مداری

میں جب کبھی بھی پاکستان میں انتخابات کی چانپ سنتا ہوں، مجھے میرے بچپن کا ایک مداری یاد آجاتا ہے۔ قدرت نے اُسے کیا ملکہ عطا کیا تھا کہ لوگوں کی جیب خالی کرنا تو اُس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ اُس کی ڈگڈی کی آواز سنتے ہی بچے، بوڑھے ،جوان سبھی اُس کی طرف لپک پڑتے تھے اور وہ سُدھائے ہوئے بندر اور بکری کا کھیل دکھا کر نہ صرف اُن سے داد وصول کر تا بلکہ اُنہیں بھی جیب میں ہاتھ ڈالنے پر مجبور کر دیتا جن کے بارے مشہور تھا کہ ان کی جیب سے پیسہ نکالنا شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالنے کے برابر ہے۔ وقت گزرتا گیا اور لوگ اس کے کھیل سے اُکتانے لگے۔ مداری نے لوگوں کی اُکتاہٹ محسوس کی تو وہ کہیں سے موٹا، تگڑا ریچھ پکڑ لایا۔ بڑی تعداد میں لوگ اس کی طرف اُمڈ آئے لیکن پھر جلد ہی ریچھ سے بھی اُکتا گئے ۔ مداری کو ایک ترکیت سوجھی۔ اُس نے کرتب دکھانے کے بعد ایک دوا فروخت کرنا شروع کی۔ اُس کا دعویٰ تھا کہ اس دوا میں بدہضمی، سینے کی جلن، معدے، پیٹ، کمر کی تکلیف، سردرد الغرض دنیا کے ہر مرض کا علاج ہے۔ بس آپ کھانے کے بعد دودھ کے ساتھ اسے استعمال کریں اور چند دن میں اس کا اثر دیکھیں۔ ویسے تو اس کی قیمت بازار میں 15روپے ہے لیکن وہ یہاں کمپنی کی مشہوری کے لیے اس کی قیمت صرف پانچ روپے رکھ رہا ہوں۔ وہ لوگ جنہوں نے آدھے گھنٹے تک اس کا لیکچر سُنا تھا لپک کر دوا خریدتے اور خوشی خوشی گھر پہنچ کر جب اُسے کھولتے تو وہ ”کارمینا“ کی وہی گولیاں ہوتی جو میڈیکل اسٹور سے 2 روپے میں چار ملتی ہیں۔

ایسے واقعات عموماً ہر ایک کے ساتھ ہی پیش آتے ہیں اور کوئی بھی شخص خود کو اس سے مستثنیٰ قررار نہیں دے سکتا۔ تھوڑی دیر کے لیے تصور کریں کہ آپ بس میں سفر کر رہے ہیں۔ بس اسٹاپ پر بس رکتی ہے۔ ایک جواں سال نوجوان بس پہ چڑھتا ہے۔ اُس کی شکل وصورت بھی ٹھیک ہے اور وہ قد کاٹھ بھی کسی سے کم نہیں۔ اچانک وہ بس میں بیٹھے لوگوں کو متوجہ کر تا ہے۔ اُس کی آواز سُن کر تمام مسافر چوکنا ہو جاتے ہیں۔ دل میں ٹھان لیتے ہیں کہ اسے کچھ نہیں دینا۔ پھر اُس کی تقریر شروع ہو تی ہے۔ آہستہ آہستہ تقریر میں جذباتیت آتی ہے۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں اور پھر وہ آپ کو جھولی اُٹھا اُٹھا کر دعائیں دینے لگتا۔ کچھ مسافروں کا دل پگھلنے لگتا ہے۔ وہ اُس کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ دل میں سوچتے ہیں پتا نہیں یہ نوجوان سچ بول رہا ہے یا جھوٹ۔ چلو کچھ نہ کچھ دے دیتے ہیں۔ اللہ تو دیکھ ہی رہا ہے نہ۔ نوجوان پھر پورے بس کا چکر لگاتا۔ کچھ لوگ پہل کر تے ہیں۔ کچھ اُن کی دیکھا دیکھی جیب میں ہاتھ ڈالتے ہیں اور کچھ اس لیے کہ چلو جیب میں ٹوٹے پیسے پڑے ہیں، کیوں نہ اسے ہی دے دیے جائیں۔ یوں اگر بس میں سوار 10فیصد لوگ بھی اُسے خیرات دے دیں تو وہ خوشی خوشی بس سے اُتر کر دوسری بسمیں سوار ہو جاتا ہے۔

اپنی باتوں سے دوسروں کو اس قدر مسحور کر دینا کہ وہ سب کچھ بھول بھال کر اپنا سب کچھ آپ کے ہاتھ میں رکھ دے، یہ وہ فن ہے جو کل تک صرف مداریوں اور نو سر بازوں سے منسوب تھا لیکن آج اس فن نے اس قدر ترقی کر لی ہے کہ کئی مداری اسمبلیوں اور وزارتوں تک جا پہنچے ہیں۔ ان کا فن ابھی لوگوں سے پیسوں کے بجائے ووٹ نکلوانا ہوتا ہے۔ بس ایک مرتبہ ووٹ مل جائے پھر پیسے ہی پیسے ہیں۔ یہ اپنے فن میں اتنے ماہر ہیں کہ پانچ سال تک عوام کو مہنگائی، بدامنی، لاقانونیت، دہشت گردی اور فرقہ واریت کی آگ میں جھونک کر بھی بڑے گھمنڈ سے کہتے ہیں کہ آئندہ بھی عوام اُنہی کوووٹ دیں گے۔ وہ ایسا کہہ سکتے ہیں کیوں کہ یہی تو اُن کا فن ہے۔ الیکشن سے دو ماہ قبل وہ باقاعدہ مہم چلتی ہے۔ پہلے پہل تو لوگ ان کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے۔ انہیں اپنے قریب پاکر غصے سے لال سُرخ ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ اپنی ڈگڈگی بجاتے ہے۔ لوگ چوکنا ہو جاتے ہیں۔ دل میں ٹھان لیتے ہیں کہ اس مرتبہ یہ نہیں جیت پائے گا۔ پھر اُس کی تقریر شروع ہو تی ہے۔ دھیرے دھیرے تقریر میں جذباتیت آتی ہے۔ وہ اپنے بزرگوں کا تذکرہ چھیڑتا ہے۔ 20سال پرانا دور یاد کرتا ہے۔ اپنی تمام ناکامیوں کا ملبہ اُس دور کے حکمرانوں پہ ڈالتا ہے۔ بدحال قوم کو روٹی، کپڑا اور مکان کی نوید سُناتا ہے۔ اپنے مخالفین پر ایسے ایسے وار کر تا ہے کہ لوگ کچھ دیر کے لیے سب کچھ بھول بھال کر اُس کی طرف متوجہ ہو تے ہیں۔ دل میں سوچتے ہیں پتا نہیں کون سچا ہے اور کون جھوٹا۔ حالات تو ہمارے نہ پہلے ٹھیک ہونے تھے، نہ آئندہ کبھی ہوں گے، اور ویسے بھی یہاں اچھے آدمی کو کون پوچھتا ہے۔ اس کو ووٹ دینے کا ایک فائدہ یہ تو ہوگا کہ اگر اقتدار میں آگیا تو کچھ ہمارے علاقے کے حالات سنور جائیںگے۔ گٹر، نالیاں بن جائیںگی اور اس سے کہہ کر اپنا کوئی کام نکلوا لیں گے۔

مداری دو ماہ تک اُن گلی محلوں کے چکر لگا تا ہے جہاں عام دنوں میں جانا وہ اپنی توہین سمجھتا ہے۔ پھر الیکشن کا دن آتا ہے۔ کچھ لوگ پولنگ اسٹیشن کی طرف جاتے ہیں۔کچھ اُن کی دیکھا دیکھی اور کچھ اس لیے کہ چلو ووٹ تو دینا ہے کسی کو تو دے دیں گے۔ شام تک مداری کی مٹھی میں10سے 12فی صد ووٹ آچکے ہوتے ہیں۔ بھلے ہی حلقے کے 88 فیصد لوگوں نے اُس کے خلاف ووٹ دیا ہو لیکن وہ تمام امیدواروں میں سب سے زیادہ ووٹ لے کر جیت جاتا ہے۔ ڈھول بجتا ہے، فائرنگ ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کو پھولوں کے ہار پہنائے جاتے ہیں۔ ایک ہفتے تک یہ کھیل جاری رہتا ہے۔ پھر مجمعہ برخواست ہوتا ہے۔لوگ مداری کے سحر سے باہر آتے ہیں تو ایک بار پھر اُن کی آنکھوں کے سامنے وہی دہشت گردی ، کرپشن ، لوٹ مار کا بازار۔ وہ اخبار پڑھتے ہیں۔ ٹی وی دیکھتے ہیں۔ ہر جگہ وہی مداری اُن کے سامنے نئے نئے کھیل کھیلتے دکھائی دیتے ہیں، اور یوں بھوک ننگ کی ماری قوم ایک بار پھر مزید پانچ سال کے لیے اُن کے سحر میں مبتلا ہو جاتی ہے۔
Muhammad Zubair Niazi
About the Author: Muhammad Zubair Niazi Read More Articles by Muhammad Zubair Niazi: 41 Articles with 45145 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.