ایک وقت تھاجب لفظ سیاست بہت
معتبرسمجھا جاتا تھا۔سیاست کرنے والوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
معاشرے میں اس کا بلند مقام تھا۔سیاستدان ہمیشہ اپنے حلقے کی ترقی اور عوام
کی خدمت کا جذبہ رکھتا تھا۔ عوام کی خدمت کرنا اپنا فرض سمجھتا تھا۔ دن رات
اپنے حلقے کی ترقی کے لیے کام کرتا تھا۔ اسمبلیوں میں اپنے حلقے کے مسائل
کے لیے آواز اٹھاتا تھا۔عوام کے ساتھا انصاف کے تقاضے پورے کرتا تھا۔ کسی
کی حق تلفی نہیں کرتا تھا۔ ہمیشہ سچ بولتا تھا اور سچ کا ساتھ دیتا تھا۔ ان
سیاستدانوں کی مثال قائدا عظم کی صورت میں موجود ہے۔ جنہوں نے اپنی زندگی
پاکستان کے لیے وقف کررکھی تھی۔ مگر آج کے سیاستدان سچ کم بولتے ہیں اور
عوام سے جھوٹ بولنااپنا فرض سمجھتے ہیں۔
آج کل کے دورمیں سیاست جھوٹ کا دوسرا نام ہے ۔ جب کوئی جھوٹ بولتا ہے یا
کوئی جھوٹا وعدہ کرتا ہے تو بڑے آرام سے کہہ دیا جاتا ہے کہ ”دیکھ کرگیا نا
سیاست“ ۔ حقیقت میں اب ہمارے سیاستدان جب تک جھوٹ نا بولیں یا جھوٹا وعدہ
نہ کریں عوام کو بھی یقین نہیں ہوتا کہ یہ سیاستدان ہیں۔ ہماری عوام جو بہت
سادہ ہے ہر سیاستدان کے جھوٹے بہکاوے میں آجاتی ہے۔ کوئی بیرونی ممالک سے
آکر عوام کو سنہرے خواب دیکھا تا ہے تو کوئی پاکستان میں رہ کر مظلوم بن کر
عوام سے حمایت چاہتا ہے۔
میںنیوزچینل دیکھ رہا تھا کہ کہ اچانک ”بریکنگ نیوز“آئی اور نیوز کاسٹر نے
کہا کہ ہم آپ کو بہاولپور لیے چلتے ہیں جہاں تحریک انصاف کے چئیرمین عمران
خان اور نواب آف بہاولپور نواب صلاح الدین عباسی پریس کانفرنس کررہے
ہیں۔عمران خان نے جو باتیں کی ان میںایک خاص نقطہ جس پر وہ زور دے رہے تھے
کہ ”میں نواز شریف کا شگرگزار ہوں اس نے تحریک انصاف کا گند صاف
کردیا“سمجھدار کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے کہ وہ گند کس کو بنا رہے ہیں۔
خان صاحب سے پوچھا جائے کہ یہ ”گند “آیا کدھر سے اور کس نے اس” گند“ کو
تحریک انصاف میں شامل کیا۔
مجھے یا د پڑتا ہے جب تحریک انصاف بنائی گئی تو عمران خان نے اس کے ممبر شپ
فارم اخبارات میں شائع کرائے اور جب تو دھڑا دھڑ ممبر سازی کرتے رہے ۔
30اکتوبر کے جلسہ کو کامیاب بنانا اسی ”گند“ کا کام تھا جو قافلے کے قافلے
جلسہ گاہ میں لیکر پہنچے۔ اس کے بعد تحریک انصاف میں دوسری جماعتوں کے
(بقول خان صاحب )گند آنا شروع ہوئے ۔ خان صاحب آج آپ ان لوگوں کو گند کہہ
رہے ہیں جو آپ کو چھوڑ چکے ہیں اس کا مطلب ہے کہ 23مارچ کے جلسے میں اٹھارہ
کروڑ کی عوام میں سے جو ڈیڑھ، دولاکھ افراد آپ کے جلسے میں آئے وہ سب اچھے
ہیں باقی سترہ کروڑ اٹھانوے لاکھ عوام بھی ”گند“ ہوگی ؟
آپ کی ان باتوں سے عوام کی طرف سے چند سوال ہیںجو ان کے ذہین میں ابھررہے
ہیں۔ان کا جواب دیکر ان کو مطمئن کریں کیونکہ وزیراعظم کے خواب آپ بھی دیکھ
رہے ہیں۔اگر آپ وزیراعظم بن گئے تو پھر عوام کی ساری ذمہ داری آپ پر ہوگی
خواہ وہ آپ کو پسند کریںیا نہ کریں۔
﴿ جن کو آپ گند کہہ رہے ہو وہ تو وہ لوگ ہیں جو آپ کو چھوڑ کر چلے گئے او
جوآج آپ کے ساتھ ہیںاگروہ آپ کوکل چھوڑ دیں تو پھر وہ بھی گند بن جائیں گے؟
﴿ شاہ محمود قریشی، جاوید ہاشمی، سردار آصف ، خورشید قصوری،ترین جو دوسری
پارٹی چھوڑ کر آپ میں شامل ہوئے ہیں پھر وہ کیا ہیں؟کیا ان کو بھی ن لیگ،
پیپلز پارٹی او ر ق لیگ وہ الفاظ استعمال کرسکتی ہے جوآپ نے کی ہے؟
﴿بقول آپ کے! تحریک انصاف تنہا الیکشن لڑے گی۔ اب آپ کیوں سیٹ ایڈجسٹمنٹ
کررہے ہیں؟کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
﴿ سیٹ ایڈجسٹمنٹ اور اتحاد میں کیا فرق ہے؟حقیقت تو حکومت میں شامل ہونا ہے
نا؟
﴿ مسلم لیگ ن سے آپ کی کیا ذاتی رنجش ہے جو آپ ہر برائی ان کے کھاتے ہیں
ڈالتے ہو؟ جبکہ پیپلز پارٹی ، ایم کیوایم، فضل الرحمن، مشرف اور بہت سی
جماعتیں ہیں جن بہت سی برائیاں موجود ہے۔ایم کیو ایم کے خلاف تو آپ برطانیہ
مقدمہ کرنے تک پہنچ گئے تھے۔مگر ان کو کبھی آپ برا نہیں کہتے؟
یہ وہ سوال ہیں جو اکثر ذی شعور اور سیاست پر نظر رکھنے والے لوگوں کے ذہن
کچھ سوچنے پر مجبور کررہے ہیں۔آج کل کوئی بھی سیاست دان عوام کا خیر خواہ
نہیں بلکہ کرسی حاصل کرنے کے لیے عوام کو بےوقوف بنا تا ہے۔آپ پر لوگ اس
لیے اعتماد کرر ہے ہیں کہ آپ کو ابھی تک اقتدار نہیں ملا اسی لیے کچھ لوگ
آپ کو اپنا مسیحا سمجھ رہے ہیں۔ یہ تو وقت بتائے گا کہ آپ ان کے ساتھ کیسا
برتاؤ کرتے ہیں۔مگر آپ نے جو الفاظ پریس کانفرنس میں استعمال کیے ان سے تک
لگ رہا ہے کہ آپ بھی دوسرے سیاستدانوں کی طرح ہی رویہ رکھو گے۔
سیاستدانوں کی طرف سے عوام کو چکر دینے کی بہت سی مثالیں ہیں۔ پچھلے دنوںپی
پی کی حکومت نے جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا شوشہ چلایا اور انہیں سیاستدانوں
نے بلند و بانگ آواز میں عوام کے سامنے اپنے دورحکومت میں صوبہ بنانے کی
نوید بھی سنائی مگرکدھر گیا وہ صوبہ؟ حکومت تو ختم ہوکر گھر بیٹھ گئی۔حکومت
کے اس الگ صوبے کی سیاسی چال نے ملک کو کروڑں کا نقصان پہنچایا مگریہ لوگ
اپنا مفاد پورا کرگئے۔
طاہر القادری اپنی جان بچانے کے لیے اتنا عرصہ ملک سے باہر رہا اور یک دم
پاکستان کی محبت جاگی اورپاکستان میں آکرایک جلسہ کرکے افراتفری پھیلا دی۔
عوام کو اسلام آباد لے جاکر دھرنا مارکر بیٹھا دیا اورجب کچھ نہ بنا تو پھر
مطالبات کا ڈرامہ رچاکر جان چھڑائی اس کے بدلے اس کا تو مفادپورا ہوگیا
ہوگا مگر عوام کو تکلیف ملی اور ملک کو تجارتی خسارہ برداشت کرناپڑا۔
ایسے ہی پرویز مشرف اپنے دور حکومت ختم کرتے ہی ملک سے بھاگ گیا اور اب
جیسے ہی حکومت ختم ہوئی پھر پاکستان میں آگیا۔اس کا کیا مطلب کہ وہ عوام کا
خیر خواہ ہے یا اپنی جان بچا کر ملک سے باہر بیٹھا تھا؟ اس نے عوام کو کیا
دیا سوائے خودکش حملے اور لال مسجد میں لاشوں کا تحفہ۔ ان سب باتوں سے
سیاستدان تو مفاد پرست نظر آرہے ہیں مگر عوام پر بھی دکھ ہے کہ وہ بغیر کسی
تحقیق کے کبھی کسی کے پیچھے اور کبھی کسی کے پیچھے چل پڑتی ہے۔میں نے بہت
سے ایسے لوگوں کو بھی دیکھا ہے جو کل کسی کے جلسے میں تھے اور آج کسی اور
کے جلسے میں۔
آج پھر الیکشن سر پر ہے اور ہر حلقے میں ایک سیٹ کے لیے کئی کئی امیدوار
کھڑے ہیں۔اب عوام کو ان سیاستدانوں کی چکنی چپڑی باتوں میں آنے کی بجائے اس
امیدوار کا ساتھ دینا چاہیے جو کھرا اور سچا ہو۔ جو حلقے کی ترقی اور عوام
کی خدمت پر یقین رکھتا ہو۔ جو نیک و پرہیز گار ہو۔ ملک کو قرضہ کی لعنت سے
چھٹکارا دلائے۔امریکہ یا انڈیا کا غلام نہ ہو۔ لوڈشیڈنگ ،بیروزگاری، گیس
جیسی چیزوں کی کمی کو پورا کرے۔ پاکستان میں اسلامی قوانین کی پاسداری
کرائے۔ قرآن کو نصب العین سمجھے۔ کرپشن اور رشوت سے ملک کو پاک کرے اور امن
و امان قائم کرے۔ |