ڈاکٹروں کی بے حسی سے عوام کی لاچارگی تک

قارئین کرام!

پاکستانی عوام بے شمار مسائل کا شکار ہے اور ابھی تک کسی نے بھی انکے حل کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی ہے۔دیگر اہم معاملات کی طرح صحت کا شعبہ بھی خاص طورپر تباہی کی جانب گامزن ہے خاص طور پر سرکاری ہسپتالوں میں بہت بدنظمی دیکھنے کو ملتی ہے مگر کوئی پرسان حال نہیں ہے اسی وجہ سے سوچا ہے کہ صحت کے معاملات پر بھی کچھ بات کر لیتے ہیں کہ صحت پر ہمارا خرچ GNPکا صرف 0.84فیصد اور GDPکا 2.6فیصد ہے۔یہی وجہ ہے کہ لوگ صحت محروم ہیں اور مر رہے ہیں ۔دوسری طرف دیکھا جائے تو ہم سے الگ ہونے ووالے بنگلہ دیش کا health budgetہم سے زیادہ ہے یعنی 4.3،نیپال کا 6،بھوٹا ن کا5.5،سری لنکا کا 4،مالدیپ کا 5.6،گھانا کا 10.6اور اتھوپیا وحبشہ کا 3.6ہے۔ورلڈ بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک سال کے بچوں کی شرح اموات82فی ہزار ہے۔ جبکہ یہ شرح سری لنکا میں 16فی ہزار،چین میں30فی ہزاراور ر ملائیشیا میں صرف8فی ہزار ہے۔

ہمارے ہاںسرکاری ہسپتالوں میں جس طرح کا رویہ ہمارے قابل ڈاکٹر حضرات مریضوں کے ساتھ رکھتے ہیں اس کی ایک چشم کشا روداد پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ شاید کسی ایسے رحم دل خدا ترس محکمہ صحت کے فرد سے گذر جائے جس سے حالات میں بہتری ہوسکے۔ ہمارے سرکاری ہسپتالوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے جہاں آئے دن ڈاکٹروں کی غفلت کی وجہ سے مریض اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا عملے کے مناسب رویہ نہ ہونے کی وجہ سے لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہوئی فیملی ہسپتال کی مثال دونگا کہ وہاں پر اکثر وبیشتر ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں جو بعض اوقات اخبارات کی زینت بھی بنتے ہیں مگر پھر بھی حال میں تبدیلی نمایاں دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔ جبکہ ڈاکٹر حضرات بھی بعض اوقات اپنے فرائض درست طور پر سرانجام نہیں دیتے ہیں جس کی وجہ سے بہت سے مسائل مریض کے لئے پیدا ہو جاتے ہیں ۔دوسری طرف وہ اپنے حقوق کے لئے بھوک ہڑتال وغیرہ تو کرتے ہیں مگر بدلے میں عوام کو کچھ نہیں ملتا ہے اگر ایسی بات نہ ہوتی تو غربت وبے روزگاری کا شکار عوام قرض لے کر اپنے خاندان والوں کا علاج معالجے پر مجبور نہ ہوتی؟

خدا کی قدرت دیکھئے PIMSمیں کچھ عرصہ قبل بھی مجھے مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا مگر ایک بار پھر میں اسی ہسپتال میں 20مارچ کو ایک معمولی سے آپریشن کے لئے پمزکے یورولوجی وارڈ میں داخل ہوا ، اور وہاں بیڈ کا حصول بھی کسی کے کہنے پر ہوا تھا اور اس کے لئے بھی ایک طویل عرصہ انتظار کرنا پڑا تھا کہ پانچ ماہ تک بیڈ خالی نہ تھا۔بہرحال داخلے کے بعد مختلف ضروری ٹیسٹ وغیر ہ آپریشن سے قبل جانچ پڑتال کے لئے کئے گئے کہ جسمانی صحت کس حد تک اس آپریشن کے قابل ہے۔تمام تر ضروری ٹیسٹوں کی رپورٹ کے مل جانے کے بعد مجھے آپریشن کے لئے کلیرنس دی گئی اور آپریشن تھیٹرجا پہنچے ابھی Anaesthesiaکا مرحلہ شروع ہوا چاہتا ہی تھا کہ مجھے وہاں سے اس بنا پر واپس وارڈ میں بھیج دیا گیا کہ میری جسمانی صحت اس آپریشن کی محتمل نہیں تھی اوراگلے روزیعنی03مارچ کو مجھے ڈسچارچ کر دیا گیا کہ میرا وہاں مزید رہنا فائدہ مند نہیں تھا، یقینا یہ عمل بہت اچھا تھامگر افسوس اورغور طلب بات یہ تھی کہ جس رپورٹ کی تفصیلات کی بنا پر مجھے آپریشن سے روکا گیا تھا وہ 20مارچ کو بھی تقریباََ انہی معلومات پر مبنی تھی تو مجھے پہلے ہی یہ بات آگاہ کر دی جاتی تو میرا وہاں قیام کا دورانیہ کم ہو سکتا تھا اور جس ذہنی اذیت سے گذرا وہ بھی نہ ملتی،مگر جناب ڈاکٹروں کی بے حسی و لاپروائی نے صحت یابی کے طلب گار شخص کو مزید پریشان کر ڈالا ہے ، کہ زندگی کے اتنے دن دوسروں کی کوتاہی کے سبب ضائع ہو گئے اور وہاں قیام پزیر رہنے پر جو اخراجات آئے وہ الگ ہیں۔ مجھ جیسے کئی لوگ ان ہسپتالوں سے علاج کرواتے ہیں جہاں بہترین سہولیات بھی فراہم کی جاتی ہیں مگروہاں بھی بلاوجہ ٹیسٹ کروائے جاتے ہیں ،جو ہسپتال سے بآسانی ہو سکتے ہیں وہ بھی نجی لیب سے کروانے کی خواہش کا اظہار کیا جاتا ہے؟میری محکمہ صحت کے اعلی افسران سے گذارش ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں لیب کی شفٹس کو رات گئے تک کھلا رکھا جائے اور وہاں عملے کی تعداد میں بھی اضافہ کیا جائے تاکہ وہاں داخل مریض کو جلد ازجلد رپورٹس مل سکیں اور محض رپورٹ کی تاخیر مریض کے علاج معالجے میں تاخیر کا سبب نہ بنے،داخلے کے عرصہ میں میرے مشاہدے میں یہ بات بھی آئی کہ اس وارڈ میں جہاں میں داخلہ تھا وہاں ادویات فروش سٹورز کے مختلف نمائندوں کا آنا جانا بھی بہت تھا اس لئے میںیہاں PIMSکے اعلیٰ عہدیدارن سے گذارش کروں گا کہ مختلف میڈیکل سٹور کے ایجنٹو ں کے داخلے کو سختی سے روکا جائے وہ مریضوں کے لواحقین سے باہر سے منگوائی جانے والے دوائیں خود لے آنے کی کم داموں پر پیشکش کرتے ہیں اس پر وہ کافی منافع کماتے ہیں کہ میرے ذاتی تجربے کے مطابق اس میں کافی نفع ایجنٹ حضرات کا شامل ہے ۔اور اس طرح کے فعل میں یقینا گھر کے بھیدی بھی ملوث ہونگے؟ اگر ممکن ہو سکے تو وارڈز میں داخل مریضیوں کے ساتھ کچھ رعایت بالخصوص رپورٹس کے حوالے سے دی جائے کہ انکو کم از کم وقت میں فراہم کی جائے تاکہ غیر ضروی طور پر وقت ضائع نہ ہو اور کم ازکم وقت میں مریض کا علاج معالجہ ممکن ہو سکے۔جہاں وی آئی پی حضرات کو سب جلدی سے فراہم ہو جاتا ہے تو بچاری عوام جو اتنے ٹیکس ادا کرتی ہے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیوں نہیں کیا جاسکتا ہے۔ صحت میں پاکستان ویسے بھی باہر کے ممالک سے کافی پیچھے ہے اگر علاج نجی ہسپتالوںسے ہی عوام نے ٹیکس ادا کرکے کروانا ہے تو پھر سرکاری ہسپتالوں کا اللہ ہی حافظ ہے۔
نتیجہ پھر وہی ہو گا سنا ہے چال بدلیں گے
پرندے وہی ہونگے بس شکاری جال بدلیں گے
بدلنا ہے تو دن بدلو َ،بدلتے کیوں ہو ہندسوں کو
مہینے پھر وہی ہونگے سنا ہے سال بدلیں گے
چلو ہم مان لیتے ہیں مہینہ ساٹھ سالوں کا
بتاﺅ کتنے سالوں میں ہمارے حالات بدلو گے؟

یہ سوال سوال ہی شاید رہے گا کہ ہمارے لیڈران کے پاس اسکا کوئی جواب نہیں ہے اور شاید ہم خود بدلنا بھی نہیں چاہتے ہیں اسی وجہ سے حالات بدل نہیں پا رہے ہیں؟آخر میں ڈاکٹر صاحبان سے مودبانہ گذارش کروں گا کہ وہ اپنے فرض کو ہر ممکن حد تک ایمانداری سے ادا کرنے کی کوشش کریں ،اگر آپ خدمت کی بجائے پیسہ کمانے اس شعبے آرہے تو تو خدارا کوئی دوسرا کاروبار شروع کر لیں ،عوام کی کھال اتارنے سے گریز کریں۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 392 Articles with 482114 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More