میاں برادران کا دوسرا این آر او

آج اہل وطن حیران و پریشان ہیں اس سوچ میں گم کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور وہ کس سے منصفی چاہیں کس کو وکیل کریں ،یہاں تو سلطانی بھی عیاری اور درویشی بھی عیاری،بظاہر اصلی مسلم لیگ اور قائداعظم کے وارث مگر نہ وہ خود داری نہ حیا نام کی کوئی چیز،اور حمیت نام تھا جس کا شاید وہ بھی یہ دونوں بھائی جدہ چھوڑ آئے اگر آپ نے بھی جدہ اور واشنگٹن کی شریعت اہل وطن پہ لاگو کرنی ہے تو پھر اتنی بھاگ دوڑ اور اچھل کود کی کیا ضرورت ،یہی ٹھیک تھے جو اللہ تعالیٰ کے بعد آپکی مہربانی سے ہماری گردنوں پر پانچ سال مسلط رہے بلکہ ذرا ٹھریے ان سے بھی پہلے وہ گیدڑ نما کمانڈو ہی بہتر تھا جس نے ایک لیٹ نائٹ کال کہ اس وقت شاید وہ ہوش میں نہیں تھاپر اپنے ملک کو امریکی کالونی اور اغیار کی چرا ہ گاہ بنا کہ رکھ دیا اور اس ملک کو کمانڈو صاحب کے لگائے گئے گھاﺅ ہیں کہ بھرنے میں ہی نہیں آرہے،بہت سوں کی طرح ہم نے بھی سمجھ لیا تھا کہ شریف برادران نے جلاوطنی سے اور نہیں تو کم از کم اتنا سبق ضرور حاصل کیا ہو گا کہ اقتدار اعلیٰ کا مالک نہ سعودی شہزادے ہیں نہ وائٹ ہاﺅس کالےو گورے انگریز ،اس کا مالک صرف اور صرف وہ اللہ ہے جس نے اس کائنات کو نہ صرف پیدا کیا بلکہ اس پر اپنی دسترس بھی یوں قائم کیے ہوئے ہے کہ اس کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل سکتا اور وہ جب چاہتا ہے کسی لوہے فیکٹری کے مالک کے بیٹے کو نہ صرف ملک کا مقبول ترین عوامی راہنما بنا دیتا ہے بلکہ ملک کی حاکمیت بھی اس کے نام کر دیتا ہے اور وہی جب چاہتا ہے تو وہ شخص جو رات کو وزیراعظم ہوتا ہے صبح جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتا ہے اور دوتہائی اور تاریخ کا سب سے بڑا مینڈیٹ ایک گلاس پانی تک بھی نہیں دے سکتا، اور بظاہر جہازوں کے مالک لوگوں کو انہی جہازوں کی سیٹوں سے باندھ کر جلاوطن کر دیتا ہے میاں برادران کے اقتدار کا جوبن اپنے پورے عروج وکمال پہ تھا کہ ایک جنرل نے اپنے حلف کو اپنے ہی پاﺅں تلے روندتے ہوئے زبردستی اقتدار پر قبضہ کر لیا،نہ صرف میاں صاحبان بلکہ پورے خاندان کے مردوں کو ان سمیت جن کا سیاست سے کوئی دور پرے کا بھی تعلق نہ تھا نذر زنداں کر دیا،بھلا ہو بیگم کلثوم نواز کا جو باہر نکلیں اور بروقت نکلیں ورنہ آج ہم خدانخواستہ ایک اور وزیراعظم کی پھانسی کو رو رہے ہوتے بیگم صاحبہ نے پورے ملک کے طوفانی دورے کر کے کم از کم اتنا پریشر ضرور پیدا کر لیا کہ ایک ڈکٹیٹر کی فرعونیت میں اتنا خم آگیا کہ وہ میاںصاحب کی جاں بخشی پر تیا ر ہو گیا،پھر وہ بدنام زمانہ معاہدہ ہوا جسے میاںصاحبان آخر دم تک جھٹلاتے رہے اور بالآخر پانچ سال کے معاہدے کو تسلیم کر لیا،اور ایک رات کی تاریکی میں چپکے سے اپنے پیاروں کے پاس سدھار گئے جو اس معاہدے کے گارنٹر تھے دس سال کا معاہدہ تھا مگر درمیان میں دونوں بھائیوں نے یکے بعد دیگرے پاکستان آنے کی کو شش کی اور دونوں کے ساتھ نم نہاد کمانڈو نے کیا کیا وہ بھی اس قوم کے سامنے ہے اور جب بعد ازاں ایک وقت میں الیکشن کے قریب قریب بے نظیر بھٹو کو وطن واپسی کی اجازت ملی تو میان برادران نے بھی اپنے مہربانوں کے منت ترلے کیے اور مہربانوں نے کمانڈو کو جھٹک کے حکم دیا کہ اب کی بار سابقہ پریکٹس برداشت نہیں کی جائے گی اور یوں میاں صاحبان آٹھ دس سال بعد اپنی سرزمین پر واپس آگئے اور پھر نئے الیکشن سے قبل الیکشن مہم کے دوران اور الیکشن کے بعد میاں صاحب نے ہر موقع پر پرویز مشرف کو آڑے ہاتھوں لیا اور ہر فورم پر اسے غدار اور ملک دشمن قرار دے کر اس کے لیے آٹیکل 6کے تحت کاروائی کا مطالبہ کیا اور جب پیپلز پارٹی والوں نے مشرف کو گارڈآف آنر دے کر رخصت کیا تو میاں صاحب پیپلز پارٹی پر بھی خوب برسے ،سیاہ رو ڈکٹیٹر جب ملک سے باہر چلا گیا تو بھی مسلم لیگ کے تمام چھوٹے بڑے کانٹوں پر لوٹتے رہے اور صبح شام مشرف کو کو انٹر پول کے ذریعے واپس لا کر اس کے ٹرائل کا مطالبہ کرتے رہے،اور ان کا یہ مطالبہ ہر لحاظ سے نہ صرف بجا تھا بلکہ آئندہ کے لیے اس ملک میں غارت گروں کا راستہ روکنے کے لیے بھی یہ بہت ضروری تھا کہ واحد زندہ آمر کا مکمل اور بھرپور ٹرائل کیا جائے تاکہ آئندہ کسی کو بھی عوام کے حق حکمرانی پہ ڈاکہ مارنے کی جرات نہ ہو سکے پاکستانی قوم کو اب کی بار امید ہو چلی تھی کہ اس دفعہ کم از کم میاں نواز شریف کی حکومت آتے ہی اور کچھ ہو نہ ہو مشرف کو ضرور قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا،مگر یہ بھولی بھالی قوم بھول گئی کہ یہ پاکستان ہے یہاں اخلاقیات اور اصول پسندی نام کی چیزیں صرف اور صرف کتابوں میں ہیں ،جب مشرف کی ساری باقیات میاں صاحبان نے اپنے ارد گرد جمع کر لیں تو کم از کم ہمیں تو کوئی خوش فہمی نہ رہی کہ یہ ن لیگ مشرف کا ٹرائل کرے گی یا کر سکے گی بلکہ اب تو کنفرم ہو رہا ہے کہ یہ کبھی اپنے اس مطالبے میں سنجیدہ تھے ہی نہیں ،ان کا مطمع نظر صرف اور صرف اقتدار اور دولت وثروت کی حرص وہوس ہے چاہے کسی بھی طرح اور کیسے بھی مل جائے،بازو لہرا لہرا کر ٹرائل ٹرائل کا مطالبہ کرنے والے اسی ڈکٹیٹر کی آمد پر دھنیا پی کر سو رہے ہیں اور بظاہر یوں لگ رہا ہے کہ جیسے انہیں خبر ہی نہیں کہ وہ جسے نورا لیگ پہاڑوں اور جنگلوں میں تلاش کرتی پھر رہی ہے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں نہ صرف نازل ہو چکا ہے بلکہ ملک کے مختلف علاقوں سے الیکشن لڑنے کی تیاری بھی کر رہاہے مگر یہاں ن لیگ کی زمین سے لے کر آسمان تک تمام چھوٹی بڑی قیادت و کارکنوں کو سانپ سونگھا ہوا ہے اور کوئی ایک بھی شخص اس کے خلاف ٹرائل کا مطالبہ تو دور کی بات الیکشن کمشن تک سے کہنے کی جرات نہیں کر پا رہا کہ جناب یہ شخص غدار وطن ہے اس نے دو دفعہ آئین کو پاﺅں تلے روندا اور نئی آنیوالی قومی اسمبلی نے اس کے کسی بھی اقدام کی تو ثیق نہیں کی اس کو کم از کم الیکشن کے لیے تو نا اہل قرار دیا جائے اور جناب میاں صاحب یہ وہی مشرف ہے جس نے آپ کو آپکی ٹیم سمیت اقتدار کے ایوانوں سے ذلیل کر کے زبردستی دیس نکالا دیا تھا،یہ وہی مشرف ہے جس نے اپنے سینکڑوں ہم وطن نہ صرف امریکہ کو ڈالروں کے عوض بیچے بلکہ اس سب کا بڑے فخر سے اپنی کتاب میں اعتراف بھی کیا،یہ وہی مشرف ہے جس نے اس ملک کے اٹھارہ کروڑعوام کے حق حکمرانی پر ڈاکہ مار کے عوامی جمہوری حکومت کو ختم کیا،یہ وہی مشرف ہے جس نے قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کو تین معصوم بچوں سمیت بھوکے بھیڑیوں کے حوالے کیا،اگر وہ مجرم تھی تو کیا اس جبری حکمران کے پاس کوئی ایسی ایجنسی نہیں تھی جو ایک لڑکی سے تفےیش کر سکتی،جی ہاں یہ وہی مشرف ہے میاں صاحب جس نے آپکو آپ کے والد گرامی کی میت کے ساتھ پاکستان آنے انہیں اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارنے کے ازلی اور پیدائشی حق سے محروم کیا،یہ وہی مشرف ہے جس نے اپنے بیس امریکہ کو بطور فوجی اڈے دیئے جہاں سے امریکہ بہادر نے ہمارے ہمسایﺅںپہ 57 ہزار فضائی حملے کیے یہ وہی مشرف ہے جس نے اکبر بگٹی کو قتل کر کے بلوچستان کو آتش کدہ بنایا اور پنجابیوں کے لیے نو گو ایریا بنا دیا،یہ وہی مشرف ہے جس نے لال مسجد کو خاک وخون میں نہلایا اور ملک کو دہشت گردی کے اس جہنم میں دھکیل دیا جو بجھ کے نہیں دے رہا وہی لال مسجد میاں صاحب کہ جس کی مظلوم بچیوں پر ہونے والے ظلم کی داستان آپ الیکشن 2008 میں سناتے پس پردہ غمگین سا ساز بجتا اور جلسے میں موجود لوگوں کی سسکیاں آہوں اور دھاڑوں میں تبدیل ہو جاتیں اور آپ پھر انہیں تسلی دیتے کہ بے فکر رہوان قرآن کی طالب علم میری بیٹیوں کے قاتل کو آپ کا یہ بھائی اور بیٹا ایک دن ضرور کٹہرے میں لائے گا آپ نے تو اپنی بڑی تھوڑی قیمت لگائی میاں صاحب آپ سے توا س قوم کو بڑی امیدیں وابستہ تھیں،مگر آپ نے یہہ کیا کیا،قوم تو منتظر تھی کہ مشرف سمیت جس جس نے بھی جو کچھ بھی آئین و قانون سے ہٹ کر کیا آپ اقتدار میں آکر اس کا حساب لیں گے مگر یہ کیا ہوا وائے افسوس کہ کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا،کوئی ایک کیا اس ظالم ڈکیٹیٹر کے ظلم و ستم پر پوری کتاب مرتب کی جاسکتی ہے اور کچھ نہیں تو کارگل ایڈونچر کی ہی صاف شفاف تفتیش آرمی سے ہی کروا لیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پنی ہو جائے گا مگر نجانے کس نے ن لیگ کی زبانوں پہ تالے لگا دیئے ہیں انہی نے نا جنہوں نے کل اس ڈکٹیٹر سے میاں برادران کی جاں خلاصی حاصل کی تھی آج انہوں نے انہی میاں برادران سے اس ننگ وطن وننگ ملت غاصب کو ڈسٹرب نہ کرنے کی ضمانت مانگ لی ہے اور میاں صاحبان اپنے مصاحبین سمیت گنگ ہیں چلیں میاں صاحبان کی تو مجبوریاں سمجھ میں آتی ہیں مگر قلم کے وہ سوداگر کدھر گئے جو اپنے آپ کو مجاہدین اعظم سمجھتے ہیں سید مشرف صاحب نے رائے ونڈ کا دستور نہیں توڑا بلکہ پاکستاں کے آئین کے ساتھ کھلواڑ کیا یہ پوری قوم کا مجرم ہے کیا یہ قلم فروشی نہیں کہ آپ میاں صاحبان کے سامنے حق و سچ رکھنے کی بجائے ان کی ہاں میں ہا ں ملائے چلے جا رہے ہیں،خدارا اب بس کر دیں سانپ اور سیڑھی کا یہ کھیل کب تک اس قوم کا مقدر رہے گا، کب تک ہمیں میثاق اور این آر او کے نام پرہمیں بے وقوف بنایا جاتا رہے گا اگر پیپلز پارٹی کا این آر او برا اور مکروہ ہے تو آپ کا پہلا اور اب دوسرا این آر او کیسے ، کتنا اور کیوں کر معتبر ہو سکتا ہے،این آر او کسی کا بھی ہو اور کسی سے بھی ہو قابل ستائش نہیں بلکہ قابل نفرت ہی ہوتا ہے کب تک ہماری ڈوریں باہر والے ہلاتے رہیں گے کب تک واشنگٹن ہمارا قبلہ رہے گا کب تک سعودی حکمران ہمیں حکم دیتے رہیں گے،ن لیگ کا نعرہ ہے کہ ہم بدلیں گے پاکستان ! کیا یوں بدلے گا پاکستان آپ پاکستان کو تو بعد میں بدلیں ذرا سی ہمت کر کے میمو کیس کی طرح مشرف کے لیے بھی عدالت چلے جائیں پتہ تو چلے کہ آپ کتنے پانی میں ہیں،باہر سے ڈوریاں ہلانے والے ہمارے خیر خواہ کبھی بھی نہیں ہو سکتے مگر اس سب میں سارا قصور ان باہر والوں کا ہر گز نہیں وہ پتلی تماشے کے شوقین ہیں اور پتلیاں انہیں یہاں سے وافر مقدار میں دستیاب ہو جاتی ہیں،کاش کسی کے لیے ناچتی تھرکتی ہماری یہ پتلیاں کبھی ایک بار بھی سوچ لیں کہ جس طرح کی مداخلت ان کے آقا ہمارے اندرونی معاملات میں کرتے ہیں کیا کبھی ہم ان کے ملک میں ایسی مداخلت کے بارے میں سوچ بھی سکتے ہیں،،،،،،،،،،،،،