کشمیری عوام آزادی کے بعد سے جن
مصائب کا مقابلہ کررہے ہیں اس کی ذمہ داری بڑی حدتک ’’عبداﷲ خاندان کی تین
نسلوں پر عائد ہوتی ہے جس طرح کشمیر کو ملک کا اٹوٹ انگ کہنے والوں کو اٹوٹ
انگ کہلائی جانے والی سرزمین پر رہنے بسنے والوں کی پرواہ نہیں ہے۔ اسی طرح
عبداﷲ خاندان کو ریاست جموں و کشمیرکی صرف وزارت عظمیٰ سے دلچسپی ہے۔ ان
کشمیری عوام سے نہیں جنہوں نے شیخ عبداﷲ کو شیر کشمیر کا خطاب دیا تھا۔
فاروق عبداﷲ اور عمر عبداﷲ سے محبت صرف اس وجہ سے کرتے ہیں کہ وہ شیر کشمیر
کے فرزند اور پوتے ہیں۔ یہ محبت دو طرفہ نہیں یکطرفہ ہے۔
یہ اتفاق ہے کہ ہم نے تینوں (شیخ، فاروق اور عمر) عبداﷲ صاحبان کو دیکھا ہے۔
شیخ صاحب کی شخصیت بڑی شاندار اور دبنگ تھی وہ مجمع ہو یا کوئی چھوٹی محفل
اس پر چھا جانے کا ہنر جاننے تھے شیخ صاحب کی شخصیت جس قدر متاثر کن تھی
فاروق عبداﷲ کی شخصیت اسی قدر غیر متاثر کن (شکل و صورت یا قدو قامت کے
لحاظ سے نہیں بلکہ گفتگو و رویہ کے لحاظ سے) ہے۔ ان کی ذات اور مسئلہ کشمیر
کے بارے میں چھبتے ہوئے سوالات کو ٹالنا ان کو خوب آتا ہے ان کا یہ ہنر ہم
2000ء میں جدہ کی ایک پریس کانفرنس میں دیکھا تھا۔ عمر عبداﷲ کو ہم نے کسی
طیران گاہ پر دیکھا اور رسمی گفتگو اس وقت کی تھی جب وہ این ڈی اے حکومت سے
وابستہ تھے۔
جو لوگ1947ء یا آزادی سے قبل یا بعد کے حالات سے واقف ہین ان کا کہنا ہے کہ
شیخ عبداﷲ نے مہاراجہ جموں و کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے فیصلے کو بدل
دیا تھا اور ہندوستان میں شرکت کا فیصلہ ریاست کے عوام کے مفادات کو پیش
نظر رکھ کر نہیں کیا تھا بلکہ اس کی وجہ شیخ صاحب کی پنڈت نہرو سے ذاتی
دوستی کے علاوہ ایک سبب یہ تھا کہ وہ قائد اعظم محمد علی جناح کو اپنا حریف
سمجھتے تھے۔ (ملاحظہ ہو شیخ صاحب کی کتاب ’’چناروں کی آگ‘‘ محمد علی جناح
پاکستان کے گورنر جنرل تھے اس طرح وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے جناح کو ان فوقیت
حاصل رہتی جو شیخ صاحب کو منظور نہ تھی۔ ہندوستان میں شرکت کے بعد شیخ صاحب
کو تمام دیسی ریاستوں میں منفرد اور ممتاز مقام کی خواہش تھی۔ دستور ہند
میں اس کی گنجائش بھی رکھی گئی تھی اس کے بعد شیخ صاحب کی روش سے پنڈت نہرو
کو خطرہ محسوس ہوا۔ شیخ صاحب پر سختی کرنا پنڈت نہرو کو پسند نہ تھا لیکن
مولانا آزاد اور رفیع احمد قدوائی صاحبان (جن کی مسلمانوں کے سلسلے میں بے
عملی کی وجہ ان کی بے اختیاری بتائی جاتی ہے) نے پنڈت نہرو کو شیخ صاحب کے
پرکترنے کے لئے ان کی گرفتاری پر آمادہ کرلیا تھا اس طرح مسئلہ کشمیر جو
ہند۔پاک کی حکومتوں کے لئے نزاعی تھا وہ حکومت ہند ریاست جموں کشمیر کے
درمیان تنازع بن گیا۔ بعد میں شیخ صاحب اور ان کے بعد فاروق عبداﷲ بھی وزیر
اعلیٰ بنے لیکن وزارت اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہونے کا مقصد صرف اقتدار کا
حصول تھا پھر عمر عبداﷲ نے بھی وزیر اعلیٰ بنے۔ کشمیریوں کا خون بہتا رہا ،
دراندازی، تخریب کاری اور دہشت گردی کے الزامات کے تحت کشمیرمیوں کا خون
بہتا رہا ہے۔ کشمیری مصائب جھیلتے رہے ہیں لیکن عبداﷲ صاحبان نے کچھ نہیں
کیا اور آج بھی یہی سلسلہ جاری ہے۔
افضل گرو کو عجیب و غریب حالات میں جس عجیب و طریقے سے پھانسی دی گئی افضل
کی موت کے بعد ان کی لاش کی جیل میں ہی تدفین ہوئی اہل خاندان سے آخری
ملاقات تک نہ کرسکے اور عمر عبداﷲ نے بیان بازی کے علاوہ کچھ نہیں کیا ۔
کشمیری عوام سے شیخ عبداﷲ کو بے شک محبت، خلوص اور انسیت کسی نہ کسی حدتک
ضرر ر تھی جب 1971ء میں پاکستان کو شکست اور قیام بنگلہ دیش کے بعد شیخ
صاحب نے مایوس ہوکر اندرا گاندھی کے آگے ہتھیار ڈال دئیے اور وزیر اعلیٰ بن
کے ان کی طویل جدوجہد کا اختتام ان کی جدوجہد اور ان کی استقامت کے شایان
شان نہ تھا۔
شیخ عبداﷲ کے بعد ان کے ایک فرزند فاروق عبداﷲ کشمیر کے منظر نامہ پر
نمودار ہوئے اور ان کی ساری کاوش اپنی شخصیت اور مفادات کے لئے ہی مختص اور
محدود رہی اور اب تک ہے۔ ان کی شخصیت کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ مقبول بٹ کی
پھانسی بلکہ شہادت کے بعد 1984ء میں کشمیریوں کے دل میں حریت پسندی کی وہ
چنگاری جو بجھ رہی تھی جاگ گئی اور حکومت ہند کی غلط حکمت عملی، کشمیر کے
قصاب کہلانے والے بلکہ ہندوتوا کے علم بردار جگ موہن کے مظالم اور چند فوجی
جنرلوں کا شوقِ قتل و غارت گی کی تکمیل کا خصوصی قانون نے فوج کو کشمیریوں
پر ظلم و جبر کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ کشمیریوں پر بے دردی سے مظالم
ہوئے(حد تو یہ ہے کہ میرواعظ فاروق کی شہادت کے بعد ان کے جنازے پر تک
گولیاں چلائی گئی تھیں۔ لیکن فاروق عبداﷲ خاموش تماشائی رہے اور کشمیریوں
کے لئے کچھ نہ کرسکے۔ اپنی سیکولر ذہنیت کا مظاہرہ اپنے خاندان میں شامل
ہونے والے غیر مسلم افراد کے انتخاب سے کیا اور کشمیری روایات کو بری طرح
پامال کیا۔ کشمیری تاریخ میں فاروق عبداﷲ کا نام اقتدار پرستوں کی فہرست
میں سرفہرست رہے گا۔
فاروق عبداﷲ کے صاحبزادے عمر عبداﷲ کم عمری میں کشمیری قائد ہی نہیں وزیر
اعلیٰ بن گئے لیکن کشمیریوں کے لئے انہوں نے اتنا بھی نہیں کیا جتنا کہ
مفتی سعید یا ان کی صاحبزادی محبوبہ مفتی نے کیا تھا بلکہ ان کے کئے ہوئے
کام بلکہ خدمات پر پانی ضرور پھیر دیا۔ کشمیر کے لئے زیادہ داخلی خود
مختاری اور فوج کو ریاست میں خصوصی اختیارات کے سلسلہ میں بیان بازی بے حد
کی۔ فاروق عبداﷲ اور عمر عبداﷲ ویسے بھی پاکستان کے خلاف بیانات دیتے رہنے
کا کام ہر موقع پر ضرور کرتے ہیں۔
کشمیر کے عوام کا دل جیتنے کا کام عبداﷲ خاندان کی تین نسلوں میں کسی نے
نہیں کیا جس طرح حکومت ہند نے کشمیری عوام کو دنیا والوں کے آگے اپنا حامی
تو بتایا لیکن عملاً (دہشت گردی کی اصطلاح کا استعمال شروع ہونے سے قبل)
ہمیشہ ان کو درانداز (گھس پیٹئے) اور تخریب کار کہا پھر دہشت گرد کہلائے
1984ء (مقبول بٹ کی شہادت کے بعد) کے بعد جو ان ہونے والی کشمیری نسل نے
عسکریت پسندی اختیار کی تو ان پر ہندوستانی افواج اور ریاستی پولیس نے
مظالم کی انتہا ء کردی اور عبداﷲ خاندان خاموش رہا۔
افضل گرو کی پھانسی (بلکہ شہادت پر عمر عبداﷲ نے مگر مچھ کے آنسو بہائے
لیکن افضل گرو کو بچانے کے لئے عمر عبداﷲ یا ان کی نیشنل کانفرنس نے کیا
کیا تھا؟
افضل گرو کے مقدمہ میں وکیل صفائی برائے نام تھا کیا نیشنل کانفرنس ان کی
وکیل نہیں فراہم کرسکتی تھی؟ افضل گرو کی اپیل کا فیصلہ کرتے ہوئے عدالت
عظمیٰ نے 4 اگست 2005ء کو مت کی سزا بحال رکھی (جی ہاں اجتماعی ضمیر کی
تسکین کے نام پر) 3 اکتوبر 2006ء افضل کی اہلیہ نے صدر جمہوریہ سے اپیل کی
ھی جب عمر عبداﷲ اجتماعی ضمیر کی وضاحت کیوں نہیں طلب کی ؟
سوال یہ ہے کہ اس کے بعد فاروق عبداﷲ عمر عبداﷲ اور نیشنل کانفرنس نے کیا
کیا؟ جس طرح ٹاملناڈو اور پنجاب میں اسمبلی میں راجیو گاندھی بے انت سنگھ
کے قاتلوں کو معاف کردینے کی اپیل کی تھی۔ کیا کشمیر اسمبلی ایسا نہیں
کرسکتی تھی بلکہ نیشنل کانفرنس نے ایسی قرار داد کی راہ میں روڑے اٹکائے۔
خبروں کے مطابق جس صبح افضل کو پھانسی دی گئی تھی اس سے ایک دن قبل عمر
عبداﷲ کو دہلی سے کشمیر واپس کیا گیا تھا۔ اگر وہ دہلی ہی میں تھے تو وہ
اتنا تو پتہ کرسکتے تھے کہ افضل گرو کے گھر والوں کو اس کی اطلاع ہے یا
نہیں؟ آخری ملاقات ہوئی ہے یا نہیں۔ افضل کی لاش کا کیا کیا جائے گا؟ لیکن
افضل کو کن مراحل سے گذرنا ہے اس کی فکر عمر عبداﷲ کو نہ تھی ورنہ وہ بہت
کچھ کرسکتے تھے۔
کشمیر یوں کو عبداﷲ خاندان نے دراصل اسی سلوک کا مستحق سمجھا ہے جو حکومت
ہند اور فوج ان کے ساتھ کرتی رہی ہے بلکہ کررہی ہے۔ سرزمین کشمیر پر سب کی
نظر ہے لیکن اس سرزمین کے فرزندوں سے کسی کو دلچسپی نہیں ہے۔ |