تیسری دنیا کا عظیم لیڈر : ذوالفقار علی بھٹو شہید

4 اپریل 1979ء
34ویں برسی
وہ ہستی جو آج بھی مادرِ وطن کے کروڑوں عوام کے دل کی دھڑکن ہے وہ پاکستان کا وزیر خارجہ، صدر مملکت اور وزیراعظم ہونے کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی کا بانی چیئرمین تھا اسے دنیا ذوالفقار علی بھٹو شہید کے نام سے جانتی اور یادکرتی ہے۔ دنیائے اسلام کے اس بطل جلیل اور اسلامی سربراہی کانفرنس کے چیئرمین اور پاکستان کے مدبر سیاسی رہنما اورپہلے منتخب وزیراعظم کو پاکستان کے آمر مطق جنرل ضیا الحق نے چار اپریل کی شب تاریکی میں تختہ دار پر لٹکا کر کروڑوں عوام کو یتیم اور پاکستان کو انتشار اور غیر یقینی صورت حال سے دوچار کر دیا تھا۔ ظالم آمر ضیاءنے پاکستان کے آئین کے تقدس کو پامال کر کے چار اور پانچ جولائی 1977ءکی درمیانی رات کو پاکستان کے اقتدار اعلیٰ پر فوجی بغاوت کے زریعے شب خون مار کر قبضہ کیا اور پھر وطن عزیز کو ایک ایسے تاریک غار میں دھکیل دیا جس کے تباہ کن اثرات سے ابھی تک یہ غیر محفوظ چلا آ رہا ہے۔ قائدعوام جناب ذوالفقار علی بھٹو شہید مادرِ وطن کے مایہ ناز سپوت اور بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کے بعد پاکستان کے سب سے زیادہ قابل احترام اور ہر دلعزیز قومی رہنما تھے وہ پاکستان کے سیاسی افق پر ایک تابندہ ستارے کی طرح طلوع ہوئے لیکن ان لوگوں نے اس کو زوال سے ہمکنار کیا جو پاکستان کو جہالت، غربت اور سیاسی عدم استحکام سے دوچار دیکھنا چاہتے تھے اس عظیم ہستی نے اپنی مختصر زندگی میں پاکستان اور پاکستانی عوام کیلئے وہ خدمات اور کارہائے نمایاں سرانجام دیئے جس سے اس کا نام تاریخ پاکستان میں ہمیشہ زندہ و تابندہ رہے گا۔ بے شک اس عظیم انسان کے دل میں پاکستان کو خوشحال اور دنیا کا عظیم ترین ملک بنانے کی تمنا تھی۔
جو چلے تو کوہِ گراں تھے ہم جو رکے تو جاں سے گزر گئے
راہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یاد گار بنا دیا

جناب ذوالفقار علی بھٹو شہید انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ شخصیت تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو غیر معمولی صفات اور دل و دماغ کی اعلیٰ ترین صلاحیتوں سے نوازہ تھا وہ ایک متحرک کرشمہ ساز اور ولولہ انگیز شخصیت تھے انہوں نے امریکہ اور انگلستان کی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ ترین ڈگریاں حاصل کیں اور 25سال کی عمر میں تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد پاکستان واپس لوٹے یہ وہ وقت تھا جب پاکستان سیاسی بحران اور عدم استحکام کی زد میں آچکا تھا ان حالات میں انہوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔ آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ 29 برس کی عمر میں اکتوبر1957ءمیں آپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستانی وفد کی قیادت کی اور اس تاریخی موقعہ پر آپ نے لفظ ”جارحیت“ کی واضح تشریح کی جس سے محکوم اقوام کو ایک نیا حوصلہ اور ولولہ عطا ہوا آپ محکوم اقوام کے حق و صداقت پر مبنی حق خوداردیت کے موقف کے سب سے بڑے سب سے پر جوش اور بے مثل داعی اور چمپئن تھے بلخصوص مسلمان اکثریت کی ریاست جموں و کشمیر کے عوام کے حق خودارادیت کی جس طرح انہوں نے وکالت، نمائندگی اورترجمانی کی اس نے آپ کو کشمیریوں کی آنکھ کا تارہ بنا لیا۔ کشمیریوں کے کاز کی حمایت اور وکالت میں آپ ہمیشہ پرجوش اور ثابت قدم رہے اور ان کے پائے استقلال میں کبھی کوئی لغزش نہیں آئی اور وہ اس موقف کیلئے دلیرانہ اور بے باک کانہ جدوجہد میں آخری سانس تک معروف رہے آپ کے اس تاریخی کردار نے آپ کو اہل کشمیر اور پاکستان کا ہیرو بنا دیا۔ آج تک پاکستان میں کوئی ایسا قومی رہنما پیدا نہیں ہوا جو کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی وکالت میں آپ کا اہم پلہ قرار دیا جاسکے۔ یوں تو جناب ذوالفقار علی بھٹو شہید نے پاکستان کے وقار کو بڑھانے اور اس کی ترقی اور خوشحالی اور استحکام کے لیے جو کارہائے نمایاں سرانجام دیئے لیکن کشمیر اور اہل کشمیر سے آپکو جو محبت اور عقیدت تھی اس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا بہر حال ان کے بدترین مخالفین نے قد آور بننے کی کوشش کر تے رہے لیکن وہ بری طرح ناکام رہے ۔انہوں نے ایک طویل عرصہ سے جناب بھٹو شہید کی شخصیت اور کارناموں کو مسخ کرنے کیلئے زہریلا پروپیگنڈہ شروع کر رکھا ہے اس تاثر کو زائل کرنے اور مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے ان کی شخصیت کو حقیقی تناظر میں پیش کرنے کیلئے چند پہلوﺅں کو نشان دہی کی جا رہی ہے تاکہ لوگوں کو یہ معلوم ہو سکے کہ اس عظیم ہستی کے خلاف کیا جانے والا یہ زہریلا پروپیگنڈہ بددیانتی اور بدنیتی پر مبنی ہے۔ 4اپریل 1979ءکو گزرے آج کئی برس بیت چکے ہیں آج ایک ایسی نسل جوان ہوچکی ہے جو اس وقت پیدا ہوئی تھی مگر عوامی قوت پر ایمان رکھنے والے قافلے کا سالار اعلیٰ آج بھی وہی عظیم قومی ہیرو ہے جس نے وقت کے فرعونوں سے ٹکرلیکر پاکستانی عوام ہی نہیں دنیا بھر کے پسے ہوئے طبقات اور تیسری دنیا کے نیم غلامانہ معاشرے میں آزادی ،خوداعتمادی اور اپنے بل بوتے پر زندہ رہنے کا وہ عزم بخشا کہ آج ہم ہی نہیں دنیا بھر میں اس کے چاہنے والے اسے فخر ایشاء،محسن پاکستان ،قائد عوام جناب ذوالفقارعلی بھٹو کے نام سے یا د کرتے ہیں ۔اولیاءکرام کی دھرتی سندھ سے جنم لینے والا بطلِ حریت ذوالفقارعلی بھٹو آج پاکستانی عوام کی آزادی ،روشن خیالی ،شعور کی بیداری اور فرعونیت کوللکارنے کی آواز بن چکی ہے جناب بھٹو نے اپنی مختصر زندگی میں جو کچھ پاکستان کے محنت کش ہاریوں ،کسانوں ،مزدوروں ،صحافیوں ،دانشوروں ،قانون دانوں ،خواتین اور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی فلاح وبہبود کیلئے جو کچھ کیا پاکستان کے عوام آج بھی اُن کی عظمت کو سلام پیش کرتے ہیں ۔تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ جناب بھٹو شہید ہی تھے جنہوں نے سب سے وطن عزیز کے مزدوروں ،محنت کشوں ،ٹریڈ یونین ،سوشل سیکیورٹی ،بونس ،منافع میںحصہ داری جیسے حقوق لیکر دینے بھٹو شہید نے اللہ تعالیٰ اور عوام سے کیا ہوا وعدہ پورا کردیا تاریخ کے صفحات تویہ بتاتے ہیں اسلامی سربراہی کانفرنس ،مسئلہ احمیدیت کاحل ،متفقہ اسلامی آئین ،زرعی اصلاحات ،دس بڑی صنعتوں کو قومی ،تحویل میں لیا ،اسٹیل ،پٹرولیم ،گندم میں خود کفیل کرنا ،معاشرے مین مسجد کواس کا تاریخی مقام دلانا ،پرائمری درجے تک تعلیم عام کرنا ،نیشنل یوتھ کوفروغ دینا اور پاکستان میں یواین او کے قوانین کے تحت (ilo)کے ضوابط کو لاگو کیا ۔جناب بھٹو نے اس ملک کے کروڑوں مزدوروں ،ہاریوں ،کسانوں ،طالب علموں پیپلزپارٹی کے جیالے کارکنوں کوجو عزت نفس بخشی یہ سب اُن کی عوام اور وطن سے محبت کانتیجہ تھا کہ آج بھی بھٹو ہر پاکستانی اور کشمیری کے دل میں بستا ہے اور ہر کوئی بھٹو شہید کو اپنا قائد سمجھتا ہے تیس سال گزرنے گئے مگر بڑے سے بڑاآمر ،ظالم اس عظیم نعرے کو جیوے بھٹو ہزاروں سال ”جب تک سورج چاند رہے گا بھٹو تیرا نام رہے گا “نہ روک سکا کسی عظیم مفکر دانشور نے درست کہا تھا کہ ”ریت کا بند باندھے سے سیلاب کو روکا نہیں جاسکتا ۔جناب بھٹو کا بدترین دشمن اور منافق بھی آج تک بھٹو پرکسی سرکاری او رذاتی کرپشن اور مفاد کے حصول کا الزام نہیں لگا سکتا یہ بھٹو کی دوراندیش سوچ اور فکر ہی تھی کہ آپ نے بینکوں سمیت بڑی بڑی بنیادی صنعتوں کو نیشنلائز کر دیا ۔تاریخ اور صحافت کے ادنی شاگرد کی حیثیت سے میں جناب بھٹو صاحب کے وہ تاریخی لفظ او ران کی صداقتوں کو اپنے سامنے ہر وقت دیکھتا ہوں جناب بھٹو نے اپنی آخری کتاب ”اگر مجھے قتل کیا گیا “میں لکھتے ہیں کہ (میں تاریخ میں مرنے کی بجائے جرنیلوں کے ہاتھوں ختم ہونا پسند کروں گا ) یہی وہ صداقت ہے کہ جناب بھٹو شہید کی نامور بیٹی محترمہ بینظیر دومرتبہ پاکستانی عوام کی دعاﺅں اور عوام کی قوت پر اسلامی اُمہ کی پہلی خاتون وزیر اعظم منتخب ہوئیں شہید بھٹو نے جیل میں اپنی پیاری بیٹی کو اپنی زندگی میں ہی کہہ دیاتھا جاﺅ بیٹی مجھے اللہ تعالیٰ پر مکمل یقین ہے کہ تم (پنکی )اس وطن عزیز کی وزیراعظم بنوگی شہید بھٹو نے بیٹی سے یہ بھی کہا کہ عوام سے کبھی بھی اپنا رشتہ نہ توڑنا ۔یہی وجہ ہے کہ اُن کا انتخاب او رآج بھی پاکستان پیپلزپارٹی کی مقبولیت دراصل شہید بھٹو کو ہی خراج تحسین ہے ۔ ہم آج اُن عظیم کارکنوں ،کسانوں ،مزدوروں ،ہاریوں ،دانشوروں ،صحافیوں ،قانون دانوں کو بھی یاد کریںجنہوں نے شاہی قلعے کے ازیت ناک عقوبت خانوں میں ضیائی فسطایت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اپنے حوصلے بلند رکھے ہزاروں مردوخواتین نے جبروتشدد کے اس ظالمانہ دور کو دیکھا جہاں چراہوں اورکھیل کے میدانوں میں معصوم لوگوں کو محض اس لیے کوڑے مارے گئے کہ جبر کے خریداروں کے سامنے انہوں نے اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا آفرین ہے جناب بھٹو کے اُن پروانوں ،دیوانوں ،عاشقوں پر جنہوں نے احتجاج میں خود سوزی کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا یہ سب اس لیے ممکن ہوا کہ شہید بھٹو نے پاکستان کے محنت کش طبقے سے جو پیار کیا انہیں بولنے کی آزادی دی اور انہیں ایک تنظیم کی ایک لڑی میں پروڈالایہی سے وہ حوصلہ ملا کہ دنیا کی کوئی طاقت جیالوں کے اتحاد کے سامنے کبھی ٹھہر نہ سکی ریاستی جبر اور مکروسازشیں نہ پہلے کبھی پیپلزپارٹی کا راستہ روک سکیں نہ آئندہ کبھی روک سکیں گے جبر کی قوتیں سازش اور مکروفریب سے وقتی طور پر عوام میں جگہ بنا سکتی ہے مگر رفتہ رفتہ ان کا یہ خود ساختہ طلسم ٹوٹ جاتاہے ۔

عزیز ہم وطنو:۔تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ آمر وقت (جنرل ضیاء) کی قبر پر آج مجھے دعا کرتا کوئی نظر نہیں آتا جبکہ کئی لوگ (شاہ فیصل مسجد )سے نماز پڑھ کر پانچ وقت گزرتے ہیں جب شہید بھٹو کا مزار سندھ کوریگستانوں میں ایسی جگہ پر واقع ہے جہاں بس او رٹرین سے پہنچنا بھی کافی دشوار ہے لیکن پاکستان ،آزادجموں وکشمیر ،شمالی علاقہ جات سمیت گلی گلی قریہ قریہ سے لاکھو ں عقیدت مند (گڑھی خدابخش)میں ہر وقت روحانی سکون کیلئے وہاں حاضری دیتے ہیں ۔ تاریخ فرعون اور یزید کو کبھی یاد نہیں کرتی امام مقام عالیٰ حضرت امام حسین ؓاوران کے عظیم ساتھیوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے جناب بھٹو نے اپنی جان قربان کردی مگر وقت کے یزید کی بیعت قبول کرنے سے انکار کردیا۔

رازداں آج وطن عزیز پاکستان کی سب سے بڑی عوامی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کے یوم شہادت کے موقع پر آزاد جموں وکشمیر اور مقبوضہ جموں وکشمیر کے لاکھوں کروڑوں عوام کی طرف سے یہ عہد اور یقین دلاتا ہے کہ ہم اہلیان کشمیر تیسری دنیا کے عظیم انقلابی لیڈر جناب ذوالفقار علی بھٹو شہید اور عالم اسلام کی پہلی مسلمان خاتون وزیراعظم شہید جمہوریت محترمہ بے نظیر بھٹو کی عالم اسلام کی سربلندی ، پاکستان کی مضبوطی اور جموں وکشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت کےلئے دی جانے والی تاریخی اور لازوال قربانیوں کو سلام عقیدت پیش کرتے ہیں اور اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم بھٹو شہید اوربے نظیربھٹو شہید کے ادھورے مشن کی تکمیل کےلئے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیں گے ۔ رازداں ! آج کے تاریخی دن کے موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کے نظریاتی کارکنوں اور جیالوں کی لازوال جدوجہد اور شہادتوں پر فخر کرتے ہوئے بھٹو شہید اور بی بی شہید کی پاکستان پیپلز پارٹی کےلئے نظریات اور افکار کےلئے ہمیشہ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے رہیں گے۔
ہر حال میں ہم جُراّت اظہار کریں گے
یہ جُرم سرِبزم سرِدار کریں گے

(مضمون نگارجموں کشمیر ہیومن رائٹس کمیشن کے چیئرمین ،پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما ہیں )
Humayun Zaman Mirza
About the Author: Humayun Zaman Mirza Read More Articles by Humayun Zaman Mirza: 10 Articles with 13032 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.