الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کی
جانے والے تفصیلات کے مطابق خیبر پختونخوا سے پیپلز پارٹی کے منتخب رکن
قومی اسمبلی نور عالم خان سب سے زیادہ مالدار پارلیمنٹیرین تھے جن کے
اثاثوں کی مالیت 32 ارب روپے ہے، جمشید دستی سب سے غریب رکن اسمبلی، تنخواہ
پر گزارا کرتے رہے۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے کل اثاثوں کی
مالیت 14 کروڑ روپے سے زائد ہے، ان کے پاس 2 کروڑ روپے مالیت کی شاندار
گاڑی بھی ہے جوکہ انہیں تحفے میں ملی ہے۔ سابق وفاقی وزیر مواصلات ارباب
عالمگیر کے اثاثوں کی مالیت 2 ارب روپے ہے جبکہ ان کے پاس بھی دبئی میں ایک
اپارٹمنٹ ہے، اسفند یار ولی ایک کروڑ روپے مالیت کے اثاثے رکھتے ہیں اور ان
کے پاس 50 تولے سونا بھی ہے۔ مولانا فضل الرحمن 55 لاکھ روپے کے اثاثوں کے
مالک ہیں۔ انجنیئر امیر مقام 16 کروڑ کے اثاثوں اور 17 گاڑیوں کے مالک
ہیں۔سابق نائب وزیر اعظم چودھری پرویز الہیٰ کے اکاو ¿نٹ میں 6 کروڑ 41
لاکھ روپے ہیں اور ان کی 89 لاکھ روپے کی جائیداد بھی ہے، انہوں نے 3 کروڑ
49 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری بھی کر رکھی ہے ، اس کے علاوہ قومی اسمبلی کی
اسپیکر فہمیدہ مرزا کے 8 کروڑ سے زائد مالیت کے اثاثے ہیں اور ان کے پاس
ڈیڑھ کروڑ مالیت کا دبئی میں اپارٹمنٹ بھی ہے۔ سابق وزیر ریلوے غلام احمد
بلور کے اثاثوں کی مالیت 3 کروڑ 94 لاکھ روپے ہے۔آفتاب شیر پاو ¿ 3 کروڑ کے
اثاثے۔ محبوب اللہ جان ساڑھے چار ارب کے اثاثے۔ سابق ڈپٹی سپیکر قومی
اسمبلی فیصل کریم کنڈی 8 لاکھ کی زرعی زمین، 4 لاکھ روپے بینک اکاو ¿نٹ میں،
کوئی گاڑی نہیں۔
راجا پرویز اشرف کی 7 کروڑ 20 لاکھ کی جائیداد، 18 لاکھ کی 2گاڑیاں، بیگم
کے پاس 4 لاکھ مالیت کا 10 تولے سونا اور80 لاکھ روپے بھائی سے لینے ہیں۔
میاں محمد نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدرکے پچھلے سال کے اثاثوں میں کوئی
تبدیلی نہیں۔ چودھری نثار علی خان کا راولپنڈی فیض آباد میں گھر، چکری میں
فارم ہاو ¿س، راولپنڈی میں 9 رہائشی فلیٹ، 4 کروڑ سے زاید مالیت کی 700
کنال زمین، 83 لاکھ روپے سے زاید بینک بیلنس۔ سابق نائب وزیراعظم
پرویزالٰہی 99 لاکھ کی جائیداد، 3 کروڑ 49 لاکھ کی سرمایہ کاری، 6 کروڑ 41
لاکھ کے بینک اکاو ¿نٹ۔ فیصل صالح حیات 4کروڑ کی جائیداد، متحدہ عرب امارات
کی کمپنی میں 20 فیصد شیئر۔ منیراورکزئی کا قطر میں ٹرانسپورٹ کاروبار، 3
لاکھ ڈالر سے زاید کی بیرون ملک سرمایہ کاری۔ شاہد خاقان عباسی ایئر بلیو
میں ایک ارب 80 کروڑ کے شیئر۔ چودھری احمد مختار 2 کروڑ 19 لاکھ کی
جائیداد،11 کروڑ سے زاید اثاثے۔ قمرزمان کائرہ 5 کروڑسے زاید اثاثے، بیگم
کی 40 لاکھ کی جیولری۔ نذرمحمد گوندل 17 کروڑ سے زاید اثاثے۔ خواجہ آصف 13
کروڑ سے زاید اثاثے، 5 گاڑیاں، بیوی، بیٹی کے نام امریکا میں 2 بینک اکاؤنٹ۔
احسن اقبال ایک کروڑ 65 لاکھ سے زاید اثاثے۔ حمزہ شہباز 22 کروڑ سے زاید
اثاثے۔ خواجہ سعد رفیق 3 کروڑ روپے کے قرض دار ہیں۔ علی موسیٰ گیلانی 7
کروڑ 52 لاکھ اثاثے، کوئی گاڑی نہیں۔ عبدالقادرگیلانی 18 کروڑ سے زاید
اثاثے، بلٹ پروف امپورٹڈ گاڑی کے مالک۔ حنا ربانی کھر ایک کروڑ 35 لاکھ۔
خورشید شاہ ایک کروڑ 80 ہزار سے زاید اثاثے۔ صدر مملکت آصف زرداری کی
ہمشیرہ فریال تالپور 13 کروڑ سے زاید اثاثے۔ امین فہیم ملک کے اندراور
بیرون ملک جائیداد، ایک لاکھ کے مویشی کے مالک۔ فہمیدہ مرزا 8 کروڑ سے زاید
اثاثے، دبئی میں اپارٹمنٹ۔ فاروق ستار 26 لاکھ کے اثاثے، 10 لاکھ روپے سے
زاید کے بینک اکاؤنٹ۔ چودھری شجاعت حسین 8 کروڑسے زاید کے مالک، اپنی ذاتی
گاڑی نہیں۔
ملک کو چلانے والے سیاستدانوں کے جاری کردہ اثاثوں سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ
وہ شاید کسی اور ہی سیارے کی مخلوق ہیں، کیونکہ جو اثاثے انہوں نے جاری کیے
ہیں ، اگر یہ سچ ہیں تو اس کا مطلب تو ہوا کہ پاکستان کے باقی تمام عوام
سڑکوں پر رہ کر گزارا کرتے ہیں کیونکہ اس دور میں ایک معمولی سا گھر بھی
کسی بھی شہر میں بیس تیس لاکھ سے کم میں نہیں بنتا۔ یہ ارکان پارلیمنٹ جو
ملک کے خزانوں کو اپنا مال سمجھ کر استعمال کرتے ہیں،ان کے پاس صرف لاکھوں
اور کروڑوں کی مالیت ہونا ناممکن ہے۔لاکھوں کروڑوں کے تو ان کے ذمے واجب
الادا بل اور ٹیلی فون کے بل ہی بنتے ہوں گے۔جو لوگ ہمیشہ بجلی ، ٹیلی فون
کے بل تک ادا نہیں کرتے، گزشتہ روز کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی اور
سےنےٹ کے ارکان کی طرف سے بھرپور انداز میں انٹرنیٹ کے استعمال کا انکشاف
ہوا ہے اور اس شوق نے انہیں ایک کروڑ کا نادہندہ بنا دیا،نادہندگان میں
سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنما شامل ہیں۔ بجلی، ٹیلی فون اورانٹرنیٹ کے
نادہندگان میں طلحہ محمود، آفتاب شعبان میرانی، مولانا محمدشیرانی،
صاحبزادہ فضل کریم، محمود خان اچکزئی، چودھری نثار علی خان، عبدالغفور
حیدری، حفیظ شیخ، عبدالرحمن ملک، احمد مختار، چودھری پرویز الٰہی، ڈاکٹر
عاصم حسین، فہمیدہ مرزا، فاروق ستار، طارق فضل چودھری، فاروق ایچ نائیک،
غلام احمد بلور، میر ہزار خان بجارانی، کلثوم پروین، اسفند یار ولی خان،
ریاض فتیانہ اور دیگر شامل ہیں۔
نگراں حکومتوں کے قیام کے بعد حساس اداروں نے سابقہ وزرائ، ممبران قومی و
صوبائی اسمبلی و حکومتی ارکان کے غیر ملکی دوروں اور اس دوران ان کے شاہانہ
اخراجات کے بارے میں بیرون ملک پاکستانی سفارت خانوں اور قونصل خانوں سے
معلومات حاصل کرنا شروع کیں ہیں۔ سفارتی ذرائع کے مطابق سابقہ دور حکومت کے
دوران حکومتی ارکان نے بیرون ملک خاص طو رپر سعودی عرب میں اپنے عمرے کے
لیے نجی دوروں کے دوران سفارت خانوں اور قونصل خانوں سے ناجائز مراعات حاصل
کیں جن کی ادائی باامر مجبوری سفارت خانوں و قونصل خانوں کو کرنا پڑی اور
حکومتی ارکان اپنے ان نجی دوروں کے دوران ہوٹل سمیت دیگر اخراجات کی ادائی
نہیں کرتے رہے۔ سعودی عرب میں پاکستانی اور جدہ میں پاکستانی قونصل خانے نے
حکومتی ارکان کی جگہ 5 سالوں میں لاکھوں ریال ناجائز طورپر ادا کےے ہیں ۔
سعودی عرب میں سابقہ دور میں وزرائ و ممبران اسمبلی، وزیر اعظم یا وزراءکے
اہل خانہ یا ان کے خاص مہمان جب یہاں عمرہ کے لےے آئے تو انہوں نے قونصل
خانوں سے نہ صرف کرائے پر لگژری گاڑیاںحاصل کیں بلکہ مکة المکرمہ و مدینة
المنورہ میں فائیواسٹار ہوٹلوں میں قیام کے بل تک ادا نہیں کےے بلکہ کئی
خاص مہمانوں کے لیے سفارتی عملے کو شاپنگ بھی اپنی جیب سے کرانا پڑی
تھی۔سابق وزیر اعظم گیلانی، سابق وفاقی وزیر مذہبی امور خورشید شاہ اور
دیگر کئی ارکان کے ذمے لاکھوں ریال واجب الادا ہیں۔ سرحد کے گورنر انجینئر
شوکت اللہ بھی عمرے کے لےے اس وقت سعودی عرب میں ہیں اور جدہ کا قونصل خانہ
اور پاکستانی حج مشن کے حکام انہیں بلا معاوضہ رہائش اور دیگر سہولیات
فراہم کر رہا ہے۔ یہ لوگ جن کا یہ حال ہو کہ سب کچھ مفت سمجھ کر استعمال
کریں ، ان لوگوں کے اثاثے صرف لاکھوں اور کروڑوں میں ہوناممکن نہیںہے۔
نجانے کب تک یہ لوگ قوم کے ساتھ جھوٹ بولتے رہیں گے؟کب تک اپنے حقیقی اثاثے
چھپا کر ملک کے عوام کو بیوقوف بناتے رہیں گے؟ |