گذشتہ جمعہ محمد علی سوسائٹی میں
ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ان کی ہمشیرہ کے گھر پر عصر سے عشاء تک ایک بھر پور ،خوشگوار
اور پُرمغز مجلس ہوئی ، اسلام آباد سے تحریک تحفظ پاکستان کے نائب صدر شاہد
باجوہ کی پچھلے دنوں کال آئی ،کہ ڈاکٹر صاحب کراچی آرہے ہیں ، ہمارے درمیان
آپ کا تذکرہ کچھ تفصیل کے ساتھ ہواہے ، اب خان صاحب کی خواہش ہے کہ کراچی
میں جناب سے مفصَّل ملاقات ہو ، میں نے کہا ،بسروچشم ۔
ڈاکٹر خان کی شخصیت میں کئی حوالوں سے بڑی کشش ہے ،ہر کوئی چاہتاہے کہ اگر
کرم ِباریابی ہو،ز ہے عزوشرف ،کیونکہ وہ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے
مسلمانوں اور مقہور ومظلوم اقوام کی آنکھوں کا تاراہیں ، سب کا بلاشک
ہیروہیں ،صاحب طرز ادیب ،منجھے ہوئے بیورکریٹ اور کہنہ مشق منتظم ہیں ،ان
سب پر مستزاد ان کا ایک نمایاں وصف اخلاقی پہلوسے ہمالیہ کے مانند بلند
وبالاان کی ’’انسانیت ‘‘ہے ، ان کی ہمشیرہ ،برادر ِبزرگ اور بہنوئی کی ہمہ
جہتی گفتگو سن کر اندازہ ہواکہ یہ پورا خانوادہ علم وہنر کاگہوارہ ہے ، سب
سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ بڑھکیں نہیں مارتے ،طاہر القادری کی طرح اپنوں کو
قافلہ ٔ حسینیت اوررائے میں اختلاف رکھنے والوں کو یزیدی نہیں کہتے ، انہوں
نے کہا،شاید مجھے سیاست میں گھسیٹنے والے کوفی ہوں ،لیکن میں حسین ؓ ہرگز
نہیں ہوں ، تحریک تحفظ پاکستان ممکن ہے کوئی سونامی نہ لاسکے لیکن ایک دو
نشستیں بھی ہماری موجودگی کا پتہ دے گی ، ملک اور عالم اسلام تشتت کے شکار
ہیں ، بے یقینی کے بادل ہر جگہ منڈلارہے ہیں ،ایران ، شام ، خلیج اور مغرب
ِعربی میں اضطراب ہے، حل بہت آسان ہے ،کم سے کم مسلم ممالک توباہمی اندرونی
وبیرونی تنازعات سے گریز کریں ، اغیار کے اشاروں پر نہ چلیں ، ان کے سازشوں
کو سمجھیں ،ایران وخلیج حسنِ جوار کا ثبوت دیں ، یہ دونوں امت کے قلب میں
واقع ہیں ، ایک اگر قلب ہے، تو دوسرا جگر ،ان کے اچھے برے اثرات پوری امت
کے جسم مجروح پر پڑتے ہیں ،ان کے لیڈرز عقل مندی سے کام لے کر اپنے معاملات
افہام وتفہیم سے حل کریں ، آل نہیان ،مہاتیر اور مراکش کے سلاطین کابھی
تذکرہ ہوا، انہوں نے کہا میں سب کو بہت قریب سے جانتا ہوں،ان سے سب سے میرے
نہایت دوستانہ مراسم ہیں ،ان میں سے ہر کوئی اپنااپنا فرض پوراکرے ،ان سب
کا اپنا اپنا مقام ہے۔
وہ اپنی باتوں میں جابجا قرآن ِکریم کی آیتوں سے حافظ اور احادیث کی کتابوں
سے عالم کی طرح اقتباسات پیش کررہے تھے ،انہوں نے کہا ،ہمیں ڈر نا نہیں
چاہئے ،رونا نہیں چاہئے کیونکہ ’’ ہمیں وہی تکلیف پہنچی گی جو اﷲ تعالی نے
ہمارے مقدر میں لکھی ہو ،وہ ہمارے آقاہیں ،اور ایمان والے تو اس پر ہی توکل
کرتے ہیں ،سورۂ توبہ 51 ،بلکہ ہمارے کام منصوبہ بندی ،پلاننگ ،حکمت عملی ،غور
وخوض اور فکر وتدبر ہیں،انہوں نے کہا ،مسلمان کو ڈرنا ہے ،تو اﷲ سے ڈرے اور
روناہے تو اس کے سامنے روئے ۔
ملک کی سیاسی صورت ِحال پر گفتگو کے دوران وہ خائف نظر نہیں آئے ، ناامیدی
او رقنوطیت کے وہ قائل ہی نہیں ہیں، ان کا کہناتھا ، حالات اگرچہ بظاہر
گمبھیرہیں ،لیکن بہتری کی صورتیں بھی ان میں مضمر ہیں ، اﷲ تعالی مہرباں ہے
، اخلاص ،درد مندی اور سمجھ داری کے ساتھ ملک کی کشتی کو گرداب سے نکالنے
کی اگر کوشش جاری رہے گی ، توان شاء اﷲ تعالی قوم ساحل پر ہوگی ، بہادر لوگ
طوفانوں کا مقابلہ کرتے ہیں ،گھبراتے نہیں ۔
مذہبی اختلافات کے متعلق ان کا کہنا تھا ، قرآن وحدیث حتمی ہیں ، بزرگوں کے
اقوال اور قرآن وحدیث میں فرق کیاجائے ،تو ہمارے درمیان کوئی اختلافات نہیں
رہیں گے، میں نے جو سمجھا ،گویا وہ فرقِ مراتب کی بات کررہے تھے ،کہ قرآن
پھر حدیث پھر ائمہ وبزرگوں کے اقوال۔ ہمارے یہاں مشکل یہ ہے کہ اپنے اپنے
بزرگانِ دین رحمہم اﷲ تعالی کے اقوال کو حرف آخر مانا جاتاہے ، حالانکہ حرف
آخر اور قول فیصل اﷲ تعالی کی کتاب ہے ،احادیث بھی اسی کی تشریحات ہیں ،اس
کے تابع ہیں ۔ افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ بسااوقات قرآنی آیت اور صریح حدیث
کے مقابلے میں کچھ عقائد وافکار آتے ہیں ، ان پڑھ قسم کے لوگ ان اصول کو
چھوڑکر ان فروع کے پیچھے ایسے ہو لیتے ہیں کہ انہیں سمجھانا مشکل ہوجاتاہے
،چونکہ ہمارے یہاں عربی زبان رائج نہیں ہے ، اس لئے عامۃ الناس قرآن وحدیث
کے مزاج ومذاق سے ناآشنا ہیں ۔
چونکہ وہ بنیادی طور پر ایک انجینیئر ہیں ،اس لئے وہ دو اور دوچار کے حقائق
کی تناظر میں ملکی انتظامی اصطلاحات پر اس انداز میں روشنی ڈل رہے تھے
،ایٹمی اور میزائیل ٹیکنالوجی پاکستان جیسے ملک کو دینے کے بعد وہ یہاں اسی
طرح کے فول پروف انتظامات کے لئے پُرعزم تھے ،میڈیا میں ان کی نحافت و
نقاھت والی تصویروں کے مقابلے میں وہ آمنے سامنے ۔الحمدﷲ ۔ صحت مند نظرآرہے
تھے ،علم وفضیلت کی وجہ سے ان میں تواضع ومسکنت،شرافت اور گفتگو میں شیرینی
کے اوصاف ان میں بہت نمایاں تھے ،جتنا وہ خود بولتے تھے اتنا ہی وہ دوسروں
کو سن بھی رہے تھے ۔
جماعت ِاسلامی کی طرف ہاتھ بڑھانے کی توجیہ انہوں نے یہ بیان کی کہ ان میں
نظم وضبط ہے ،باقی جماعتوں کے لئے وہ ایک بڑے کی طرح نظر آرہے تھے ،جیسے
بڑے چھوٹوں پر شفیق اور ان کی غلطیوں کو معاف کرنے کی عادت رکھتے ہیں ویسے
ہی وہ تھے ، جہاں جہاں تنقید و اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے ،اس میں مصلحت کے
شکار ہوئے بغیر جوکچھ بڑے کرتے ہیں ،یہاں بھی وہی نظر آیا ،امریکہ ومغرب کے
بارے میں انہوں نے کہا وہ سب پاکستان کی خدمت کی وجہ سے میرے مخالف ہیں ،
وہ ہرگز نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان بھی وہ کچھ حاصل کرے جوان کے پاس ہے ،
ان کے گفتگو کا خلاصہ کچھ یوں تھا ،
اذا الشعب یوما ًاَراد الحیاۃ
فلابدّ اَن یستجیب القدر
ولابدّ للیل ان ینجلی
ولابدّ للقید اَن ینکسر
یعنی قومیں جب ایک مرتبہ زندہ رہنے کا فیصلہ کردیتی ہیں،تو پھر قضاء وقدر
بھی ضرور ان کا ساتھ دیتے ہیں،راتوں کے اندھیرے بھی چھٹ ہی جاتے ہیں،اور
قید وبندکے اسباب بھی ٹوٹ ہی جاتے ہیں۔ |