پاکستان کی سیاسی تاریخ رہی ہے
کہ جو بھی شخص اقتدار میں آنے کے بعد جب واپس جاتا ہے تو اقتدار کوبہت
محسوس ہوتا ہے کیونکہ جب وہ اقتدار کے ایوانوں سے نکلتا ہے تو اکیلا اکیلا
سا ہو جا تا ہے ظاہری سی بات ہے کہ اگر کچھ عوام اور ملک کے لئے کیا ہو تو
سکون نصیب ہو تا جب اقتدار اپنی آنے والی نسلوں کو محفوظ کرنے اور اپنے
اثاثوں کی مالیت میں اضافے کے لئے استعمال کرنا شروع کر دو تو پھر یہی صورت
حال ہوتی ہے کیونکہ اقتدار تو ااﷲ تعالیٰ کی امانت ہوتا ہے اور ہمارے سیاست
دان تو اسے اپنی گھر کی لونڈی سمجھنے لگتے ہیں جیسے یہ ساری زندگی ان کے
پاس ہی رہے گا تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں اتنی طاقت وار شخصیات آئی کہ
کسی کی ہمت نہیں ہوتی کہ ان کے سامنے اونچی آواز میں بات بھی کر سکے مگر جب
یہ اقتدار ان سے چھن گیا یا چھین لیا گیا تو ان کی وقعت تو ایک عام غریب
آدمی جتنی بھی نہیں رہی جیسا کہ ایوب خان صاحب تھے جنھوں نے محترمہ فاطمہ
جناح کو اپنے نام نہاد منعقد کردہ انتخابات میں دھندلی سے ہرایا تھا محترمہ
کی عزت پر تو کوئی حرف نہ آیا مگر وہی ایوب خان جب ایوان اقتدار سے رخصت
ہواتو ایسے ایسے القاب کے ساتھ کہ جن کو یہاں بیان کرنا شاید کچھ اچھا نہیں
لگے کیونکہ مرے ہوئے انسان کی برائی کرنا بھی گناہ ہے اس کے بعد جناب ضیاء
الحق صاحب نے اقتدار کی طوالت کی خاطر ایک ایسے شخص کو پھانسی دے دی جس کی
موت ان کی اقتدار میں خلل ڈال سکتی تھی غرضیکہ جس جس کو بھی اقتدار ملا وہ
اسے اﷲ تعالیٰ کی مانت کے بجائے اپنے لیے مخصوص سمجھنے لگاکیونکہ اقتدار کا
نشہ بھی ہیروین کے نشے کے جیسے ہوتا ہے جب ایک بار منہ کو لگ جائے تو
چھوٹنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے اور اگر زور زبردستی سے چھوڑوایا جائے تو موت
بھی ہو سکتی ہے اس کی بھی کئی مثالیں موجود ہیں پاکستان کے نامور حکمران جن
میں ایوب خان، یحییٰ خان ،جنرل مشرف اور کئی ایسے لوگ ان کی مثالیں ہیں ان
کے پاس جب اقتدار تھا تو بس ان کی ہی چلتی تھی مگر آج ایسی بے بسی کی تصویر
بنے ہوئے ہیں کہ کلیجا منہ کو آتا ہے کہ جس شخص نے پاکستان پر دس سال حکومت
کی جب وہ اپنی خود ساختہ جلا وطنی ختم کر کے واپس آ راہا ہے تو چند لوگوں
کے سواء کوئی بھی اس کا استقبال نہیں کر رہا وہ لوگ جو اس وقت انھیں پچاس
بار باوردی صدر منتخب کروانے کی بات کرتے تھے آج ایسے لاتعلق ہو گئے ہیں کہ
جیسے جانتے ہی نہ ہوں کیونکہ یہ سیاست ہے یہاں چڑھتے سورج کی پوجا کی جاتی
ہے اورجانے والے کو دیکھا بھی نہیں جاتا اس سلسلے میں صوبہ بلوچستان کے
سابق وزیر اعلیٰ نواب محمد اسلم خان رئیسانی نے کہا ہے کہ ’پاکستان کی
سیاست سے نسوار فروشی بہتر ہے یہ بات انھوں نے نگران وزیر اعلیٰ نواب غوث
بخش باروزئی کی تقریب حلف برداری کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا
تقریب حلف برداری کے بعد بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی
شرکاء اور میڈیا کے توجہ کا مر کز بنے رہے موصوف اپنے طنزیہ اور مزاحیہ
جملوں کی وجہ سے ہمیشہ پرنٹ و الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر موضوع بحث بنتے
رہے ہیں نواب اسلم رئیسانی کا ’ڈگری ڈگری ہوتی ہے‘ والا جملہ بہت مشہور ہوا
تھانواب صاحب کے مطابق وہ کچھ عرصہ قبل سعودی عرب میں مدینہ سے مکہ مکرمہ
جارہے تھے کہ ایک جگہ پر دو افراد نے ان کی گاڑی کا شیشہ کھٹکھٹایا اور جب
انہوں نے شیشہ کھولا تو دونوں افراد نے انہیں کہا کہ ’ڈگری ڈگری ہوتی ہے
اصلی ہو یا جعلی‘انہوں نے دونوں افراد کو بتایا کہ میں نے ڈگری کے حوالے سے
کچھ اور بھی کہا ہے’ان کے استفسار پر میں نے انہیں بتایا کہ ’گری ڈگری ہوتی
ہے خواہ وہ یونیورسٹی کی ہو یا تھرمامیٹر کی اپنے سابق اتحادیوں بالخصوص
وزراء سے گلہ کرتے ہوئے کہا ’جو وزراء ان سے ناراض ہوگئے وہ کہتے رہے بیرون
ملک سے واپسی پر میں نے انہیں فون نہیں کیا حالانکہ وہ پہلے فون کے بغیر
آتے رہے ہم اکٹھے پکوڑے کھاتے رہے لیکن آخر میں وہ ناراض ہوگئے نواب صاحب
بہت سیدھے آدمی ہیں انھیں شاید اس بات کا اندازہ نہیں یہ پاکستان ہے اور
یہاں چڑھتے سورج کی پوجا کی جاتی ہے اور خاص طور پر سیاسی لوگ جو سیاست کے
بل بوتے پر اقتدار میں آتے ہیں جب یہاں سے فارغ ہوتے ہیں توبقول نواب اسلم
رئیسانی کے ’پاکستان کی سیاست سے نسوار فروشی بہتر ہے‘ جب نواب صاحب بھی
اقتدار میں تے تو ان سے کہا گیا کہ آپ کے صوبے میں لوگ مر رے ہیں آپ کی
حکومت کہاں ہے تو جناب کا کہنا تھا کہ مرتا وہی ہے جس کی موت آئی ہوتی ہے
اور میں کسی کی موت کو روک نہیں سکتاجس کی وجہ سے صوبہ بلوچستان کے عوام
میں سخت تشویش پائی جاتی تھی ان کی ’پاکستان کی سیاست سے نسوار فروشی بہتر
ہے‘ ولی بات ایسی ہے جو نواب صاحب کی طرف سے جتنے بھی سیاسی لیڈر ہیں ان کے
لئے خفیہ پیغام ہے اور ایک ایسا پیغام جس میں ان لوگوں کے لئے بہت بڑا سبق
چھپا ہوا ہے -
اگر یہی لوگ اقتدار میں عوام کی خدمت کریں اور اسے اﷲ تعالیٰ کی مانت
سمجھتے ہوئے لوگوں کی خدمت کے لئے استعمال کریں تو یقینا جب یہ اقتدار سے
فارغ ہوتے ہیں تو نسوار فروش نہیں بلکہ عوام کے ہر دل عزیز لوگ کہلائیں مگر
افسوس صد افسوس کے اقتدار کے نشے میں یہ لوگ عوام کو اور ملک کو بھول جاتے
ہیں جن کی بدولت یہ حکمران بنے تھے تو پھر ایسے لوگوں کے ساتھ یہ سب ہونا
ہی تھا اس لئے جروت اس امر کی ہے کہ ہمارے سیاستدان اقتدار کو اﷲ کی امانت
سمجھتے ہوئے اسے عوام اور ملک کی خدمت کے لئے وقف کر دیں تاکہ کل کلاں کو
نسوار فروش نہیں بلکہ عوامی لیڈر کہلا سکیں - |