جنوبی ہندوستا ن کی سیاست اس
لحاظ سے منفرد تھی کہ وہاں ۲۰۰۸ تک بھارتیہ جنتا پارٹی کو اپنے قدم جمانے
کا موقع نہیں ملا تھا۔تمل ناڈو میں تو خیر کانگریس کی بھی دال نہیں گلتی
ہےبلکہ ہر انتخاب کے بعد اسے اپنا پارٹنر بدلنے کی نوبت آجاتی ہے ۔
آندھرا پردیش میں کانگریس کامقابلہ تلگودیسم نامی علاقائی جماعت سے ہےجو
سیکولر ہونے کے باوجود بھارتیہ جنتا پارٹی سے رشتہ رکھنا معیوب نہیں سمجھتی
ہے اور کیرالامیں کانگریس پارٹی دائیں بازو کے اتحاد سے مقابلہ کرنے کی
خاطر مسلم لیگ کو اپنے ساتھ رکھنے پر مجبورہے لیکن پانچ سال قبل اس صورتحال
میں ایک زبردست تبدیلی آئی اورکرناٹک میں بی جے پی کو ۲۲۴ میں سے ۱۱۰
نشتوں پر کامیابی حاصل ہوگئی اور اس نے اپنے بل بوتے پر حکومت قائم کرلی اس
طرح گویا زعفرانی کمل جنوبی ہند میں کھل گیا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی یوں تو ۲۰۰۴ کے انتخاب میں کرناٹک کی سب سے بڑی پارٹی
بن کر ابھری تھی لیکن وہ واضح اکثریت حاصل نہیں کرپائی تھی۔ کانگریس کو
چاہئے تھا وہ جنتا دل ایس کی مدد سے بی جے پی کو اقتدار میں آنے دیتی اور
خود عوام میں اپنا اثرورسوخ بڑھاتی تاکہ عوام اس کو ۲۰۰۸ منتخب کرکے حکومت
کرنے کا پھر سے موقع دیتے یا پھراپنی قدیم روایت کے مطابق اقتدار سے با ہر
رہ کر جنتا دل کی حکومت کی حمایت کرتی اور حالات کے سازگار ہوتے ہی سرکار
کو گرا کر انتخاب میں کامیابی حاصل کرلیتی لیکن اقتدار کی ہوس میں کانگریس
نے تیسرا راستہ اختیار کیا۔ جنتادل ایس کی مدد سے اپنی حکومت قائم کرلی اور
بھیم سنگھ جیسے نااہل آدمی کو وزیراعلیٰ بنادیا جو پانچ سال بعد خود اپنے
حلقۂ انتخاب بیدرسے ہار گیا ۔
جنتادل ایس نے پہلے تو فسطائیت کے خلاف شور مچا کر عوام سےووٹ مانگا پھر
ہندوتوا کو اقتدار سے دور رکھنے کا بہانہ بنا کرکانگریس ےس مفاہمت کی لیکن
بالآخر اپنی ابن الوقتی کا چولا اوڑھ کربی جے پی سے ساز باز کرلی ۔دیوے
گوڑا کے فرزندکمارسوامی بی جے پی سے سازباز کرکے وزیراعلیٰ بن گئے ۔ یہ
پہلا موقع تھا جب یدورپاّ جیسے ترشول دھاری کو جنوبی ہند کی کسی ریاست میں
نائب وزیراعلیٰ بننے کا موقع ملا تھا لیکن یہ اس کا حق تھا۔ سیکولر جنتا
اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے درمیان یہ معاہدہ طے ہوا کہ بیس ماہ بعد
کمارسوامی اپنا عہدہ چھوڑکریدورپاّ کو وزارت اعلیٰ کی کرسی سونپ دیں گے ۔
بی جے پی چاہتی تھی کہ انتخابات ان کی نگرانی میں ہوں لیکن کمارسوامی اپنے
وعدے سے مکر گئے ۔ ان دونوں بلیوں کی لڑائی سے فائدہ اٹھاکر کانگریسی بندر
نے صدرراج نافذ کردیا ۔
۲۰۰۸ کے انتخاب کے اس پس منظرکا جس کا بہترین استعمال یدورپا ّنے کیا۔ اس
نےکمارسوامی کی بدعہدی کو ذات برادری کے دھرم یدھ میں تبدیل کردیا ۔ کرناٹک
کی سیاست ویسے بھی لِنگایت اور ووکالیگا برادری کے درمیان گردش کرتی
ہے۔یدورپاّ نے کمارسوامی وعدہ خلافی کو ووکا لیگا کے ذریعہ لِنگایت سماج کی
حق تلفی قرار دے کر اپنے حق میں ہمدردی کی لہر چلا دی ۔ یدورپاّ نے بڑی
چالاکی سے والمیکی اور میڈیگاس برادری کو بھی اپنے ساتھ کرلیا تھا۔ ابن
الوقتی اور موقع پرستی کے سبب کمارسوامی اپنی ساکھ گنوا چکاتھا۔ جنتادل ایس
کے ۵۶ میں سے ۴۰ ارکان اسمبلی نے پارٹی کو خیرباد کردیا تھا لیکن اس موقع
پر کانگریس نے اپنے بوڑھے گھوڑے ایس ایم کرشنا کو میدان میں اتارا جس کی
سانس چند قدم کے بعد پھولنے لگتی تھی نتیجہ یہ ہوا کہ ٹیپو سلطان کی ریاست
میں گرو گولوالکر کےچیلوں کی حکومت قائم ہو گئی ۔
یہ حسنِ اتفاق ہے کہ اس ریاستی انتخاب سے قبل کمارسوامی کے زیرِ اقتدار بھی
اسی طرح شہری بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے جیسا کہ اب ہوئے ہیں ۔ ان انتخابات
میں بھی سب سے زیادہ نشستیں کانگریس کو حاصل ہوئی تھیں جیسے کہ اس وقت حاصل
ہوئی ہیں ۔ دوسرے نمبر پر جنتادل ایس تھی اور بی جے پی تیسرے مقام پرتھی
لیکن ایک فرق یہ تھا کہ اس وقت سبھی جماعتیں چاہتی تھیں کہ بلدیاتی انتخاب
کا انعقاد ہو اس کے برخلاف اس بار سبھی سیاسی جماعتوں نے انتخاب کی مخالفت
کی اور الیکشن کمیشن کو روکنے کی بھرپور کوشش کی لیکن عدالتی مداخلت نے اس
انتخاب کے عمل کو ممکن بنایا۔ سیاسی جماعتوں کی گھبراہٹ ان کے اندر پائے
جانے والے اعتماد کی کمی ک چغلی کررہا تھا ۔ اس سےیہ بھی واضح ہوتا ہے فی
الحال جو کانگریسی بغلیں بجا رہے ہیں خود انہیں بھی اس کامیابی کی توقع
نہیں تھی نیز بی جے پی اور جنتا دل اندیشہ بجا تھا ۔
کرناٹک کی جملہ آبادی کا ۸۰ فیصد حصہ دیہاتوں کے اندر رہتا ہے اس
لئے۱۸ء۴کروڈ میں سے صرف ۸۰ لاکھ رائے دہندگان کو ان بلدیاتی انتخابات میں
اپنی حصہ لینے کا موقع دستیاب تھا اوراس میں سے۶۵ فیصد لوگوں نے اسے
استعمال کیا ۔ان انتخابات کے نتائج نے یہ ظاہر کردیا کہ سب سے بڑا خسارہ
جنتا دل کا ہے جو ۱۵۰۲ سے اتر کر ۹۰۵ پر آگئی۔ اس سے کم خسارہ میں بی جے
پی کا ہوا جس کے پہلے تو۱۱۸۰ امیدوار کامیاب ہوئے تھے لیکن اس بار اسے ۹۰۵
پر اکتفا کرنا پڑاہے ۔ کانگریس یقیناً فائدے میں رہی اس نے اپنی تعداد ۱۶۰۶
سے بڑھاکر ۱۹۶۰ تک پہنچا دی ۔یدورپاّ کی کے جی پی کوئی چمتکار نہ کرسکی اور
۲۷۴ پر سمٹ کررہ گئی نیز ریڈی برادران کے ہمنوارکن اسمبلی سریمالو کی
نوزائیدہ جماعت بدوارہ شرامیکا رئیتارہ (بی ایس آر) کانگریس نے ۸۶ نشتوں
پر کامیابی حاصل کرکے بی جے پی کے خیمے میں تباہی مچادی ۔
بھارتیہ جنتاپارٹی کے ان دونوں باغیوں نے اپنی سابق جماعت کو تو نقصان
پہنچایا لیکن خود اس کا بڑا فائدہ نہ اٹھا سکے ۔ ریڈی بردران کی دولت
بیلاری ضلع میں سریمالو کا بھلا نہ کرسکی بلکہ کانگریس کو اس کا فائدہ ملا
۔ اسی طرح یدورپا کا جادو ان کے اپنے علاقے شموگا میں نہیں چل سکا ۔اتفاق
سے بی جے پی کی ریاستی شاخ کے صدراور نائب وزیراعلیٰ ایشورپاّ کا تعلق بھی
شموگا سے ہے اور وہ بھی بی جے پی کوکراری شکست سے نہ بچاسکے۔ان نتائج کا
ایک اثر تو یہ ہوا کہ ایشورپاّ کو ہٹا کر ان کی جگہ پرہلاد جوشی کو صدر
بنادیا گیا لیکن نائب وزیر اعلیٰ کا کیا قصور خود وزیراعلیٰ جگدیش شطار بھی
ہبلی -دھارواڑ میں اپنی جماعت کو فیصلہ کن فتح سے ہمکنار نہ کرسکے۔ بی جے
پی اپنے ۱۷ وزراء کے حلقۂ انتخاب میں بری طرح ناکام رہی ۔کانگریس کے
ریاستی صدر پرمیشور بھی اپنے شہر کوٹرا گیٹ میں کانگریس کو شکست سے نہ
بچاسکے۔جنتادل ایس اپنے صدرکمارسوامی کے شہر رام نگر میں شکست سے دوچار
ہوئی اوریہی حال ان کے بھائی ریوناّ کے ہاسن میں ہوا گویا ہر مقام پر رائے
دہندگان نے نام نہاد بڑے رہنماؤں کو دھتکار دیا جو ان سیاستدانوں کے خلاف
ان کے اندر پائے جانے والے غم و غصہ کا اظہار ہے ۔
اس انتخابات کی کچھ اور خصوصیات بھی تھیں مثلاً ویسے تو۲۱۰۰۰ سے زیادہ
امیدواروں نے اپنی قسمت آزمائی کی لیکن چکا بلاپور نامی شہر کے ایک حلقۂ
انتخاب سے کسی امیدوار نے اپنا پرچۂ نامزدگی داخل ہی نہیں کیا۔۸۵ حلقۂ
انتخاب سے صرف ایک امیدوار نے پرچہ داخل کیا اور وہ بغیر انتخاب کے کامیاب
ہوگیا۔۳۳ مقامات پر صرف ایک ووٹ کے فرق سے امیدوار کامیاب ہوگیا ان میں ۹
مسلم اکثریتی حلقے تھے۔ ۱۶۷ ایسے مقامات تھے جہاں فتح اور شکست کے درمیان
۱۰ یا اس کم ووٹ کا فرق تھا ۔حالیہ انتخاب میں سب زیادہ فائدہ آزاد
امیدواروں کا ہوا جنہوں نے غیرمعمولی کا رکردگی کامظاہرہ کرتے ہوئے ۷۷۸نشستوں
پر اپنی کامیابی کےجھنڈے گاڑے۔ دوشہر چکوڑی اورگوکاک ایسے بھی تھے جہاں سے
کامیاب ہونے والے سارے کے سارے امیدوار آزاد تھے۔
رائے دہندگان کے اندر انتشار کا یہ عالم تھا کہ ۷ شہروں میں ۴ کے کارپوریشن
میں کوئی جماعت واضح اکثریت نہیں حاصل کرسکی۔۴۳ میں سے ۲۶ میونسپل کاؤنسل
میں اور ۹۲ میں سے ۳۳ تعلقہ میونسپل کاؤنسل میں بھی معلق صورتحال ہے لیکن
اس کے باوجود مسلم سیاسی جماعتوں کی کارکردگی مایوس کن رہی ۔ ہم لوگ ہمیشہ
ہی ہندو اتحاد اور ملی انتشار کا رونا روتے ہیں لیکن اس بار نہ صرف ہندو
سماج بلکہ ہندوتوا وادی بھی تقسیم در تقسیم کا شکار ہوگئےتھے اس کے باوجود
ہم لوگ اس بات کا جش منارہے ہیں کہ ایم آئی ایم نے پہلی مرتبہ ۶ مقامات پر
اورایس ڈی پی آئی نے۱۷ نشستوں پر کامیابی حاصل کرلی نیز ۱۸ مقامات پر
دوسرے نمبر پررہی۔ اس خوشی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کچھ سیاسی جماعتیں
افرادی قوت کے بلند بانگ دعووں کے باوجود کھاتہ تک کھولنے میں ناکام رہیں
ایسے میں ایم آئی ایم اور ایس ڈی پی آئی کی کامیابی جیسی بھی ہے قابلِ
قدر سمجھی جائیگی لیکن سوال یہ ہے کہ اگر اس قدر موافق صورتحال میں مسلم
جماعتوں کا یہ حال ہے تو کل جب وہ متحد ہو جائیں گے تو ہم کہاں جائیں گے ؟
الیکشن کمیشن نے جیسے ہی ریاستی انتخاب کا بگل بجاکراعلان کیا کہ ۵ مئی کو
ووٹ ڈالیں جائیں گے ۸ مئی کو رائے شماری ہوگی توسب سے پہلے بی جے پی نے
میسور میں‘‘وجئے سنکلپ سماویش’’ کے عنوان سے اپنی انتخابی مہم کا سنکھ
پھونک دیا ۔ اس جلسۂ عام میں وزیراعلیٰ شیطار نے اپنی حکومت کا سب سے بڑا
کارنامہ یہ بیان کیا کہ اس نے اپنی پانچ سال کی مدت پوری کی اور پھر ایک
بار واضح اکثریت سے کامیاب ہونے جارہی ہے۔ جس جماعت نے پانچ سالوں میں تین
وزیر اعلیٰ بدلے۔ان میں سے ایک کوبدعنوانی کے الزام میں جیل جانا پڑا۔
دوسرے کو اس کی اپنی پارٹی کے بدعنوان سابق وزیراعلیٰ کی منھ بھرائی کی
خاطر بدلا گیا اور تب جاکر شطار وزیراعلیٰ بننے کا موقع ملا ۔ کیا ایسی
حکومت کا پانچ سال مکمل کرنا کوئی قابلِ ذکر کامیابی ہے ۔
وزیراعلیٰ جگدیش شطار نےیہ بھی کہا کہ بی جے پی اصول و نظریات کی بنیاد
قائم ہونے والی ایک قومی جماعت ہے ۔اس لئے اسےانتخاب میں کوئی شکست نہیں دے
سکتا ۔ جس حکومت کے ۷ وزراء کو بدعنوانی کے الزام میں بے آبرو کرکے ہٹا یا
گیا ہو اور جوجماعت کےارکانِ اسمبلی اجلاس کے دوران فحش فلمیں دیکھنے
سےگریز نہ کرتے ہوں ان کے اصول و نظریات کے بارے میں عوام کو فکر مند ہونا
چاہئے ۔آر ایس ایس نے گزشتہ بیس سالوں سے محنت ومشقت کرکے کرناٹک کے ساحلی
علاقوں میں اپنی نظریاتی ساکھ پیدا کی لیکن پہلے تو رام سینا اور توگڑیا نے
اس کا ستیا ناس کیا اور اب وہاں بسنے والی اکثریتی بنت برادری بی جے پی کا
ساتھ چھوڑ دیا۔
بھارتیہ جنتاپارٹی کے اندر ایک منفرد غیر بدعنوان شخصیت کے حامل شرینواس
شیٹی ، ناگراج شیٹی جیسے قدیم سنگھ پریوار کےحامیوں نے ناراض ہوکر بی جے پی
کو خیرباد کر دیا۔ بلدیاتی انتخاب سے قبل آرایس ایس کی معروف رہنما شکنتلا
شیٹی نے بی جے پی کو چھوڑ کر کانگریس میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔بڑے
ارمانوں سے بی جے پی بنانے والے آرایس ایس کے خاکی نیکر اور کالی ٹوپی
پہننے والے تلک دھاری رہنما جب بدعنوان سیاستدانوں کے ہاتھوں اپنی تحریک کی
یہ درگت دیکھتے ہوں گے تو ان کی زبان پر یہ شعر (یعقوب تصورؔصاحب سے معذرت
کے ساتھ) آجاتا ہوگا ؎
نیکردھاری عمر ہماری ریت ہوئی
بی جے پی نے شیش محل تعمیر کیا
بی جے پی سنکلپ ریلی میں سارا زور کانگریس یا جنتادل کے بجائے یدورپاّ پر
صرف ہوا ۔پرہلاد جوشی نے انکشاف کیا کہ کے جے پی ۱۴۷ اسمبلی حلقوں میں اپنا
کھاتہ بھی نہ کھول سکی ۔اسے صرف ۳ء۳ فیصدووٹ ملے اس لئے وہ کرناٹک کی سیاست
میں قابلِ لحاظ جماعت نہیں ہے ۔سابق صدرایشورپا ّبولے پہلے کانگریس والے
یدورپاّ کو سب سے زیادہ بدعنوان وزیراعلیٰ کہتے تھے لیکن اب نہیں کہتے۔یہ
کہتے ہوئےایشورپاّبھول گئے کہ زمانہ بدل گیا جس وقت کانگریسی یدورپاّ پر
تنقیدکیا کرتے تھے اس وقت وہ خود اپنے محسن یدورپاّ کے پاک صاف ہونے کی
گواہی دیا کرتے تھے لیکن اب انہیں برا بھلا کہنے سے نہیں تھکتے ۔ ایشورپاّ
کے مطابق کانگریس چونکہ بی جے پی کا مقابلہ نہیں کرسکتی اس لئے ایسے گھٹیا
حربے استعمال کررہی ہے جو کسی قومی جماعت کو زیب نہیں دیتے ۔ کانگریس نے
یدورپاّ کو سی بی آئی چھاپے کی دھمکی دے کر رام کرلیا ہے اور ان دونوں نے
درمیان خفیہ ساز باز کرلی ہے۔
یدورپا ّ نے بی جے پی کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے اعلان کاہ کہ وہ وہ
تمام ہی ۲۲۴ حلقۂ انتخاب پر اپنے امیدوار کھڑے کریں گے اس لئے کسی خفیہ
ساز ش کا سوا ل ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ ان کا کہنا تھا چونکہ عدالت نے مقدمہ
پر روک لگا دی ہے اس لئے چھاپے کا جواز ہی نہیں بنتا ۔ یدورپاّ کے مطابق بی
جے پی والے جھوٹ بولنے میں طاق ہیں اور چونکہ بھاجپ ایک ڈوبتا ہوا جہاز ہے
اس لئے بہت جلد اس میں سے بڑے پیمانے پر لوگ نکل نکل کر کے جی پی شامل
ہوجائیں گے۔ اب تک ۱۳ ارکانِ اسمبلی اور دووزراء کے جی پی میں داخل ہوچکے
ہیں ۔ یدورپاّ کا اندازہ درست ہے اس لئے کہ وہ تمام خواہشمندحضرات جنہیں بی
جے پی ٹکٹ نہیں دے سکے گی بلاتوقف کے جی پی کارخ کریں گے ۔ یہ عجب ستم
ظریفی ہے کہ ۴۰ سالوں تک جس ببول کے پیڑ کی آبیاری یدورپاّ نے کی اب اسی
کی بیخ کنی کرنے پر تلے ہوے ہے ۔
ماہِ جنوری کے اندراسمبلی انتخاب کے حوالے سےکرناٹک کے رائے دہندگان کا ایک
جائزہ ‘سی گروپ ’نامی ادارے نے لیا ۔ اس کے مطابق آئندہ انتخابات کے اندر
بی جے پی کے ووٹوں کا تناسب گزشتہ کے ۳۴ فیصدسےکم ہوکر ۲۸ پر پہنچ جائیگا
جس کے نتیجے میں اس کے ارکان ِ اسمبلی تعداد ۱۱۰ کے بجائے ۶۳ ہوجائیگی ۔
کانگریس کے ۳۵ فیصد رائے دہندگان میں صرف دو فیصد کا اضافہ ہوگا لیکن اس کے
ارکان اسمبلی ۸۰ سے بڑھ کر ۱۳۳ ہوجائیں گے۔جنتا دل کے رائے دہندگان کی
تعداد میں صرف ۱ فیصد کمی ہوگی لیکن اس کے ارکان ۲۸ سےگھٹ ۱۹ رہ جائیں گے ۔
یدورپا ّ ۷ فیصد ووٹ حاصل کرکے صرف ۵ امیدوارکامیاب کرا سکیں گے۔ دیگر
جماعتوں اور آزاد امیدوار وں کے ووٹ کا تناسب ۲ فیصد کم ہوجائیگا اور صرف
۴ دیگرامیدوار کامیاب ہو سکیں گے ۔انتخابی جائزے کئی مرتبہ غلط بھی نکلتے
ہیں لیکن بلدیاتی انتخاب کے نتائج سے اندازہ ہوتا ہے کہ ممکن ہے اس بار
کاسروے صحیح نکل جائے ۔ |