اسلامی دنیا کے لئے ایک بہت بڑی
خوشخبری یہ ہے کہ ترکی کی حکومت اور کرد باغی تنظیم پی کے کے کے درمیان تین
دہائیوں پر مشتمل لڑائی کے خاتمہ ہوگیا اور امن معاہدہ اتفاق رائے سےطے پا
گیا۔ ترکی وزیراعظم رجب طیب اردوان اور جیل میں مقید کرد تنظیم کے رہنما
عبداللہ اوجلان کے درمیان مذاکرات نتیجہ خیز رہے اور کردستان ورکرز پارٹی
نے ہتھیار ڈال دئیے۔اس طرح ۳۰سال سے جاری بغاوت کا اخاتکم کع پہنچی جس میں
ایک محتاط اندازےکے مطابق اب تک ۴۵ ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ماہرین کا
خیال ہے کہ ترکی میں ۲۵۰۰ پی کے کے باغی موجود ہیں اور بقیہ ہمسایہ شمالی
عراق میں مقیم ہیں ۔ عبداللہ اوجلان جنوبی استنبول ایک جزیرے عمرعلی کی جیل
میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں ۔ یہ اقدام ایک پیکیج کا حصہ ہےجس کے تحت
تعلیم اور انتظامیہ کے شعبوں میں کردوں کے حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں
آئینی درجہ دیاجائے گا۔
ترکی وزیر اعظم رجب طیب اروان کو یہ کامیابی طلائی طشتری میں رکھ کر نہیں
مل گئی بلکہ گزشتہ چار سالوں میں اسے حاصل کرنے کیلئے انہیں مختلف سیاسی و
فوجی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ایک طرف ترکی میں کردوں کی سب سے بڑی سیاسی
جماعت بی ڈی پی تھی جس کے ایک رکنِ پارلیمان ارتغرال کرککو نے وزیرِ اعظم
کی قیامِ امن کی کوشش کا خیر مقدم بھی کیا اور ان پر زبردست عدم اعتماد کا
الزام بھی لگا دیاتھا ۔ ارتغل نے اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا
تھا کہ کیا وہ جو کچھ کہتے ہیں اس پر قائم رہیں گے؟ ان کے مطابق ’’طیب
اردوان کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتے ہیں ۔ وہ حکومت میں سب سے زیادہ نا
قابلِ اعتبار فرد ہیں ۔ اس وقت مملکتِ ترکی میں ان سے زیادہ ناقابلِ اعتبار
شخص اور کوئی نہیں ہے۔’’ اس کے علاوہ دائیں بازو کی ترکی نیشنلسٹ موومنٹ
پارٹی دی ایم ایچ پی کے پارلیمانی لیڈر نے ہندوستان کی بی جے پی کی طرح امن
کی مذاکرات کی مذمتّ کرتے ہوئے وزیرِ اعظم رجب طیب اردوان پر الزام لگایا
تھا کہ انویں نے دہشت گردی کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے ہیں۔ لیکن ان نشیب و
فراز سے اردوان کے پائے استقلال میں لرزش نہیں آئی اور ایک وقت آیا جب
امن مذاکرات پر ایم ایچ پی اور ایک انتہائی دائیں بازو کی پارٹی کو چھوڑ
کر، دنیائے سیاست کی تمام جماعتیں متفق ہو گئیں اور نا کہنے والے یعنی جنگ
کی نام نہاد لابی، مختصرسے مختصر ہوتی چلی گئی۔
سیاست سے زیادہ سنگین مسئلہ آئے دن دونوں جانب سے ہونے والی فوجی جھڑپوں
کا سلسلہ تھا جس سے یہ عمل پٹری سے اتر جاتا تھا ۔ اس درمیان کرد باغیوں کی
جانب سے ترک سیکیورٹی فورسز پر ایک حملہ ہوا جس سے اس پیش رفت کوشدید دھچکا
پہنچا ۔ جنوب مشرقی شہر حکاری میں عراق کی سرحد کے ساتھ ایک جھڑپ میں ایک
فوجی اور ۱۴ باغی ہلاک ہوگئے۔ اس کے بعد خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ ہاکش باغی
امن إزاکرات کو سبوتاژ کرنے کیلےن مزید حملے کر یں گے مگراردوان نے کمال
ضبط و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان حملو ں کے حوالے سے بس اتنا کہا تھا کہ
دہشت گرد اپنی پوری کوشش کرتے ہیں کہ کسی بھی طریقے سے امن عمل کی جانب پیش
رفت کو روک دیا جائے۔ اس کے بعد عراق سرحد کے نزدیک ترک فوج کے فضائی حملے
میں پینتیس افراد کی ہلاکت نے بعد کرد علاقوں میں بغاوت کے شعلوں کو بھڑکا
دیا۔ اس حملے کے بعد پی کے کے کے مسلح ونگ سے تعلق رکھنے والے ایک عہدے دار
بہوز ایردال نے جمعہ کو ایک بیان میں کہا ہے کہ ‘‘ہم کردستان کے عوام پر
زوردیتے ہیں کہ وہ اس قتل عام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور عوامی بغاوت کے
ذریعے اپنے مسئلہ کو حل کرانے کی کوشش کریں’’۔
اس نازک صورتحال کے جواب میں کسی اشتعال کا شکار ہوئے بغیر حکمراں جماعت
انصاف اور ترقی پارٹی کے نائب صدرحسین چیلک نے حملے کو ایک بڑی غلطی
قراردیا اور تسلیم کرلیا کہ اس کے نتیجے میں کرد باغیوں کے بجائے عام شہری
مارے گئے ہیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ مارے جانے والے لوگ اسمگلر تھے اور
دہشت گرد نہیں تھے۔فوج سے یہ ایک آپریشنل حادثہ ہوا ہے اور یہ غلطی
نہیں،بلکہ بہت بڑی غلطی تھی۔ حالانکہ ترک فوج نے کہاتھا کہ اس نے ایک بغیر
پائیلٹ جاسوس طیارے کی جانب سے اطلاع ملنے کے بعد پی کے کے کے جنگجوؤں پر
فضائی حملہ کیا تھا ۔فوج نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ جہاں یہ واقعہ رونما
ہوا،یہ شمالی عراق میں صنات حافتنین کا علاقہ ہے اور وہاں کوئی شہری آبادی
نہیں بلکہ دہشت گرد تنظیم کے ٹھکانے ہیں لیکن حکومت اپنی ہی فوج کے اس موقف
کو ٹھکرا دیا۔
ترک وزیر اعظم رجب طیب ایردوان نے ۲۰۰۹ میں پی کے کے کی جانب امن کا ہاتھ
بڑھایا ۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ۲۰۱۰ کے اندر عراقی کردوں کا ایک امن وفد
انقرہ آیا اورترک حکومت کے ساتھ علاحد گی پسندوں سے مفاہمتی کوششوں کاحصہ
بنا۔ امن مذاکرات کیلئےعراق میں مقیم ۳۴ ترک کرد باغیوں کایہ وفد استنبول
بھی گیا ۔ یہ امن مشن ‘‘کردستان لیبرپارٹی’’ کے ۸ سرگرم ارکان کے علاوہ ۲۲
دیگر تنظیموں کے ہم خیال افراد پر مشتلا تھا۔ امن وفد نے فریقین میں مصالحت
کے لئے آزادانہ طور پر رابطے کئے۔ فریقین کو قریب لانے کے لیے کی جانے
والی یہ کوششیں آٹھ ماہ تک جاری رہیں لیکن پھر سیاست اس پر غالب آگئی اور
ترکی میں بعض سیاسی جماعتوں نے الزام عائد کیا کہ امن مشن کےشرکاء نے
باغیوں سےتعلقات قائم کر لیےہیں۔ ان الزامات کے تحت وفد میں شامل ۱۰ افراد
کو گرفتار کرلیا گیاجس کے نتیجے اس کوشش نے دم توڑ دیا ۔
امن مشن کے ترجمان نے واپس ہونے کے بعد اپنے بیان میں کہاکہ ’’کردوں نے
تعاون کا ہاتھ بڑھایا لیکن اس کے بدلے ہم سے تعاون نہیں کیا گیا‘‘۔ اس
ناکامی کے جواب میں کسی مایوسی کا شکار ہوئے بغیر ترک وزیرانصاف سعداللہ
ارجن نے کہا تھا ’’ ترک امن مشن کی عراق واپسی سے متعلق ان کے پاس ٹھوس
معلومات نہیں ہے تاہم ہمیں اُمید ہے کہ امن وفد ترکی میں رہ کر قیام امن کی
کوششوں میں حکومت کی مدد جاری رکھے گا‘‘۔اس طرح پے درپے ناکامیوں کے باوجود
اسلام نواز حکمراں جماعت بددل نہیں ہوئی بلکہ اس نے اپنی سعی مسلسل کو جاری
رکھتے ہوئے کرد رہنما عبداللہ اوجلان سے جیل کے اندررابطے استوار کرکے
بالآخر انہیں مفاہمت پر آمادہ کر ہی لیا اور علامہ اقبال کے اس شعر کی
زندہ تفسیر بن گئے ؎
یقیں محکم ، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
محبت کی اس شمشیرسےدشمنوں کا سرنگوں نہیں کیا جاتا بلکہ دوستوں کا دل جیتا
جاتا ہے ۔ اس فتح کا اعلان خود مفتوح بڑے فخر کے ساتھ کرتا ہے جیسا کہ کر
درہنماعبداللہ اوجلان نے اپنے پیغام میں کیا جسے ترک ٹیلی ویژن چینل پر
براہِ راست نشر کیا گیا۔ یہ بات بذاتِ خود قابلِ ذکر ہے کیوں کہ ترکی میں
پی کے کے کے کسی بھی نشان کو دکھائے جانے پر پابندی ہے۔ اوجلان نے اپنے
پیغام میں کہا، ’’ہم اس موڑ پر پہنچ چکے ہیں جہاں ہتھیاروں کو خاموش ہونا
اور خیالات و سیاست کو بولنا چاہیے۔ہم نے عشروں تک قربانیاں دی ہیں اور ان
کی بھاری قیمت بھی ادا کی ہے۔ یہ قربانیاں اور یہ جدوجہد رائیگاں نہیں گئی،
کردوں نے خودشناسی، تہذیبی تشخص اور شناخت حاصل کی ہے۔‘‘ انوقں نے فرمایا
’’ہماری جدوجہد کا نیا مرحلہ شروع ہو رہا ہے۔ اب ایک ایسےدور کا دروازہ کھل
رہا ہے جہاں ہم مسلح مزاحمت سے سیاسی جدوجہد کی طرف بڑھ رہے ہیں۔اب وقت
آگیاہے کہ ہمارے مسلح دستے سرحد پار کر لیں (اور شمالی عراق چلے جائیں)۔
انوھں نے ترک حکومت سے بھی کہا ہے کہ وہ کردباغیوں کو علاقہ چھوڑنے کے
محفوظ راستہ دے۔
دیاربکر شہر میں لاکھوں لوگ اوجلان کا پیغام سننے کے لیے موجود تھے۔ یہ
پیغام پی کے کے اور ترکی حکومت کے درمیان مہینوں کے مذاکرات کا ثمر تھا۔
کرد نواز ارکان پارلیمان نے کالعدم کردستان ورکرز پارٹی ( پی کے کے) کے
لیڈرعبداللہ اوجلان کا ترک حکومت کے ساتھ جنگ بندی کا اعلان ترک اور کردی
زبانوں میں پڑھ کر سنایا ۔ اوجلان نے کردوں کے نئے سال نوروز کے آغاز پر
اپنے پیغام میں مزید کہا کہ یہ جدوجہد سے دست برداری نہیں ہے، بلکہ ایک
مختلف قسم کی جدوجہد کا آغاز ہے۔ ایک نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے جس میں
سیاست ہوگی ،بندوق نہیں اوجلان کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کے بعد ترک
حکومت وسیع تر آئینی اصلاحات کرنے جارہی ہے تاکہ ڈیڑھ کروڑ کردوں کی زبان و
تہذیب کے علاوہ دوسرے حقوق کو تسلیم کر لیا جائے ۔
جیل میں بند کرد لیڈر نے اس بیان سے ایک ہفتے قبل ایک خط میں اس کا عندیہ
دیتے ہوئے لکھا تھا ''میں بندوقوں کے ایشو کو عجلت میں حل کرنا چاہتا ہوں
تاکہ کوئی اور جان ضائع نہ ہو۔انواں نے ترک پارلیمان پر بھی زوردیا تھا کہ
وہ امن عمل کو مستقل بنانے کے لیے اپنے حصے کا کردار ادا کرے اور آئندہ
مہینوں میں ہزاروں کرد باغیوں کے ہتھیار ڈالنے اور ترکی سے ان کے انخلاء کے
لیے ضروری اقدامات کرے۔چونسٹھ سالہ عبداللہ اوجلان کردوں میں ''آپو'' یا
چچا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے عوام کی بھلائی کے
لیے امن چاہتے ہیں۔انوعں نے گذشتہ ماہ کردنواز ارکان پارلیمان سے ملاقات
میں کہا تھا کہ ''اگر یہ امن عمل ناکام ہوجاتا ہے تو ’’ آپو‘‘ مرجائے
گا،میں ختم ہوجاؤں گا''۔ پی کے کے کے فوجی سربراہ مراد قرائلان نے عبداللہ
اوجلان کے اس اقدام کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے اعلان کیا کہ’’ ترک، کرد اور
دنیا اس بات کو سمجھے کہ ہم جنگ اور امن دونوں کے نے تیار ہیں‘‘۔
ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردوان نے اسے ایک مثبت قدم قرار دیتے ہوئے جنگ
بندی کے نفاذ کی اہمیت پر زور دیا اور یقنا دلایا کہ اگر عبداللہ اوجلان کے
مطالبے پر عمل ہوا تو ترک فوج کرد باغیوں کے خلاف نئی کارروائیاں نہیں کرے
گی۔ ترک وزیراعظم رجب طیب ایردوان نے بذات خود کرد باغیوں سے امن مذاکرات
میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ امن عمل کی قیمت پر اگر
انھیں اپنا سیاسی مستقبل بھی داؤ پر لگانا پڑا تو وہ اس سے گریز نہیں کریں
گے۔واضح رہے کہ ان کی حکومت پر عبداللہ اوجلان جنہیں ترک ’’دہشت گرد چیف‘‘
اور ’’بی بی قاتل‘‘ قرار دیتے رہے ہیں کو رعایتیں دینے کے الزامات عائد کیے
جاتےرہے ہیں لیکن گزشتہ ماہ فروری میں جبکہ امن کی جدوجہد شباب پر تھی ترک
روزنامے حریت کے ایڈیٹرانچیف مراد یتکین نے لکھا تھا کہ ـ’’ جس طرح ابراہام
لنکن کا نام امریکی تاریخ میں غلامی کے خاتمے میں تاریخی حیثیت رکھتا ہے
بالکل اسی طرح ترکی کے دیرینہ کرد مسئلے کے حل سے تاریخ میں ایردوان کا نام
ہمیشہ کے لیے امر ہوجائے گا‘‘۔
ترکی کے اندر جس طرح کردوں کا مسئلہ ہے اسی طرح کے مسائل دنیا کے مختلف
ملکوں کے اندرہیں مثلاً ہندوستان میں کشمیر ، چین میں تبت ،برطانیہ میں آ
ئرلینڈ اور روس میں شیشان۔ اگرچہ ان ممالک کے رہنما ان تنازعات سے چھٹکارہ
حاصل کرنا چاہتے ہوں تو ان کیلئے ترکی نے عملی اور قابلِ تقلید نمونہ پیش
کیا ہے لیکن اس پر عملدرآمد سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ اس طرح کے مسائل
پیدا کیوں ہوتے ہیں ؟ ان کو کس طرح بگاڑا جاتا ہے؟ اس کے بعد ہی اصلاح کا
عمل سمجھ میں آسکتا ہے ۔ خلافت عثمانیہ کے زمانے میں مختلف تہذیب و تمدن
کے ماننے والےبھانت بھانت کی زبانوں کے بولنے والے لوگ ایک عظیم چھتری کے
نیچے مل جل کر امن و آشتی کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے لیکن اسلامی خلافت
کاخاتمہ ہوجانے کے بعد ترکی حکمرانوں نے سیکولر قومی نظریہ کی بنیاد پر
اپنے ملک کی تعمیر شروع کی اور اپنے ہمسایہ کردوں کو بھی اپنے ساتھ نہ رکھ
سکے بلکہ انہیں بغاوت پر مجبور کردیا۔ایسا کیوں ہوا؟ یہ سوال سب سے اہم ہے
۔
خدا کا عقیدہ اس کے سارے بندوں کو ایک لڑی میں پرو دیتا ہے اورسارے انسان
ایک خوبصورت ہار کی شکل میں ایک دوسرے سے جڑ جاتے ہیں۔ لیکن سیکولرزم یا
لادینیت عالمِ انسانیت کواپنی اجتماعی زندگی میں سے خدا کے تصورسے محروم
کردیتی ہے ۔ اس طرح یہ دانے ازخود بکھرنے لگتے ہیں۔ لیکن کسی بھی ملک کی
تعمیر وترقی کیلئے وہاں بسنے والے لوگوں کا ایک دوسرے کے ساتھ اشتراک عمل
ضروری ہے اس لئے انہیں جوڑنے کیلئے قومیت یعنی نیشنلزم کا ایک مصنوعی فلسفہ
گھڑا جاتا ہے جو بہت سے لوگوں کو جوڑ تو دیتا ہے لیکن بہت سوں کو توڑ بھی
دیتا ہے ۔ قومیت کا فلسفہ اپنی سرزمین پر کسی اور تہذیب و زبان کے وجود کا
روادار نہیں ہوتا۔ وہ اسے اپنے لئے خطرہ محسوس کرتا ہے اور نہ صرف اس کے
وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کردیتا ہے بلکہ اسے مٹانے کی بھرپور جدوجہد
کرتا ہے ۔ یہی ترکی میں کردوں کے ساتھ ہوا اوریہی دنیا بھر کے قومی تنازعات
کی جڑ ہے ۔
ظلم کے خلاف ردعمل کا اظہار فطرتِ انسانی کے عین مطابق ہے ۔ جب کسی تہذیبی
اکائی کو تعذیب کا شکار کیا جاتا ہے تو مظلوم اول تو گھبرا جاتے ہیں جسے
قوم پرست اپنی کامیابی سمجھ لیتے ہیں لیکن پھرجب خوف و ہراس کے بادل چھٹنے
لگتے ہیں تو وہ صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں جسے بغاوت کا نام دے کر بزور
کچلا جاتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مظلوم ہتھیار اٹھانے پر مجبور
ہوجاتا ہے اور مسلح کشمکش کا آغاز ہوجاتا ہے۔ قومی نظریات کے حامل اسے
دہشت گردی قراردے کر اپنے مظالم کو حق بجانب ٹھہرا نے لگتے ہیں اور ظلم و
زیادتی میں روز افزوں اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں ۔ اس مرحلے میں سیاسی مفادات
اور قومی منافرت بھی اپنا رنگ دکھاتی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعہ مظلومین کو
ظالم بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہی سب ترکی میں سیکولر جمہوری قومی نظریات
کے حامل مصطفی کمال اتاترک کے وارثوں نے کیا جنہیں مغرب کی مکمل حمایت حاصل
تھی ۔
اس کے بالمقابل کرد ستان کے مظلوم عوام اشتراکیوں کے ہتھے چڑھ گئے ۔ روس نے
انہیں اپنے مفاد کے حصول کی خاطراسلحہ فراہم کرنا شروع کردیا۔ اشتراکیت کی
بنیاد ہی جدلیاتی کشمکش یا عمل اور ردعمل کے نظریے پر ہے اس کے مطابق
انسانی ا رتااء کیلئے یہ طبقاتی کشمکش لازم ہے ۔ اس فلسفہ میں بورژوا اور
پرولتاری طبقات کےلوگ ایک دوسرے کے ازلی دشمن ہیں اور ان کے درمیان مفاہمت
کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ اس لئے یہ نہ کسی مفاہمت کی توقع کرتے ہیں اور اس
کی کوشش کرتے ہیں ۔ ان کے نزدیک خون خرابے کا کوئی متبادل نہیں ہے ۔
عبداللہ اوجلان اور ان کی جماعت کے ساتھ یہی ہوا۔ وہ غالی اشتراکی بن کر
ابھرے اور اس طرح دو انتہا پسند نظریات ایک دوسرے سے بر سرپیکار ہو گئے۔
چین اور روس کی اشتراکی حکومتیں اپنے مخالفین کو بورژوا طبقے کا آلۂ کار
قرار دے کر ان کے ساتھ وہی سلوک کرتی ہیں جو ہندوستان اور برطانیہ کی
حکومتیں اپنے نام نہاد باغیوں کے ساتھ روا رکھتی ہیں اور یہ تنازعات حل
ہونے کا نام نہیں لیتے ۔
ان دونوں نظریات کے برعکس اسلام کا عقیدہ ہے جو تہذیبوں کے درمیان فرق کو
تسلیم کرتا ہے اور اشتراکِ عمل کی دعوت دیتا ہے ۔ اسی لئے ترکی میں جب تک
اقتدرکی باگ ڈور سیکولر قوم پرستوں کے ہاتھوں میں تھی معاملہ بگڑتا چلا گیا
لیکن جب اسلام پسند برسرِ اقتدار آئے تو حالات بدلنے لگے ۔ اخلاص وایثار
کے ساتھ امن مذاکرات کا آغاز ہوا ۔ آپس میں جو شکوک و شبہات کی فضا کو
ختم کیا گیا ۔ درمیان میں پیدا ہونے والے مشکلات کو صبرو تحمل کے ساتھ
نبٹایا گیا ۔ سیاسی مفادات کے بجائے عدل وانصاف کو بنیاد بنایا گیا تو اللہ
کی مدد و نصرت شامل ہوئی اور پھر ایک بار کرد اور ترکی آپس میں شیرو شکر
ہوگئے ۔ دونوں نے اللہ کی رسی کو مل جل کر تھام لیا تو آپس میں بھائی
بھائی ہوگئے۔ وہ آگ کے ایک گھڑے کے کنارے کھڑے تھے مگر اللہ نے انہیں اس
سے بچا لیا ۔ کرد ترکی مصالحت کا سبق یہی ہے کہ عالم انسانیت جب تک باطل
نظریات کی تفریق و تذلیل کے چنگل سے نکل کر اسلام کے دامنِ رحمت میں نہیں
آجاتی اس وقت تک اس طرح کے مسائل کے پائیدار حل سے ہمکنار نہیں ہو سکتی۔
بقول اقبال ؎
جو کرے گا امتیاز رنگ و خوں مٹ جائے گا
ترکِ خرگاہی ہو یا اعرابیٔ والا گہر |