کراچی میں امن ، ملکی جمہوریت کا ضامن

لوگ پریشان ہیں کہ کراچی جل رہا ہے ، کراچی کا امن تباہ ہوگیا ہے، پولیس رینجرز اور دیگر سیکورٹی ادارے ٹامک ٹوئیاں مارتے پھر رہے ہیں کہ کہیں سے ملزمان مل جائیں تو کچھ کارکردگی دکھائیں ، سپریم کورٹ کراچی بدامنی کیس کی سماعت کرتی نظر آرہی ہے ۔ یہ چند ہفتوں کی مہمان حکومت عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کوئی ایسا کام کیوں نہیں کرجاتی کہ عوام اس حکومت کو اچھے الفاظ میں یاد کرسکیں۔ اب تک اس حکومت نے عوام کو مسائل سے دوچار اور ملک کو بحرانوں میں مبتلا ہی کیا ہے۔ پہلے وزیر اعلی سندھ ، پھر آئی جی سندھ اور اب کمشنر کراچی کا یہ کہنا بڑی جسارت، دیدہ دلیری اور دہشت گردی کے ہاتھوں پہلے سے زخم خوردہ عوام کے زخموں پرنمک پاشی کے مترادف ہے کہ کراچی و اندرون سندھ میں امن و امان کا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔آئے دن چوری ، ڈکیتی ، لوٹ مار، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان ، غریب ہاریوں ، سیلاب اور بارش سے پریشان عوام پر ظلم و ستم کی داستانیں ذرائع ابلاغ کی زینت بن رہی ہیں ۔ پھر یہ کہ اندرون سندھ کو کراچی سے علیحدہ کرکے وہاں امن و امان کے ڈھول پیٹنا سندھ کو تقسیم کرنے کے مترادف ہے ، جس کے خلاف صوبے کی قوم پرست جماعتیں احتجاج اور مظاہرے کررہی ہیں ۔دوسری طرف کراچی سندھ کا ہی نہیں ، پورے پاکستان کا آئینہ ہے جس کے بارے میں حکومتی عہدیداران کے اسطرح کے غیر زمہ دارانہ بیانات اہل شہر کے ساتھ سنگین مذاق ہی نہیں بلکہ عوام کی آواز کو جھٹلانے کے مترادف بھی ہے۔ عوام کے بعد کراچی کے تاجروں نے بھی ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری سے تنگ آکر صوبائی حکومت سے کراچی میں فوج بلا کر حالات پر قابو پانے کا مطالبہ کیا تھا۔ اگر حکومت سندھ اہل ہوتی تو اس کے دور میں کراچی میں ہزاروں افراد دہشت گردوں کے ہاتھوں لقمہءاجل کیو ں بنتے۔ اہالیان کراچی عجیب کشمکش اور اضطراب کا شکار ہیں ۔ ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری نے انہیں حد درجہ خوف زدہ ، محتاط اور حساس بنادیا ہے۔ شہر میں ہر طبقہ فکر کے لوگ بیدردی سے قتل کئے جارہے ہیں۔ علمائے کرام، مفتیان، ڈاکٹرز ، انجینیئرز، وکلائ،تاجربرادری، پولیوورکرز اور محنت کش مزدور طبقہ دہشت گردوں کی مذموم کارروائیوں کا ہدف بنے ہوئے ہیں۔ مسلسل ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے خلاف عوام کی چیخ و پکار تو صدا بہ صحرا ثابت ہورہی ہے اب تو تاجر بھی تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق مائل بہ ہڑتال ہیں ۔لیکن مجال ہے کہ حکومت ٹس سے مس ہوئی ہو یا اس کے ماتھے پر کوئی شکن نمودار ہوئی ہو۔ حکومت اور انتظامیہ کی ناکامی کے بعد بالآخر عدالت عظمی کو اس کا نوٹس لینا پڑا ۔ سپریم کورٹ نے بھی سندھ حکومت اور پولیس کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ عدالت عظمی کے لارجر بینچ نے کراچی بدامنی کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بچوں کا گھروں سے باہر نکلنا مشکل ہوگیا ہے، دہشت گردوں کو کھلی چھٹی دیدی گئی ہے، پولیس اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد سیاسی وابستگی اور جرائم پیشہ گروہوں سے ملی ہوئی ہے۔ اس وقت بھی کراچی پولیس کے 49 افسران و اہلکار 54 کے قریب مقدمات میں ملوث ہیں جن میں قتل جیسے سنگین مقدمات کی تعداد بھی 16 ہے ۔کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کی جانب سے نشاندہی کی گئی کہ سندھ پولیس کے 400 افسران و اہلکار جرائم میں ملوث ہیں جن میںسپاہی سے لیکر ڈی ایس پی رینک تک کے افراد شامل ہیں ۔ کراچی میں جرائم کی شرح پر قابو نہ پاسکنے کی ایک بڑی وجہ یہی نظر آتی ہے حالانکہ پولیس بجٹ میں خطیر اضافہ ہوا 21 ارب روپے کا بجٹ اب 39 ارب کردیا گیا ہے تاہم پولیس کی کارکردگی کے وہ حوصلہ افزاءنتائج برآمد نہیں ہوئے جن کی امیدلگائی جارہی تھی۔ مفرور اور اشتہاری قرار دیئے جانے والے 89 ہزار ملزمان تاحال بھی پولیس کی دسترس سے باہر ہیں جس کی سزا معصوم اور نہتے شہریوں کو بھگتنا پڑرہی ہے ۔ کم و بیش دو کروڑ نفوس پر مشتمل انتہائی گنجان آبادشہر ، عروس البلاد کراچی جسے اس کی جغرافیائی اور اقتصادی اہمیت کے اعتبار سے چھوٹا پاکستان بھی کہا جاتا ہے، ایک عرصے سے بدترین سیاسی ، لسانی ، نسلی اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کا نشانہ بنا ہوا ہے اور روزانہ درجنوں افراد ناحق قتل کئے جارہے ہیں ، کروڑوں روپے کی قیمتی املاک کا نقصان اس کے علاوہ ہے۔ سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ ملک کے اس سب سے بڑے اور غریب پرور شہر میں حکومت کی رٹ کئی حوالوں سے کہیں نظر نہیں آتی۔ ٹارگٹ کلرز ، بھتہ خور اور فرقہ پرست بلا روک ٹوک دندناتے پھر تے ہیں اور جہاں چاہتے ہیں آگ اور خون کا بازار گرم کرکے رفوچکر ہوجاتے ہیں ، پورا شہر پیشہ ور قاتلوں کے رحم و کرم پر ہے۔ شہر میں ہر طرف خوف و ہراس کا عالم ہے کاروباری سرگرمیاں ماند پڑچکی ہیں ۔ کراچی بد امنی کیس میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے حکم دیا تھا کہ شہر میں تمام غیر قانونی اسلحہ ضبط کیا جائے، پولیس کو سیاسی اثر سے پاک کیا جائے، لینڈ مافیا کے خلاف کارروائی کے لئے قانون سازی کی جائے ، اسلحہ لائسنس نادرا کے ذریعے جاری کئے جائیں اور شہر کے مختلف علاقوں سے نوگو ایریاز ختم کئے جائیں ۔ ان احکامات پر کلی طور پر تو کیا عملدرآمد بھی نہیں ہوا۔ شہر میں بدستور غیر قانونی اسلحہ اور گولہ بارود کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں ۔ روز ہی شہر کے کسی نہ کسی علاقے میں کریکر یا دستی بم کا دھماکہ ہورہا ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ کراچی خون میں نہایا ہوا ہے ، پوری قوم سراپا احتجاج ہے مگر اس صورت حال کی ذمہ داری حکومت قبول کررہی ہے نہ قانون نافذ کرنے والے ادارے۔ تخریبی عناصر کے حوصلے اتنے بڑھ چکے ہیں کہ پولیس اور رینجرز کے گشت پر مامور اہلکاروں کو بھی حملے کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔سیکورٹی انتظامات کے حوالے سے کبھی موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی لگادی جاتی ہے تو کبھی موبائل فونز کا نیٹ ورک جام کردیا جاتا ہے مگر صورتحال جوں کی توں ہے۔دہشت گردوں نے منظم منصوبہ بند ی کے ذریعے امام بارگاہوں ، مساجد اور ماتمی جلوسوں میں کارروائیاں کرکے مذہبی اختلافات کو ہوا دینے کی کوشش کی توکبھی قومی یکجہتی کو متاثر کیا۔کہا یہ جارہا ہے کہ کراچی میں تین چار ہزار کے قریب طالبان موجود ہیں اور دو ہزار کے قریب پیشہ ور قاتل بھی دندناتے پھر رہے ہیں جو پاکستان کی اقتصادی شہ رگ کو مستقل طور پر مفلوج کرنے کی سازش پر عمل پیرا ہیں۔شہر کی صورتحال سنبھلنے کے بجائے روز بروز بگڑ رہی ہے۔فائرنگ ، دھماکے، اغوا اور مسخ شدہ لاشیں ملنے کے واقعات روزانہ کا معمول بن گئے ہیں ۔ بدامنی کی اس فضا میں بعض حلقے خدشات ظاہر کررہے ہیں کہ عام انتخابات کا پر امن انعقاد کس طرح ممکن ہوگا۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے ۔ حکومت کو جمہوریت کے استحکام اور عام انتخابات کے انعقاد کو ممکن بنانے کے لئے امن و امان کی بحالی کی خاطر غیر معمولی اقدامات کرنا ہونگے۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ امن کے بغیر جمہوریت کا خواب پورا نہیں ہوسکتااور انتخابات جمہوریت کی بنیاد ہیں۔ جمہوریت امن ہی سے مضبوط ہوتی ہے۔ جہاں بدامنی اور بدنظمی ہو وہاں پر امن اور شفاف انتخابات کو ممکن بنانے کے لئے سیاسی اور عسکری قیادت میں تعاون اور مفاہمت ملک و قوم کے مفاد میں ہوگی ، خود سیاسی قوتوں کو بھی امن و امان کے حوالے سے باہمی تعاون کی پالیسی اختیار کرنی چاہئے ۔ یہ حقیقت مد نظر رکھنا چاہئے کہ جمہوریت محض انتخابات جیتنے کا نام نہیں ، اگر ایسا ہوتا تو ووٹ کی بھاری اکثریت کے ساتھ برسر اقتدار آنے والے روڈلف ہٹلر اور مسولینی کو بد ترین ڈکٹیٹر اور فاشسٹ قرار نہ دیا جاتا۔جمہوریت کی اہمیت اس سے کہیں زیادہ ہے اور ساتھ ساتھ جمہوری حکومت اس امر کی پابند ہے کہ عام آدمی کے جان و مال، روزگار ، ضروریات زندگی ، سماجی و معاشرتی انصاف اور عزت نفس کا تحفظ کیا جائے۔ عوام کے مسائل حل نہ کئے جائیں تو ملک میں بے چینی، بدامنی اور انتشار پھیلتا ہے جو جمہوریت کی روح کے منافی ہے۔ حکومت کے بلند و بانگ دعوے اپنی جگہ مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ بد امنی ، بے روزگاری اور مہنگائی نے عوام کا جینا محال کررکھا ہے۔ معیشت زوال کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔سرمایہ کاری رک گئی ہے، کارخانے اور فیکٹریاں بند ہورہی ہیں ، بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ نے صنعتوں کے علاوہ گھریلو صارفین کا بھی ناطقہ بند کررکھا ہے۔مگر نیرو ہے کہ چین کی بانسری بجائے چلا جارہا ہے۔یہ جو کراچی میں صبح شام اندھے قتل ہورہے ہیں، یہ اتنے بھی اندھے نہیں کہ ان کا ارتکاب کرنے والوں کا کسی کو پتہ ہی نہ ہو۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ پکڑنے والے خود ان پر ہاتھ ڈالنے سے ڈرتے ہیں ۔ ہا ں البتہ شریف اور امن پسند محنت کش شہریوں کو جگہ جگہ بلاجواز روک کر انکی تلاشی لینا، گاڑیوں کے کاغذات کو الٹ پلٹ کر کے اس میں کوئی قانونی سقم تلاش کرنا، بیچ سڑک پر موبائلیں لگا کر اسنیپ چیکنگ کے نام پر گھنٹوں ٹریفک جام کا باعث بنناہماری پولیس کا آسان اور پسندیدہ فعل ہے جس میں ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ چوکھا آئے کے مصداق آم کے آم ، گٹھلیوں کے دام بھی وصول ہوجاتے ہیں اور ڈیوٹی کے اوقات کار بھی ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اب اہل کراچی خود بھی خاموش نہ بیٹھیں کیونکہ یہ ان کی نسلوں کے مستقبل کا سوال ہے۔ کراچی میں امن و سکون ایک شہر کے لوگوں کا نہیں پوری قوم کا مسئلہ ہے ، اس کے سودوزیاں میں ملک کے ہر صوبے ، ہر علاقے کے لوگ شریک ہیں جو روزگار یا تجارت کی خاطر یہاں مقیم ہیں ، اس لئے کراچی کو ایک بار پھر امن کا گہوارہ بنانے کے لئے پوری قوم کو اٹھنا پڑے گا، اپنے شہر کو درندہ صفت دہشت گردوں کے رحم و کرم پر ہرگز نہیں چھوڑا جاسکتا۔ گزشتہ دنوں ایکسپریس اخبار میں ایک تصویر شائع ہوئی جس میں چند مشتعل افراد ایک شہری سے اس کی موٹر سائیکل زبردستی چھیننے کی کوشش کررہے ہیںتاکہ اسے نذر آتش کرسکیں اور پاس ہی رینجرز و پولیس کے اہلکار موجود ہیں جو اس صورتحال سے قطعی لاتعلق نظر آرہے ہیں، اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شہریوں کی سیکورٹی پر مامور ادارے شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے لئے کتنے سنجیدہ اورمخلص ہیں۔
Asher Najmi
About the Author: Asher Najmi Read More Articles by Asher Najmi: 3 Articles with 1603 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.