداد منظور کراتی ہے۔ اس علاقہ کا تیسرا سب سے اہم
اور ضروری منصوبہ تھرکول پراجیکٹ کا منصوبہ ہے۔ پاکستان کے مایہ ناز
سائنسدان ڈاکٹر ثمرمبارک مند نے اپنے ساتھی سائنسدانوں کی مدداور ان کی
رہنمائی کرکے تین سال کی محنت سے اس پراجیکٹ کے ذریعے بجلی، گیس اور تیل
نکالنے کا تجربہ مکمل کرلیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق تھرکول پراجیکٹ سے دو
سوسال تک روزانہ پچاس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ جب کہ اس وقت
ملک میں بجلی کی کل طلب بیس ہزار میگاواٹ ہے۔ اس سے یہ بات کہی جاسکتی ہے
کہ تھرکول پراجیکٹ کی تکمیل اور اس کے فنکشنل ہونے سے نہ صرف ملک میں بجلی
کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے بلکہ ہم بجلی درآمد بھی کر سکتے ہیں۔
اس پراجیکٹ سے گیس اور تیل بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ اس پراجیکٹ سے گیس اور
تیل کی دستیابی سے ملک میں ان دونوں چیزوں کی رسد میں اضافہ ہوجائے گا۔ اور
ان دونوں چیزوں کے ممکنہ بحران سے بھی بچا جا سکتا ہے۔پیپلزپارٹی کی حکومت
اس پراجیکٹ کی تکمیل کیلئے بھی سنجیدہ نہیں ہے کہ اس نے ا پراجیکٹ کیلئے
فنڈز جاری نہیں کیے۔ اس تحریر میں آپ بہاولپور میں سول سوسائیٹی نیٹ ورک کے
چیئر مین کابیان پڑھ چکے ہیں جس میں انہوں نے کہا ہے کہ فنڈز نہ ہونے کی
وجہ سے یہ پراجیکٹ تعطل کا شکار ہے۔ انہوں نے حکومت پاکستان سے فنڈز جاری
کرنے کا مطالبہ کیا۔ بہاولپور میں سول سوسایٹی نیٹ ورک تھرکول پراجیکٹ کے
مسائل اجاگر کر چکی ہے۔ لیہ میں بھی یہ کام کرہی ہے۔ اس کے چئیر مین ایک
فعال صحافی ہیں۔ لیہ میں اس نے لیہ تونسہ پل کو بنوانے کیلئے اپنی کوششوں
کا آغاز کیا ہوا ہے۔ یہ منصوبہ بھی اس علاقہ کے اہم منصوبوں میں سے ایک ہے۔
یہ تو تھے وہ اہم منصوبہ جات جو نہ صرف اس علاقہ کی تعمیر وترقی کیلئے
ضروری ہیں بلکہ یہ ملک کی تعمیر وترقی کیلئے ضروری ہیں۔ کالا باغ ڈیم کے بن
جانے سے صرف جنوبی پنجاب میں ہی بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کی جاسکے گی بلکہ اس
کے اثرات ملک کے دیگر صوبوں پر بھی پڑیں گے۔ تھرکول پراجیکٹ کے اثرات بھی
ملک کے تمام صوبوں پر پڑیں گے۔ ایک منصوبہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے دفن کرنے
کااعلان کردیا۔ اب تو عدالت عالیہ لاہور نے بھی اس ڈیم کی تعمیر کا حکم دے
دیا ۔ اس حکم پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔ اور دوسرے منصوبہ کیلئے پیپلزپارٹی
کی حکومت نے فنڈزجاری نہیں کیے۔ یہ پیپلزپارٹی کی وہ دلچسپی جو وہ اس علاقہ
کیلئے دکھاتی رہی ہے ۔اور دکھاتی رہے گی۔ صدر زرداری کہتے ہیں کہ ملتان میں
پچانوے فیصد ترقیاتی کام مکمل ہو چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم جنوبی پنجاب
کی محرومیوں کو ختم کردیں گے۔ یہ کہنا کہ پیپلزپارٹی نے اس علاقہ کیلئے کچھ
نہیں کیا خلاف حقیقت بات ہوگی۔ اس نے ا س علاقہ میں بہت سے ترقیاتی کام بھی
کرائے ہیں جن میں پل ہیڈ محمد والا کی تعمیر ہے ۔ یہ پل تو بن چکا ہے تاہم
سڑکیں بننا ابھی باقی ہیں ۔ اس پل کی تعمیر سے نہ صرف لیہ اور ملتان کا
فاصلہ کم ہو جائے گا۔ بلکہ لاہور اور کراچی کا فاصلہ بھی کم ہو جائے گا۔
وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے قوم سے اپنے الوداعی خطاب میں اپنی حکومت اور
پیپلز پارٹی کے کارناموں کا زکر کیا اور اپنی کچھ ناکامیوں کا اعتراف بھی
کیا ۔ انہوں نے اس علاقہ کے مسائل کے بارے میں اپنے اس خطاب میں کوئی بات
نہیں کی۔ پیپلز پارٹی اس علاقہ کے مسائل کو اہمیت دیتی تو وزیراعظم کے
الوداعی خطاب میں یہ مسائل ضرور شامل ہوتے۔ ہم نے اس تحریر میں شامل کرنے
کیلئے لیہ میں پیلزپارٹی کے ایک عہدیدار سے رابطہ کیا اوراس سے درخواست کی
کہ جنوبی پنجاب میں ترقیاتی اور غیر ترقیاتی سکیموں کی تفصیل بتائی جائے تو
ادھر سے جواب ملا کہ میں کوئی ایم این اے تو نہیں ہوں کہ آپ کو یہ بتاﺅں۔
پیپلزپارٹی کے اس دور حکومت میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام، وسیلہ حق اور
وسیلہ روزگار پروگرام بھی جاری رہے جس سے لاکھوں خاندانوں نے فائدہ اٹھایا۔ |